الطاف مجاہد

ینئرصحافی،کئی کتب کے مصنف اور معروف براڈ کاسٹر وادی مہران کی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا

صوفیائے کرام کی دھرتی وادی مہران سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی الطاف مجاہد نظریاتی، سادہ مزاج، دردمند، علم دوست اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے قرطاس وقلم کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ تقریباً چار دہائی قبل سندھ کے ایک پسماندہ اور دور افتادہ مگر مردم خیز قصبے شاہ پور چاکر ضلع سانگھڑ سے عروس البلاد کراچی میں وارد ہوئے اور پھر اپنے علمی و ادبی شوق، جذبے، محنت اور لگن کی بدولت ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے اس شہر میں صحافت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔

انتہائی کم عمری میں شعبہ صحافت سے وابستگی کا اعزاز رکھنے والے الطاف مجاہد کا نام ان کے والدین نے الطاف احمد خان رکھا تھا، لیکن آپ نے دورِ طالب علمی میں شعر و سخن سے تعلق کے باعث شاہدؔ کا تخلص اختیار کیا، تاہم بلند پایہ عالمِ دین اور شعلہ بیان خطیب مفتی عبدالرحیم سکندریؒ نے جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے الطاف احمد خان نے بہت کچھ سیکھا اور اخذ کیا، شاہد کے بجائے’’مجاہد‘‘کی شناخت عطا کی۔ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق قصبہ گوڑیانی (روہتک، ہریانہ ہندوستان) سے ہے جو پٹھانوں کے ایک قبیلے’’ناغڑ‘‘سے تعلق رکھتے ہیں اور قیام پاکستان کے بعد دہلی کے نواحی قصبے گوڑیانی سے ہجرت کرکے شاہ پور چاکر میں آن بسے تھے۔ چنانچہ آپ نے11اکتوبر1958ء کو سانگھڑ کے اسی مردم خیز قصبے شاہ پور چاکر میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم شاہ پور چاکر میں ہی حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی کتب بینی اور اخبارات و جرائد کے مطالعے کا شوق تھا جو رفتہ رفتہ گہرے مطالعے، تحریر اور خبروں کی جستجو اور رپورٹنگ کی صورت میں ڈھل گیا۔ چنانچہ دورِ طالب علمی میں روزنامہ ’’مشرق‘‘ کراچی، روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی، ہفت روزہ ’’الشمس‘‘ ملتان، پندرہ روزہ ’’ندائے افغان‘‘ ملتان کو اپنے علاقے میں منعقد ہونے والی مذہبی اور سماجی سرگرمیوں اور حالاتِ حاضرہ پر مشتمل خبریں باقاعدگی کے ساتھ ارسال کیا کرتے تھے۔

طبیعت کے مذہبی میلان اور اجداد سے ورثے میں ملے جذبۂ حب الوطنی کے باعث زمانۂ طالب علمی میں وابستگی انجمن طلبہ اسلام اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے رہی۔ اس زمانے میں انجمن طلبہ اسلام کی سرگرمیوں اور تقریبات کے پریس ریلیز اخبارات میں اشاعت کی غرض سے ارسال کیا کرتے تھے۔

ملک میں 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کے نتیجے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب روزنامہ جسارت کراچی کی اشاعت بحال ہوئی تو آپ کو شاہ پور چاکر میں اس اخبار کا نمائندہ مقرر کیا گیا۔ اسی دوران میں ایک دن سانگھڑ میں آپ کی ملاقات خبر رساں ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل(PPI) کے ڈسٹرکٹ رپورٹر مرحوم ایاز سندھی سے ہوئی، جنہوں نے پی پی آئی کے لیے بھی خبریں بھیجنے کا مشورہ دیا۔ الطاف مجاہد نے شاہ پور چاکر اور گردونواح کی واقعاتی خبریں پی پی آئی کو ارسال کرنا شروع کیں۔ اُس دور میں خبروں کی فوری ترسیل اور رابطوں کے لیے مطلوبہ ذرائع بآسانی دستیاب نہیں تھے اور ٹیلی فون کی سہولت بھی محدود ہوا کرتی تھی، البتہ ڈاک کے ذریعے ارسال کی جانے والی خبریں دوسرے دن کراچی پہنچ جایا کرتی تھیں۔

