ملکی اور بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑپاکستان ڈیفالٹ کی راہ پر؟

تباہ کن صورت حال سے نکلنے کے لیے قابل عمل ”معاشی اصلاحات“ جو انتخابات سے پہلے کی جائیں

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا خصوصی مضمون

ممتاز بینکار اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی کے چیئرمین، اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے فیلو ہیں۔ آپ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سنڈیکیٹ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل آپ بینک آف خیبر کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز اور نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بینکوں میں اہم انتظامی عہدوں پر 30 سال تک خدمات انجام دی ہیں اور گزشتہ 23 برسوں سے ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں معیشت، اقتصادیات اور بینکنگ بشمول اسلامک بینکنگ پر مقالے پیش کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ان موضوعات پر اردو اور انگریزی میں پانچ سو سے زیادہ مضامین اور کالم لکھے ہیں۔ ان ہی موضوعات پر اُن کے تحقیقی مقالے ملکی و غیر ملکی علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے معاشی و سلامتی امور پر تجزیے ملکی و عالمی میڈیا پر بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے مندرجہ ذیل تین کتابیں لکھی ہیں:
ISLAMIC BANKING
PAKISTAN:Economic Growth & Stabilization. Myth or Reality
پاکستان اور امریکہ۔ دہشت گردی، سیاست و معیشت ۔

اس امر کے متعدد شواہد موجود ہیں کہ گزشتہ تقریباً پانچ برسوں سے ملکی و بیرونی اشرافیہ نے گٹھ جوڑ کرکے جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو جس تیز رفتاری سے تباہ کیا گیا ہے اس کی پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ان معاشی پالیسیوں میں سے متعدد پالیسیاں نہ صرف ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع ہیں بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک پراسراریت بھی ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کے اشارے پر آئی ایم ایف کا معاندانہ رویّے، اور کچھ ہماری اپنی دانستہ و غیر دانستہ ’’غلطیوں‘‘ اور سیاسی و عدالتی جھگڑوں کی وجہ سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضوں کا موجودہ پروگرام 30جون 2023ء کو مکمل ہوئے بغیر ختم ہوجائے گا۔ یہ پروگرام دراصل ستمبر 2022ء میں ختم ہونا تھا لیکن یہ بات راز ہی رہے گی کہ موجودہ حکومت نے اس پروگرام کی توسیع جون 2023ء تک کیوں کروائی تھی، کیونکہ اس مدت میں آئی ایم ایف کی شرائط کے نام پر متعدد ایسے اقدامات کیے گئے جن کے نتیجے میں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی مگر پاکستان کو آئی ایم ایف سے اب تک ایک ڈالر بھی نہیں ملا۔

دو اہم سوالات
یہ بات اب یقینی نظر آرہی ہے کہ اگلے مالی سال میں پاکستان تین سال سے زائد مدت کے لیے ایک بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرنے کے لیے دستِ سوال دراز کرے گا۔ اس کے لیے پاکستان کو انتہائی کڑی اور عملاً قومی سلامتی سے متصادم شرائط قبول کرنا پڑیں گی۔ یہ قرضہ بہرحال امریکہ کی آشیرباد کے بغیر نہیں ملے گا۔ اس ضمن میں دو سوالوں کے جوابات تلاش کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اوّل: آئی ایم ایف سے نجاتی پیکیج حاصل کرنے کی باقاعدہ درخواست حکومت کی جانب سے کب پیش کی جائے گی؟ دوم: آئی ایم ایف، دوسرے عالمی مالیاتی اداروں اور کچھ دوست ممالک سے قرضے و امداد ملنے کے باوجود کیا پاکستان امریکی آشیرباد کے بغیر مالی سال 2024ء اور مالی سال 2025ء میں اپنے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کی بروقت ادائیگی کرسکے گا؟

اس ضمن میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر قواعد کے مطابق قومی اسمبلی کو 12 اگست 2023ء کو تحلیل کردیا جاتا ہے تو انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت دسمبر 2023ء سے پہلے قرضے کی یہ درخواست پیش ہی نہیں کرسکے گی۔ چنانچہ قرضے کی قسط مارچ 2024ء کے بعد ہی ممکنہ طور پر پاکستان کو مل سکے گی۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف سے اپنے معاشی پروگرام کی توثیق کرائے بغیر اُس وقت تک گزارہ کرنا پاکستان کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔ یہ صورتِ حال پاکستان کے مال دار اور طاقت ور طبقوں کے لیے بھی خوش گوار نہیں ہوگی کیونکہ وہ حکومت سے مراعات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ان حالات میں خدشہ یہی ہے کہ حکومت امریکہ سے معاونت طلب کرے گی۔ اس ممکنہ معاونت کی بہت بھاری معاشی و سلامتی کی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

