میئر کے جعلی انتخاب میں پیپلزپارٹی، سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت مکمل طور پر بے نقاب
پاکستان پیپلزپارٹی کے متنازع میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس طرح بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 9 ٹاؤن میں جماعت اسلامی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین نے اپنی ذمہ داری کا حلف اُٹھا لیا۔ ڈی سی آفس سینٹرل میں ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی شرکت کی۔ صوبائی الیکشن کمشنر سندھ نے سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات تین مرحلوں میں مکمل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
اہلِ کراچی نے کھلی آنکھوں سے بلدیاتی انتخابات میں جمہوریت اور ووٹ کی بے وقعتی کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ اس وقت شہر کراچی کے لوگ گھروں سے بازاروں تک غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ سب حیران و پریشان ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر نادیدہ قوتیں اس شہر کے لیے کیا چاہتی ہیں؟ جماعت اسلامی بھی سراپا احتجاج ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر کراچی میئر کے انتخابات میں سندھ حکومت کی جانب سے پولیس گردی، دھونس، دھاندلی، منتخب بلدیاتی نمائندوں کے اغوا کے خلاف جمعہ کو ملک بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ لاہور، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، ٹنڈو الہ یار، خیرپور اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے، جلوس اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ان مواقع پر سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے جمہوریت کُش اقدامات کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی۔ احتجاجی مظاہروں کے شرکا نے کتبے اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ”سلیکٹڈ میئر نامنظور“ اور دیگر نعرے درج تھے۔ اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے جمہوریت کو کراچی کی گلیوں، کوچوں میں دفنانے کی کوشش کی۔ میئر کے انتخابات میں سوا تین لاکھ کو نو لاکھ پر فاتح قرار دے دیا گیا، جمعرات کے واقعے کے بعد عوام الیکشن کمیشن پر کیسے اعتماد کریں گے؟ کراچی میئر کی سلیکشن کو مسترد کرتے ہیں، شہر کے عوام کے مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے قانون کے مطابق عدالتوں میں بھی جائیں گے اور چوکوں چوراہوں میں بھرپور احتجاج بھی جاری رہے گا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا اس ضمن میں مطالبہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 31 نمائندوں کو میئر کے انتخاب میں آنے سے روکنے، اغوا اور لاپتا کرنے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اور میئر کے جعلی انتخاب میں پیپلز پارٹی، سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت مکمل طور پر بے نقاب ہوچکی ہے، جو الیکشن کمیشن کراچی میں صاف شفاف اور آزادانہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا سکا وہ قومی انتخابات کیا کرائے گا! الیکشن کمیشن کی نااہلی اور پیپلز پارٹی کا آلہ کار بننے کے خلاف جمعہ23جون کو الیکشن کمیشن اسلام آباد کے باہر زبردست احتجاج کیا جائے گا۔ آج پورا ملک کراچی میں عوام کے مینڈیٹ پر قبضے کے خلاف اہلِ کراچی کی پشت پر کھڑا ہے اور ہر جگہ لوگ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ چور کہہ رہے ہیں، پیپلز پارٹی نے 15جنوری سے قبل ہر طریقے سے بلدیاتی انتخابات کو روکا، لیکن جب انتخابات ہوگئے اور عوام نے جماعت اسلامی کو بھاری مینڈیٹ دے دیا اور ہماری سیٹیں سب سے زیادہ نکلیں تو ان کو آر اوز اور ڈی آر اوز کے ساتھ مل کر اور دوبارہ گنتی کے نام پر کم کرنے کا عمل شروع کیا گیا، فارم 11اور 12کے باوجود نتائج میں تبدیلی اور دھاندلی کی گئی، الیکشن کمیشن نے اس پورے عمل میں پیپلز پارٹی کی اے ٹیم کا کردار ادا کیا، اورنگی ٹاؤن کی 6یوسیز کا پہلے تو خود ہی نوٹس لیا لیکن اس کے فیصلے میں مسلسل تاخیر کی گئی اور بعد میں دوبارہ گنتی کے نام پر یہ سیٹیں پیپلز پارٹی کو دے دی گئیں، ہماری جیتی ہوئی سیٹوں پر قبضہ کیا گیا۔