الطاف مجاہد نے پی پی آئی کے لیے اپنی پہلی خبر ’’راجہ میل‘‘ نامی ٹرین پر حکومت مخالف مظاہرین کی جانب سے پتھرائو اور توڑ پھوڑ کے متعلق ارسال کی، یہ ٹرین اُس دور میں نواب شاہ سے میرپور خاص کے لیے چلا کرتی تھی۔ انھی دنوں شاہ پور چاکر میں حکومت مخالف عناصر نے ایک شب شہر سے ملحقہ ’’سداواہ‘‘ نامی نہر کا پشتہ توڑ دیا تو آپ نے اس واقعے کی خبر بھی فوری طور پر پی پی آئی کو بھیجی جو روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ جسارت کراچی سمیت تمام اخبارات میں نمایاں شائع ہوئی تھی۔ اس طرح ان کے جذبۂ شوق کو جِلا ملی۔ ان ہی دنوں کراچی جانا ہوا تو الطاف مجاہد پی پی آئی کے دفتر بھی چلے گئے، جہاں آپ کی ملاقات ممتاز صحافی اور پی پی آئی کے ایڈیٹر فضل قریشی سے ہوئی، جنہوں نے مختصر تعارف کے بعد سینئر صحافی مرحوم صلاح الدین حیدر سے ملوایا جو اُن دنوں پی پی آئی میںڈسٹرکٹ ایڈیٹر تھے۔ مرحوم صلاح الدین حیدر نے الطاف مجاہد کی رہنمائی اورحوصلہ افزائی کرتے ہوئے پریس کارڈ بھی جاری کیا جو آج بھی الطاف مجاہد نے بطور یادگار رکھا ہوا ہے۔ 1979ء میں مزید تعلیم اور بہتر روزگار کے لیے الطاف مجاہد کراچی آئے تو کراچی میں اُس دور کے بہترین مقرر، صحافی اور سیاست دان ظہورالحسن بھوپالی کے ہفت روزہ جریدہ ’’افق‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ الطاف مجاہد سانگھڑ سے اس ہفت روزہ کے لیے خبریں اور رپورٹیں ارسال کیا کرتے تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوامی مزاج کے حامل ظہورالحسن بھوپالی اپنے قریبی احباب اور ساتھیوں میں بھائی جان کے لقب سے معروف تھے۔ اس دور میں انجمن طلبہ اسلام کراچی کے دفتر میں ایک مخلص اور فعال شخصیت جمیل بھائی مرحوم بھی ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ بڑی محبت سے الطاف مجاہد کو ظہورالحسن بھوپالی سے ملاقات کرانے کی غرض سے ان کی رہائش گاہ واقع پی ای سی ایچ سوسائٹی لے گئے جہاںظہور الحسن بھوپالی نے الطاف مجاہد کی صحافیانہ صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ہفت روزہ ’’افق‘‘ کراچی میں شمولیت کی پیشکش کی، الطاف مجاہد نے معاون مدیر کی حیثیت سے اس جریدے سے وابستگی اختیار کرلی۔ ابھی ہفت روزہ افق ارتقائی مراحل طے کر ہی رہا تھا کہ بعض سفاک قاتلوں نے 13 ستمبر 1982ء کے روز ظہورالحسن بھوپالی کو ان کے دفتر میں گھس کر شہید کردیا۔ بھوپالی صاحب کی شہادت کراچی شہر کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھی جس نے مستقبل میں کراچی اور سندھ کی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ بھوپالی صاحب کی شہادت کے کچھ عرصے بعد ہفت روزہ افق کراچی بھی بند ہوگیا جس کے بعد آپ روزنامہ ’’معراج‘‘ کراچی میں سٹی ایڈیٹر اور اس کے بعد شام کے ایک موقر اخبار روزنامہ ’’آغاز‘‘ کراچی سے بطور انچارج مانیٹرنگ ڈیسک وابستہ ہوگئے۔ معروف مصور محترم طاہر تلازہ کی وساطت سے مرحوم مرزا سلیم بیگ جو ملک کے کثیرالاشاعت روزنامہ جنگ کراچی کے میگزین ایڈیٹر تھے جنگ کراچی کے میگزین سیکشن سے وابستگی کا سبب بنے۔ مہران رنگ، جنگ فورم اور نوجوانوں کے صفحات کی نگرانی کی اور سٹی ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اسی دوران کراچی سے شام ہی کے ایک منفرد روزنامہ ’’قومی اخبار‘‘ کااجرا ہوا-کیونکہ اس اخبار کے مالکان الیاس شاکر اور مختار عاقل سے ان کی حیدرآباد میں دورِ طالب علمی سے ہی شناسائی تھی، اس لیے محترم مختار عاقل کے اصرار پر کئی برس قومی اخبار میں بھی کام کیا اور ادارتی صفحہ بشمول شہر قائد اور حیدرآباد کے صفحات کو مرتب کرتے رہے۔ الطاف مجاہد نے روزنامہ ’’آواز انٹرنیشنل‘‘ لندن کے کراچی بیورو میں ایڈیٹر پاکستان ڈیسک اور ایڈیٹر کشمیر ڈیسک کے اہم مناصب بھی سنبھالے۔ ستمبر1991ء میں ان کے ایک دوست رائومحفوظ علی مرحوم نے جو روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں ڈسٹرکٹ ایڈیٹر تھے، اخبار کے ایڈیٹر نیر علوی سے ان کی ملاقات کرائی اور نوائے وقت کے خصوصی سندھ ایڈیشن سے وابستگی کی پیش کش کی۔ الطاف مجاہد نے نظریۂ پاکستان کی مؤثر آواز روزنامہ نوائے وقت میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس دوران ان کے عزیز دوست رائو محفوظ علی کی اچانک وفات ہوگئی جس کے کچھ عرصے بعد آپ کو باقاعدہ طور پر روزنامہ نوائے وقت کراچی میں ڈسٹرکٹ ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ لکھنے لکھانے سے خصوصی دلچسپی کے باعث روزنامہ نوائے وقت کے میگزین اور ادارے کے ہفت روزہ جریدہ ’’فیملی میگزین‘‘ لاہور کے لیے سندھ کی سیاست کے نشیب و فراز اور تجزیوں پر مشتمل سندھ کی سیاسی ڈائری ’’مکتوب سندھ‘‘ کے عنوان سے لکھتے رہے۔ اس دوران آپ نے سندھ کے سیاسی، علمی، ادبی موضوعات پر بے شمار مضامین اور تجزیے تحریر کیے۔

صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے اخبار کے لیے کئی منفرد اور اچھوتے سلسلے بھی شروع کیے جن میں تقسیم ہند سے قبل کے کراچی کی 28 اہم اور معروف شخصیات حاتم علوی، قاضی خدا بخش مورائی، علامہ ظہور الحسن درس، غلام حسین ہدایت اللہ اور دیگر اہم شخصیات کے کارناموں پر معلوماتی مضامین اورکراچی کے صوفیائے کرام کی سوانح حیات شامل ہیں۔ آپ نے نئی نسل کو سورہیہ بادشاہ شہید پیر صاحب پگارا صبغت اللہ شاہ ثانی اور غازی عبدالقیوم شہیدکے ایام شہادت پر ان عظیم شخصیات کے شاندار کارناموں سے روشناس کرانے کا سلسلہ برسوں جاری رکھا۔

الطاف مجاہد نے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ’’شہرنامہ‘‘ پر کراچی شہر کی برگزیدہ اور روحانی ہستیوں کے تعارف اور حیات و افکارپر مبنی سلسلہ وار مضامین تحریر کرنے کا آغازکیا جس کے تحت آپ نے کراچی کے ’’روحانی تاجدار‘‘ کے عنوان سے حضرت عبداللہ شاہ غازی، حضرت شاہ دولہا سبزواری (واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو کو ان بزرگ سے بڑی عقیدت تھی، کارساز بم دھماکے کے دوسرے دن بے نظیر بھٹو جعفر فدو اسپتال، لی مارکیٹ سے متصل ان کے مزار پر گئی تھیں)، بابا بچل شاہ مستان بخاری، بابا عالم شاہ بخاری، عبداللہ شاہ اصحابی (ٹھٹہ)اور علامہ ظہورالحسن درس سمیت متعدد بزرگوں پر معلوماتی مضامین تحریر کیے تھے۔