معاشی اصلاحات کو قانونی شکل یا اجتماعی خودکشی
مندرجہ بالا تباہ کن صورتِ حال سے نمٹنے کا واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے مندرجہ ذیل معاشی اصلاحات کو لازماً آئینی شکل دے دی جائے:

(1) وفاق اور صوبے 8 لاکھ روپے سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور سے نافذ اور وصول کریں۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد سے کم کرکے ساڑھے 7 فیصد کردی جائے اور پیٹرولیم لیوی ختم کردیا جائے۔

(2) کھلی منڈی سے بیرونی کرنسی مثلاً ڈالر خرید کر بینکوں کے بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں جمع کرانے پر پابندی لگادی جائے۔ تعلیم اور علاج معالجے کے اخراجات کو استثنیٰ دے دیا جائے۔

(3) انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 کو منسوخ کردیا جائے اور ہر قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اجراء پر پابندی لگادی جائے۔

(4) بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نقصانات، عام آدمی کو منتقل کرنے کی اجازت نہ ہو۔

(5)ملک کے اندر موجود ایسے لاکھوں ناجائز اثاثوں کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں جو اُس آمدنی سے بنائے گئے تھے جن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تھا۔ ان تمام اثاثوں پر ملکی قانون کے تحت 6 ماہ کے اندر ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے حکومت کو خطیر رقوم حاصل ہوں گی۔ ان رقوم کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔

(6) جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں لازماً 3 فیصد مختص اور خرچ کیا جائے۔

یہ ازحد ضروری ہے کہ انتخابات سے پہلے ان تمام معاشی اصلاحات کو آئینی حیثیت دے دی جائے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے ہر امیدوار کو قانوناً پابند کیا جائے کہ وہ انتخابی فارم میں یہ حلف نامہ دے کہ اگر اقتدار میں آنے کے بعد اس کی پارٹی نے 3ماہ کے اندر یہ اصلاحات مؤثر طور پر نافذ نہیں کیں تو اس کا انتخاب بھی کالعدم ہوجائے گا۔ یہ امیدوار اس حلف نامہ پر بھی دستخط کرے کہ ماضی میں اس نے کسی بھی بینک سے قرضہ معاف نہیں کرایا ہے، یا چھوٹ حاصل نہیں کی ہے، اور نہ ہی کسی بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر یہ راستہ نہ اپنایا گیا تو یہ اجتماعی خودکشی ہوگی۔ اس کے متبادل کے طور پر ’’میثاقِ معیشت‘‘ کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو اگلے مالی سال میں آئی ایم ایف سے لیا جانے والا آخری پروگرام ہوگا اور خود انحصاری کے زریں اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایسی تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کرنا یقیناً ممکن ہوگا جس کے ثمرات میں عام آدمی کو اس کا جائز حصہ ملے۔

اشرافیہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں رکھنے کے لیے پُرعزم کیوں؟
بھارت کی معیشت 1994ء میں تباہی کے کنارے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ اس نے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ حاصل کیا۔ اس کے فوراً بعد بھارت نے انتہائی تیز رفتاری سے مؤثر معاشی اصلاحات کیں، نتیجتاً معیشت میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے آئی ایم ایف سے قرضے کی بقیہ اقساط نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ آج بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے مقابلے میں 1993ء سے اب تک پاکستان 12 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ قوم کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ یہ ملکی و بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہی ہے جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں جکڑے رہنا چاہتا ہے، وگرنہ کوئی وجہ نہیں کہ مندرجہ بالا اصلاحات پر عمل درآمد کرکے پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے بے نیاز نہ ہوسکے۔ اقتدار میں آنے اور برقرار رہنے کے لیے پاکستان میں سیاسی پارٹیاں امریکی اور ملکی اشرافیہ کی مدد پر انحصار کرتی ہیں۔ امریکہ پاکستان کو اپنا دستِ نگر رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کو استعمال کرتا ہے، جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں حکومتیں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتی ہیں مگر طاقت ور طبقوں کو بدستور مراعات دیتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ملکی اشرافیہ کی حمایت بھی حکومتوں کو ملتی رہتی ہے۔