اس سے قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر یوم سیاہ کے پس منظر میں کراچی میں بھی اہم پبلک مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے، بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھی گئیں، سیاہ جھنڈے لہرائے گئے، مظاہرین نے پیپلز پارٹی، سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور پُرجوش نعرے لگائے، جن میں یہ نعرے شامل تھے ”گلی گلی میں مچ گیا شور، پکڑو پکڑو مینڈیٹ چور“، ”تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو“، ”فتح کی سمت متحد، بڑھے چلو، بڑھے چلو“، ”ظلم کے نظام کو ہم نہیں مانتے، ظلمتوں کی شام کو ہم نہیں مانتے“، ”جاگیردار سیاست میں، سارا صوبہ آفت میں“، ”جاگیردار حکومت میں، سارا صوبہ آفت میں“، حق دو کراچی کو“، ”اب کے برس ہم اہلِ کراچی اپنا پورا حق لیں گے“۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے شاہراہ قائدین پر ایک بڑے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا ملک کراچی کے عوام کی پشت پر کھڑا ہوگیا ہے، پیپلز پارٹی کو پورا پاکستان مینڈیٹ چور اور ڈاکو کہہ رہا ہے۔ کراچی سے چترال تک سندھ، پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں عوام نے احتجاج کیا ہے اور یہ نعرہ گونج گیا ہے کہ ”گلی گلی میں مچ گیا شور، پکڑو پکڑو مینڈیٹ چور“۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے، اب اسے پورے پاکستان میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور جواب دینا ہوگا کہ کراچی میں عوام کے مینڈیٹ پر قبضہ کرکے کیوں جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا؟ انہوں نے کہا کہ عوام کے مینڈیٹ پر قبضہ اور میئر کے جعلی انتخاب کو قبول نہیں کریں گے، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی فسطائیت، حکومتی جبر و تشدد اور غیر جمہوری، غیر آئینی ہتھکنڈوں کے خلاف اور اپنا مینڈیٹ واپس لینے کے لیے ہر قسم کی آئینی، قانونی، جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے غیر منتخب شخص کو میئر بنانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے اور عدالت عالیہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ترمیمی بل کے خلاف جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ آیا تو میئر کا یہ انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا اور دوبارہ انتخاب ہوگا، ہم نے 6یوسیز کے حوالے سے جن کے فارم 11 اور 12ہمارے پاس موجود ہیں، کیس سپریم کورٹ میں دائر کردیا ہے اور امید ہے کہ ہمارے حق میں فیصلہ آئے گا اور اس سے ہماری عددی اکثریت میں اضافہ ہوگا۔ ،حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی والے کس منہ سے کراچی کے چارٹر کی بات کرتے ہیں! پیپلز پارٹی نے ہی تو کراچی کے وسائل، حقیقی نمائندگی، مردم شماری اور ملازمتوں پر ڈاکا ڈالا ہے، K-4 منصوبہ 18 سال بعد بھی مکمل نہیں کیا گیا ہے، کراچی سرکلر ریلوے کا بھی کئی بار افتتاح کیا گیا لیکن آج کہاں ہے سرکلر ریلوے؟ سڑکوں کی مرمت اور نالوں کی صفائی کے اربوں روپے کرپشن اور نااہلی کی نذر کردیے گئے۔ کہاں ہیں کراچی کے حقوق؟ اور اب کراچی کے چارٹر کی بات کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے 9ٹاؤن میں چیئرمین کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 4ٹاؤن میں ہماری سیٹیں کم کرکے ہروایا گیا، اگر 15جنوری اور 7مئی کے بلدیاتی انتخابات میں عوام کی جانب سے دیے گئے عوامی پر ڈاکا نہ ڈالا جاتا اور جیتی ہوئی سیٹیں کم نہ کی جاتیں تو کراچی کے 14/15ٹاؤنزجماعت اسلامی کے ہوتے۔ 15جون کو میئر کے جعلی انتخاب میں بھی اکثریت کو دھونس، دھمکی، دھاندلی اور غنڈہ گردی کے ذریعے کم کیا گیا، پی ٹی آئی کے 31منتخب نمائندے اغوا اور لاپتا کردیے گئے اور ایک غیر منتخب فرد کو میئر کی صورت میں مسلط کردیا گیا۔ یہ کراچی اور اس کے عوام کے ساتھ ظلم ہے جو ریاست کی طاقت کے بل بوتے پر ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن حکمرانوں اور مقتدر اداروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جبر و طاقت کے بل پر زیادہ عرصے تک حکمرانی نہیں کرسکتے،اہلِ کراچی کے اندر غم وغصہ ہے اور سیاست پر گہری اور عمیق نظر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں جب بھی عام انتخابات ہوں گے، جماعت اسلامی کو کراچی میں بڑی تعداد مِیں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملنے کی امید ہے۔