الطاف مجاہد اپنی ریٹائرمنٹ تک یعنی26 برس روزنامہ نوائے وقت کراچی سے منسلک رہے۔ اس دوران آپ ایڈیٹر سندھ و بلوچستان، اسی ادارے کے ہفت روزہ فیملی میگزین لاہور کے نمائندۂ خصوصی برائے سندھ متعین رہے اور ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں ایک طویل عرصے تک سندھ کی سیاسی ڈائری، معلوماتی فیچرز اور معروف ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے رہے۔ روزنامہ نوائے وقت کراچی سے طویل وابستگی کے دوران روزمرہ ادارتی امور کی انجام دہی کے علاوہ آپ کی تحریر کردہ ہزاروں رپورٹس، مضامین اور تجزیے بھی شائع ہوئے۔ روزنامہ نوائے وقت کراچی کی طویل ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے باوجود خبروں کی دنیا کے راہی الطاف مجاہد کا شاہ پور چاکر کے چھوٹے سے قصبے کے علاقائی نامہ نگار سے شروع ہونے والا طویل سفر پوری آب و تاب سے تاحال جاری ہے۔

الطاف مجاہد سادہ مزاج، محنتی شخصیت ہیں جو سب کے لیے مساوات، دردمندی اور انسان دوستی کا استعارہ ہیں، لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔ آپ نے طویل عرصہ دورانِ صحافت معاشرے کے محروم طبقات کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے، اربابِ اختیار تک ان کی آواز پہنچانے اور انہیں حقوق فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی۔ چنانچہ آپ نے روزنامہ نوائے وقت کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اخباری ادارے کے درجنوں برطرف کارکن صحافیوں کے کروڑوں روپے کے جائز بقایا جات کی وصولی کے لیے ایک مؤثر اور نتیجہ خیز مہم بھی چلائی۔

الطاف مجاہد کومختلف موضوعات پر مطالعے اور تحقیق کا جنون ہے۔ آپ کے پاس کراچی شہر اور سندھ کی تاریخ، ثقافت، رسوم و رواج اور نامور شخصیات سے متعلق نادر و نایاب کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے۔ مختلف موضوعات پر شب وروز مطالعہ، نت نئے مضامین، خبروں اور رپورٹوں کی تیاری الطاف مجاہد کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ آپ کے’’اسٹڈی روم‘‘ میں مذہب، تاریخ، ادبِ، صحافت اور سوانح عمریوں کے موضوعات پر بیش بہا معلوماتی مواد اور سیکڑوں کتب موجود ہیں۔ اسی طرح مختلف اور متنوع موضوعات پر قابل قدر معلوماتی مواد، اخباری مضامین، فیچرز اور ہزاروں موضوعاتی تراشے بھی محفوظ ہیں جو انہوں نے مختلف عنوانات کے تحت کاغذ کے مختلف لفافوں میں بڑی حفاظت سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ وقت ملنے پر ان اخباری تراشوں کی مدد سے مختلف موضوعات پر رپورٹس اور مضامین بھی تحریر کرتے رہتے ہیں۔ الطاف مجاہد کے سینے میں سندھ کے مذہبی و سیاسی اور علمی خانوادوں، اہم علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات، تاریخی واقعات ومقامات سے متعلق معلومات کا ایک مستند، وسیع اور جامع ذخیرہ موجود ہے۔ اس لحاظ سے الطاف مجاہد کو وادی مہران کی تاریخ کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔

الطاف مجاہد روزنامہ نوائے وقت کراچی کے بیمہ دار فرد کی حیثیت سے EOBI کے تاحیات پنشن یافتہ بھی ہیں اور آپ نے EOBI کے لاکھوں پنشنرز کی رہنمائی کے لیے EOBI پنشنرز فورم بھی قائم کیا ہوا ہے جس کے پلیٹ فارم کے ذریعے آپ پنشنرز کو درپیش گوناگوں مسائل کو اربابِ اختیار تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

