سورت کے ایک مشہور بزرگ مولانا فیض اللہ ہمدانی صاحب نے ابتدائی تعلیم کی ایک اسکیم اور درسی کتابوں کا ایک کورس تیار کیا تھا۔ ان کا مشن تھا کہ پورے ہندوستان میں صرف ان کا ہی کورس رواج پذیر ہو اور منظور ہو۔ بمبئی پراونشل مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں مسٹر احمد ہارون جعفر کی معرفت اور آل انڈیا کانفرنس میں مجھ ناچیز کی معرفت سال بہ سال وہ اپنے کیس کو آگے بڑھانے کی جہد فرماتے۔ ان کی نظر میں کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ صرف ان کی اسکیم اور کتابوں پر غور کرے۔ پونا، ہبلی، جبل پور اور علی گڑھ کے بعد اب آگرہ میں ان کے شاہکار کو اجاگر کرنے کا فرض میری جانِ حزیں پر مسلط تھا اور میں اپنے تجربے اور کہنہ مشقی کے بل پر اِس دفعہ بھی اپنے کو بچا رہا تھا اور مولانا تھے کہ قدم قدم پر چاہے میں کسی حال میں کیوں نہ ہوں، مجھ سے اُلجھ رہے تھے۔ جب حسبِ معمول ان کو مجھ سے مایوسی ہونے لگی تو پھر انہوں نے ایک بہت ہی بڑا ہاتھ مارا۔ یعنی سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں جس کی صدارت نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب فرما رہے تھے، کھڑے ہوکر میرے خلاف بہت سخت احتجاج کیا اور اصولِ جمہوریت کا واسطہ دے کر نواب زادہ صاحب سے پُرزور مطالبہ کیا کہ وہ اس ناانصافی کو روا نہ رکھیں۔ نواب زادہ صاحب ایک معمر بزرگ کی ناراضی کی تاب کس طرح لاتے! فوراً مجھ سے جواب طلب کیا۔ میں نے اپنی صفائی میں زبانی تو ایک لفظ نہ کہا البتہ مولانا کی اسکیم اور کتابوں وغیرہ کا وہ بڑا بھاری بستہ جو اُن کے ساتھ تھا، اٹھا کر نواب زادہ صاحب کی میز پر لے جا کر رکھ دیا اور کہا کہ مجھے تعمیلِ ارشاد میں کیا عذر ہوسکتا ہے! میری مظلومیت اور مولانا کے بستے کی گراں باری دیکھ کر نواب زادہ صاحب اور سارا مجمع ایک دم ہنس پڑا۔
مولانا بھی کچی گولیاں کھائے ہوئے نہ تھے۔ انہوں نے جو اپنے خلاف یہ رنگ دیکھا تو تڑپ کر ایک ہی جست میں نواب زادہ صاحب کے پاس پہنچ گئے اور ہاتھ بڑھا کر بولے ’’جناب! معاف کیجیے، آپ مجھے یوں نہیں ٹال سکتے‘‘۔
نواب زادہ صاحب کو بھی ہار ماننا پڑی اور مولانا کی اسکیم کی تائید میں ایک محتاط سا ریزولیوشن پاس کردیا۔
یادش بخیر ابھی چند ہفتے کی بات ہے، ہمارے محترم مولانا ہمدانی صاحب عارضی پرمٹ پر کراچی تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے دفتر آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کو اور مجھے ڈھونڈ نکالا۔ ملاقات ہوتے ہی زور آزمائی شروع ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کتابوں اور اسکیم کے بارے میں تمہاری کانفرنس نے نواب زادہ صاحب کی صدارت میں ریزولیوشن پاس کیا ہے۔ اب کہ نواب زادہ صاحب ایک وسیع سلطنت کے مالک ہیں اس لیے اُن کا فرض ہے کہ وہ میری کتابوں کو سارے پاکستان میں جاری کرنے کا حکم صادر کردیں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اگر احمد ہارون جعفر صاحب چاہیں گے تو آپ کا کام ہوجائے گا۔ مولانا اس پر احمد صاحب کے پاس پہنچے۔ انہوں نے حلیم صاحب کے پاس بھیج دیا۔ حلیم صاحب نے مسٹر امتیاز احمد خان ڈائریکٹر تعلیم کراچی کو ٹیلی فون کردیا۔ خان صاحب موصوف ہمارے حلیم صاحب کی طرح مولانا سے واقف نہ تھے اس لیے انہوں نے ضابطہ کی بات کی اور مایوس کردیا۔ مجبوراً پھر میرے پاس آئے اور میں نے اس دفعہ جناب نواب صدیق علی خاں صاحب کی بہت کچھ ثنا و صفت کردی، لیکن شاید وہاں تک رسائی نہ ہوئی اور احمد ہارون صاحب نے ہی مولانا کی سفارش میں ایک طویل عرضداشت پر دستخط کرکے آنریبل وزیر تعلیم کی خدمت میں اسے روانہ کردیا اور مولانا خوش خوش نواب زادہ صاحب اور ان کے وزیر تعلیم کو دعائیں دیتے ہوئے اپنے وطن واپس ہوگئے۔
ایک روز شب کے اجلاس میں پنڈال میں ہنگامہ ہوگیا۔ جن صاحب کے خلاف ہنگامہ تھا وہ ڈائس پر تشریف رکھتے تھے، لہٰذا مجمع کا پُرجوش حصہ جو جس کے ہاتھ میں آیا لے کر ڈائس پر چڑھ گیا۔ دس پندرہ منٹ تک نواب زادہ صاحب کے بالکل سر پر ایسی ہڑبونگ ہوتی رہی کہ الامان والحفیظ! بالآخر ہنگامہ خودبخود فرو ہوگیا، لوگ اپنی اپنی نشستوں پر آکر بیٹھ گئے اور جلسے کی کارروائی جس جگہ رکی تھی پھر وہیں سے شروع ہوگئی۔ نواب زادہ صاحب اس پورے عرصے میں حیرت انگیز سکون کے ساتھ خاموش بیٹھے رہے، منہ پھیر کر بھی نہ دیکھا کہ کیا ہورہا ہے۔ بڑے اطمینان کے ساتھ سگریٹ پر سگریٹ پیتے رہے۔
( سید الطاف علی بریلوی علیگ،بحوالہ ’’شہید ملت لیاقت علی خان، تعلیم سے سیاست تک‘‘۔ مئی 2001ء)
مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