انسانی اسمگلنگ کا شرم ناک کاروبار

یونان میں کشتی ڈوبنے کے سانحہ پر ہر دل غم زدہ اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کشتی پر سوار سات سو میں سے چار سو مسافر پاکستانی تھے جن میں سے صرف بارہ زندہ بچ سکے، جاں بحق ہونے والے بہت سے مسافروں کی لاشیں تک نہیں مل سکی ہیں۔ موت کے سفر پر نکلے ان نوجوانوں کے گھروں پر کہرام بپا ہے ، والدین اور قریبی عزیز و اقارب رو رو کر ہلکان ہیں اور گریہ وزاری میں مصروف درخواستیں کر رہے ہیں کہ ان کے پیارے اگر زندہ نہیں ہیں تو ان کی میت ہی ورثاء کو لا دی جائے تاکہ ان کے لیے صبر کا کوئی سامان ہو سکے۔ آنکھوں میں بہتر روز گار کے خواب سجائے یہ نوجوان لیبیا سے یونان کے راستے اٹلی جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے، اپنی نوعیت کا یہ نہ تو پہلا سانحہ ہے اور نہ ہی اس کے آخری ہونے کا یقین کیا جا سکتا ہے، حکومت نے اسے بھی معمول کا ایک واقعہ سمجھتے ہوئے پہلے تو خاموشی اختیار کئے رکھی مگر جب عالمی سطح پر اس کی سنگینی کا شور بپا ہوا تو وزیر اعظم نے پیر کو ’’یوم سوگ‘‘ منانے کا اعلان کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کے لیے چار رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کشتی ڈوبنے کے تمام حقائق جمع کرے گی، انسانی سمگلنگ کے مختلف پہلوئوں کی تحقیق کے بعد ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ عالمی سطح پر اشتراک عمل اور تعاون کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں گی۔ مزید برآں ایسے واقعات کا سبب بننے والے افراد، کمپنیوں اور ایجنٹوں کو سخت ترین سزائیں دینے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ کمیٹی فوری، درمیانی اور طویل المدت قانون سازی کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات بھی پیش کرے گی۔ کمیٹی ایک ہفتے میں اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے گی جس کی روشنی میں مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سانحہ کے بعد وزیر اعظم نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے درندہ صفت انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایت بھی کی گئی ہے…!

جناب وزیر اعظم کے ان اقدامات کو غلط تو نہیں کہا جا سکتا تاہم انہیں ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ ضرور کہا جائے گا۔ انسانی سمگلروں کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل، کشتیاں الٹنے اور کنٹینرز میں دم گھٹ کر قیمتی انسانی جانوں کے اسی نوعیت کے متعدد واقعات قبل ازیں سامنے آ چکے ہیں، وزیر اعظم اگر ان واقعات کے بعد انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر اور بروقت اقدامات کرتے تو 14 جون کا سانحہ شاید رونما نہ ہوتا اور وزیر اعظم کو قوم سے 19 جون کو ’’یوم سوگ‘‘ منانے کی درخواست کرنا نہ پڑتی… ممکن ہے پاکستانی اداروں نے بھی ایسی کوئی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی ہو تاہم ان اداروں کی نا اہلی کے سبب اگر ایسا نہیں بھی ہوا تو وزیر اعظم کو اقوام متحدہ کی رپورٹ ہی دیکھ لینا چاہئے تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی صورت حال نہایت سنگین ہوتی جا رہی ہے، یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتیں اور بچے زیادہ اس مذموم کاروبار کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جو کچھ اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کے سبب اور کچھ جبراً ظلم کی اس بھٹی میں جھونک دیئے جاتے ہیں، انسانی اسمگلنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجی جانے والی قوم کی ان بچیوں کو عام طور پر جبری شادی، صنفی زیادتی اور گھریلو کاموں کے لیے غلام بنا کر رکھنے سمیت کئی دیگر مذموم مقاصد میں بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چار برس کے دوران پاکستان سے انسانی سمگلنگ کے ایک دو نہیں، اسی ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے، حیرت ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر اس شرمناک کاروبار کے باوجود حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں نے آنکھیں بند رکھیں اور اس کی روک تھام کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی موثر، ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام دیکھنے میں نہیں آیا… !!

وزیر اعظم نے 14جون کے سانحہ کے حقائق کی تلاش کے لیے جو اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی ہے، اس کے ذمہ ایسے واقعات کے ذمہ دار عناصر کو سخت ترین سزائیں دینے کے لیے فوری درمیانی مدت اور طویل المدت قانون سازی کے لیے سفارشات پیش کرنا بھی شامل ہے لیکن ہم عرض کریں گے کہ اس ضمن میں نئی قانون سازی سے کہیں زیادہ ضرورت پہلے سے موجود قوانین پر ان کی روح کے مطابق موثر عملدرآمد کی ہے کیونکہ اس وقت بھی جو قانون موجود ہے جس کی منظوری 2018ء میں قومی اسمبلی نے دی تھی، اس کے تحت انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے جب کہ جرم کی نوعیت سنگین ہونے کی صورت میں چودہ سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران اس قانون کے تحت کتنے انسانی سمگلروں کو سزا دلوائی گئی ہے؟ جب تک قانون پر عمل یقینی نہیں بنایا جاتا، سخت سے سخت سزا بھی مطلوبہ نتائج ظاہر نہیں کر سکتی … اس ضمن میں اہم ضرورت یہ ہے کہ جو ادارے ایسے جرائم کی روک تھام کے ذمے دار ہیں، ان کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اگر ان اداروں کے افسران کو ایسے جرائم کے سامنے آنے پر جواب دہ ٹھہرایا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ حکام مجرموں سے رشوت لے کر ان کے گندے دھندے کا حصہ نہ بنیں تو اس جرم کو روکنا بہت زیادہ مشکل نہیں سب سے اہم کام جو خود حکمرانوں کی توجہ کا متقاضی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے وسائل کا بڑا حصہ اپنے اور اشرافیہ کے دیگر طبقات کے عیش و آرام پر خرچ کرنے کی بجائے ملک سے غربت، افلاس اور مہنگائی و بے روز گاری کے خاتمہ پر صرف کریں تاکہ با صلاحیت نوجوان خطرات مول لے کر اور زندگی کو دائو پر لگا کر ترک وطن پر مجبور نہ ہوں …!!!

(حامد ریاض ڈوگر)