روزنامہ نوائے وقت کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باوجود گھر میں آرام اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے بجائے اپنے اسی ذوق و شوق اور جذبے کے ساتھ شعبہ صحافت اور براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ الطاف مجاہدآج کل اپنے اوّلین صحافتی ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل (PPI) کی اردو سروس کے انچارج ہیں۔

الطاف مجاہد 1999ء میں پاکستان ٹیلی ویژن اور 2013 ء میں ریڈیو پاکستان سے بطور کنٹری بیوٹر منسلک ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ ہر اتوار کے دن ریڈیو پاکستان کراچی کے معروف پروگرام ’’ڈیٹ لائن کراچی‘‘ اور جمعرات کو’’آج کی بات‘‘ اور ایف ایم 105 ریڈیو اسٹیشن سے حالات حاضرہ اور مختلف موضوعات پر سامعین سے پروگرام ’’پریس کلب‘‘ میں براہِ راست مخاطب ہوتے ہیں۔ آپ جیوے پاکستان نیوز ویب سائٹ سے بھی وقائع نگار خصوصی کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ الطاف مجاہد مختلف نجی نیوز چینلز ARY نیوز، میٹرو نیوز، سندھ ٹی وی، سچ ٹی وی، حق ٹی وی، آواز ٹی وی، سٹی چینل اور عوامی آواز ویب چینلز پر حالات حاضرہ پر گفتگو اور تبصرے کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح شہریوں کی آگہی کے لیے محکمہ پولیس کے ٹریفک قوانین سے متعلق ایف ایم ریڈیو 88.6 پر بھی کئی برس تک میزبانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ الطاف مجاہد نے 1988 ء میں کراچی سے ’’نورِ سحر‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ جریدے کا ڈیکلریشن بھی حاصل کیا تھا اور اپنے دوست خالد لودھی کی مدد سے اس ماہنامے کی اشاعت ایک عرصے تک جاری رکھی تھی جو ’’نہ نفع نہ نقصان‘‘کی بنیاد پر شائع اور مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ قبل ازیں آپ 1978 ء میںشاہ پور چاکر سے اپنے دوست محمد حنیف میمن کی مدد سے’’نورِ سحر‘‘ کوبطور کتابی سلسلہ شائع کرتے رہے تھے۔ آپ وفاقی حکومت کے ماہنامہ جریدے ’’پاک جمہوریت‘‘کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے ترجمان جریدے ’’آہنگ‘‘، محکمہ اطلاعات، حکومت سندھ کے ترجمان جریدے ’’اظہار‘‘، ہفت روزہ ’’سندھ منظر‘‘میں بھی مدتوں تک مختلف موضوعات پر قلم آرائی کرتے رہے ہیں۔

الطاف مجاہد اردو کے ساتھ ساتھ سندھی میں بھی روانی سے بولنے اور اس میں اظہار خیال کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ روزنامہ جنگ کراچی، روزنامہ جرات کراچی، روزنامہ ایکسپریس کراچی، روزنامہ عبرت حیدرآباد، روزنامہ سوبھ اور جریدہ ’’ہمسری‘‘، نیز ہفت روزہ صدائے مخدوم مظفر گڑھ کے لیے بھی وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر مضامین قلمبند کرتے رہتے ہیں۔

الطاف مجاہد 1992ء میں رشتہ ازداج میں منسلک ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار صاحبزادیوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک صاحبزادی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوچکی ہیں، جبکہ بقیہ تین صاحبزادیاں اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیمی منازل طے کررہی ہیں۔الطاف مجاہد اپنی تمام کامیابیوں کا کریڈٹ اپنی اہلیہ شگفتہ ناز خان کو دیتے ہیں جنھوں نے ان کی علمی، ادبی مصروفیات میں ہمیشہ معاونت کی، اور ساتھ ہی وہ اپنے تمام دوستوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا: ’’خوش قسمت وہ ہے جس کی شریکِ حیات وفادار، اولاد فرماں بردار اور دوست مددگار ہوں‘‘۔ اور الحمدللہ! انہیں یہ تینوں نعمتیں اور مسرتیں پوری فراوانی سے میسر ہیں۔