ڈیفالٹ کا اعلان کرنے کی مہم اور افواہوں کا بازار
گزشتہ تقریباً ایک سال سے پاکستان کی اہم شخصیات یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے، اور یہ کہ ہم ایک دیوالیہ ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ کرنے، سرمائے کا فرار ہونے دینے، اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں زبردست کمی کی وجہ سے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت یہ مہم چلائی جارہی ہے کہ پاکستان کو ازخود ڈیفالٹ کا اعلان کردینا چاہیے۔ اور اس کے بعد ایسی تجاویز پیش کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے ملک میں افواہوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ یہ معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ چنانچہ ایک طرف سرمائے کا فرار تیز ہوگیا ہے، دوسری طرف معاشی سرگرمیاں ماند پڑرہی ہیں۔ یہ پاکستان کے خلافت گہری سازش ہے۔ یہ عناصر اس خطرے کا ادراک نہیں کررہے کہ جب پاکستان جیسا جوہری قوت اور شاندار محلِ وقوع کا حامل بڑا اسلامی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کے کیا خوفناک مضمرات سامنے آتے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں حکومت پر ڈیفالٹ کا اعلان کرنے کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے ساتھ امریکہ کی معاونت سے ایسا راستہ نکالا جائے جس پر عمل پیرا ہوکر حکومت کو آسانی میسر رہے تاکہ ان طبقوں اور ان کے حمایتیوں کو بدستور مراعات ملتی رہیں۔ وہ بے تحاشہ دولت کماتے رہیں اور اس کا ایک حصہ باہر منتقل کرتے رہیں، جبکہ ملک قرضوں کے بوجھ میں جکڑا رہے اور عوام کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا رہے۔ یہی نہیں، اس حکمت عملی کے نتیجے میں چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی بڑھتا ہی رہے۔ ملک میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے صرف طاقت کا استعمال بڑھانے کے نتیجے میں خصوصی طور پر خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں احساسِ محرومی بڑھنے کے ساتھ وفاق سے بداعتمادی بھی بڑھ رہی ہے جو کہ پریشان کن ہے اور ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ہے جبکہ عوام اشرافیہ کی اقتصادی، دہشت گردی کا بھی شکار ہورہے ہیں۔

چین کا کردار
پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے میں چین کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں چین کا حصہ تقریباً 25 فیصد ہے۔ چین آئندہ بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار رہے گا مگر عالمی مالیاتی نظام میں اپنا حصہ بڑھانا چین کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ چنانچہ اگر پاکستان اپنی معاشی پالیسیوں کی آئی ایم ایف سے توثیق نہیں کراتا تو چین پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گا۔

نیوگریٹ گیم اور امریکی ایجنڈا
پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستانی معیشت کو کمزور اور اپنا دستِ نگر رکھنا، خطے میں بھارت کی بالادستی مکمل طور سے قائم رکھنا اور حکومت و قوم اور افواجِ پاکستان اور قوم کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کرنا نائن الیون کے بعد امریکی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ نیو گریٹ گیم کے مقاصد میں آنے والے برسوں میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کی سرحدوں میں خدانخواستہ ایسی تبدیلیاں لانا جس سے پاکستان کی سرحدیں چین، افغانستان اور ایران سے نہ ملیں امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے بھی کہا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔

حیران کن اور پُر اسرار فیصلے۔ صرف پانچ حقائق
(1) 2019ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کو پُراسرار طور پر تبدیل کردیا اور آئی ایم ایف کے ایک حاضر سروس افسر ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کردیا تھا۔ مارچ سے جون 2020ء کی مدت میں کورونا کی آڑ میں اسٹیٹ بینک نے حیران کن طور پر ڈسکاؤنٹ ریٹ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمی کردی جبکہ 2073 ارب روپے کا ایک زبردست پیکیج بھی دیا گیا جس سے طاقت ور اور مال دار لوگوں نے خوب دولت کمائی مگر معیشت بحران میں مبتلا ہوگئی اور عوام کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی۔

(2) تحریک انصاف کے دور میں مالی سال 2021ء اور 2022ء میں حکومت و اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت بینکوں نے کم شرح سود پر نجی شعبے کو بے تحاشہ قرضے دیے اور بے تحاشہ درآمدات بھی کی گئیں۔ نتیجتاً مالی سال 2022ء میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ملکی درآمدات میں 24 ارب ڈالر اور تجارتی خسارے میں 17ارب ڈالر کا تاریخی اضافہ ہوا، جبکہ بجٹ خسارہ بڑھا۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 7.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ اس طرح ایک حکمت عملی کے تحت معیشت کو بحران میں مبتلا کردیا گیا۔

