اقبالیاتی ادب

علامہ اقبال پاکستان کے سب سے مقبول شاعر ہیں اور ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہاشمی صاحب کے بقول:

’’اقوام عالم میں یہ اعزازو انفرادیت صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اس کا قومی شاعر نہ صرف اپنے دور اور اپنی زبان کا سب سے عظیم شاعر ہے بلکہ نظریۂ پاکستان کے حوالے سے بھی اسے ہمارے فکری اکابر میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ کسی ملک کو علامہ اقبال جیسی عبقری اور مختلف الحیثیات شخصیت کا میسر ہونا جس کا شعری، فکری اور فلسفیانہ مقام و مرتبہ دنیا بھر میں مسلّم ہے، اس ملک اور اس ملک کے باشندوں کی سعادت اور روشن بختی کی دلیل ہے۔ یہ اقبال کے عظیم فکری سرمائے اور شعری ورثے کا اعجاز ہے کہ ہماری قومی اور ملّی زندگی کا کوئی شعبہ ان کے تذکرے اور ان کے اثرات سے خالی نہیں۔‘‘

شاید اسی لیے ہاشمی صاحب نے اقبالیات کو اپنی تحقیق اور تحریری کاوشوں کا مرکز بنایا۔ لمحہِ موجود میں اگر کہا جائے کہ پاکستان میں آپ اقبالیات پر مستند ترین نام اور حوالہ ہیں تو شاید مبالغہ آرائی نہ ہو۔ اقبال پر آپ کی تصانیف کی تعداد 27ہے۔

تازہ تصنیف’’اقبالیاتی ادب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جو حسبِ ذیل مقالات پر مشتمل ہے:

علامہ اقبال کی سوانح عمریاں۔عرب دنیا میں اقبال شناسی۔ بھارت میں اقبالیات(1)، بھارت میں اقبالیات(2)، اقبالیات 1984ء۔اقبالیات 1998ء۔اقبالیات 2001ء۔ اقبال: جادوگرِ ہندی نثراد،ـ ایک مطالعہ۔ دہلی میں علامہ اقبال سیمی نار

معروف دانشور، محقق اور نقاد ڈاکٹر وحید قریشی (مرحوم) ہاشمی صاحب کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ایک مدت سے اقبالیات کو اپنا میدانِ خاص بنایاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبالیات ایک بحر ِ ذخار ہے جس سے پوری توجہ کے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ ہاشمی صاحب نے اپنے شب وروز کا بنیادی محور اقبال کو بنا کر اختصاصی مطالعے کو اہمیت دی ہے۔ اس لیے نتائج کے استخراج میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔‘‘

اسی طرح اردو زبان و ادب کے استاد، نامور محقق اور نقاد ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں:

’’پیشِ نظر اوراق میں انھوں نے علامہ اقبال پر وجود میں آنے والے سوانحی سرمائے، عالمِ عرب اور سرزمینِ بھارت میں ہونے والی اقبالیاتی کاوشوں اور بعض اہم کتابوں کو بھی موضوعِ تحقیق ومحاکمہ بنایا ہے اور سلاست و صراحتِ فکر کے ساتھ اپنے نتائج پیش کیے ہیں۔ یوں اس کتاب کی حیثیت محض تعارفی اور توضیحی نوعیت کی نہیں، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کی بھی ہو گئی ہے، اور اس ضمن میں فاضل مصنف نے بحوالہ اقبالیات اپنی وسیع کتابیاتی معلومات سے بھی بہ خوبی استفادہ کیا ہے۔ امید ہے کہ اقبال پر تحقیقی نوعیت کا کام کرنے والے احباب اس کتاب کو مفید اور نتیجہ خیز پائیں گے۔‘‘

ان مضامین کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہاشمی صاحب کا زاویہ نظر معتدل اور متوازن ہے۔ انھوں نے اپنا نقطہ نظر بڑے مدلل طریقے سے پیش کیا ہے۔ اقبالیاتی کتابوں میں بعض تسامحات پر بجا طور پر گرفت کی ہے۔ مثلاً نامور صحافی اور ادیب عبد المجید سالک کی کتاب ’’ذکرِ اقبال‘‘ کی متعدد اغلاط اور خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔

188 صفحات پر پھیلے ہوئے آٹھ مقالات، موضوعات کی وسعت اور مباحث کے تنوع کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ اقبالیات پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے مگر باقی رہ جانے والی تحریریں بہت کم ہوتی ہیں۔ زیر نظر کتاب مستقبل کے مورخِ اقبالیات کے لیے ایک ناگزیر لوازمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے ہر محبِ اردو اور اقبال کو مستفید ہونا چاہیے۔

ناشرنے کتاب کو معمولی کاغذ پر چھاپا ہے اورروشنائی کہیں کم کہیں زیادہ ہے۔ایسی اقبالیاتی کتابوں کی طباعت تو بہت عمدہ، شان دار اور دل کش ہونی چاہیے۔ امید ہے ناشر اگلے ایڈیشن میں کتاب کو اونچے معیار پر شائع کریںگے۔