(3) مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے وزیراعظم شہبازشریف کے دور میں جولائی 2022ء سے مئی 2023ء کے 11 ماہ میں درآمدات میں 21 ارب ڈالر، تجارتی خسارے میں تقریباً 17ارب ڈالر، برآمدات میں 3.5 ارب ڈالر، ترسیلات میں 3.8 ارب ڈالر، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 5.8 ارب ڈالر کی زبردست کمی ہوئی۔ یہی نہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 83روپے فی ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ مئی 2023ء میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی۔ معیشت کی شرح نمو بہرحال اس مالی سال میں منفی رہے گی۔ یہ سب معیشت کی تباہی کے کچھ اعداد و شمار ہیں مگر طاقت ور طبقے بدستور منافع کماتے رہے۔

(4) موجودہ حکومت کے دور میں ہنڈی/ حوالہ اور اسمگلنگ کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت معاملات کو حتمی شکل دینے میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ چنانچہ معاشی بحران کو سنگین سے سنگین تر بنادیا گیا مگر ہنڈی/ حوالہ کا کاروبار کرنے والوں، اسمگلنگ کرنے والوں اور بینکوں نے خوب منافع کمایا۔

(5) موجودہ حکومت نے ستمبر 2022ء میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف کے قرضے کے پروگرام میں جون 2023ء تک توسیع کرواکر پہاڑ جیسی ’’غلطی‘‘ کی تھی۔ اس مدت میں عوام پر ٹیکسوں کا خوب بوجھ ڈالا گیا اور ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا گیا، مگر آئی ایم ایف سے ایک ڈالر بھی نہیں ملا۔ اگر یہ توسیع نہ کرائی جاتی تو حکومت دسمبر 2022ء سے پہلے ہی آئی ایم ایف سے تین سال کی مدت کے لیے بڑی رقم کے قرضے کی درخواست کرسکتی تھی۔ اب قرضے کی یہ درخواست دسمبر 2022ء کے بجائے ممکنہ طور پر دسمبر 2023ء میں کی جائے گی۔ اگر دسمبر 2022ء میں آئی ایم ایف سے قرضے کی درخواست کردی جاتی تو معاشی بحران اتنا سنگین نہ ہوتا اور ملکی اشرافیہ کو یہ موقع ہی نہ ملتا کہ وہ حکومت پر ڈیفالٹ کا اعلان کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ یہی نہیں موجودہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے قرضے کی 1.1ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا جو بوجھ ڈالا گیا اور روپے کی قدر گرائی گئی وہ ایک قسط کے لیے نہیں بلکہ بڑی رقم کے قرضے کے لیے ہوتی، اور آئی ایم ایف کی جانب سے اتنی سخت پیشگی ’’شرائط‘‘ بھی نہ ہوتیں۔

چوتھی سیاسی قوت۔ وقت کی ضرورت
ملکی و بیرونی اشرافیہ کے ناپاک گٹھ جوڑ کے نتیجے میں وطن عزیز میں گزشتہ برسوں میں جو زبردست تباہی آئی ہے اس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ملک میں ملکی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ میں ارکانِ پارلیمنٹ، ارکانِ صوبائی اسمبلی، موجودہ و سابق حکومتیں و سیاست دان، سول اور ملٹری بیوروکریسی بشمول اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور نیب، تجارتی بینک، عدلیہ، وفاقی شرعی عدالتیں، اسلامی نظریاتی کونسل، علماء و دینی جماعتیں، مختلف شعبوں کے ماہرین و دانش ور، صنعت، تجارت و زراعت سے وابستہ افراد، ادارے اور تنظیمیں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا شامل ہیں۔

اب یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ اس ناپاک گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے ایک چوتھی سیاسی قوت میدان میں آئے۔ ملک میں پریس کانفرنسیں، سیمینار اور جلسے وغیرہ کرکے بڑے پیمانے پر ہنگامی طور سے عوامی مہم چلانا ہوگی تاکہ اس ضمن میں رائے عامہ کو تیار کیا جاسکے۔ اس وقت فوری ضرورت بہرحال یہ ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ضرور ہوں مگر انتخابات سے پہلے مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں بنیادی معاشی اصلاحات کو قانونی شکل دینے کے لیے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مہم چلانا وقت کی اہم ترین اور فوری ضرورت ہے۔

اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
’’اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔“ (الرعد 11)