پاکستانی اور کشمیری اہل دانش کے درمیان رابطے کی کامیاب کوشش
آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیراہتمام مظفرآباد میں پاکستان لٹریری فیسٹیول کے عنوان سے ہونے والی دو روزہ سرگرمی پاکستان کے دانش ور طبقے اور کشمیری عوام کے درمیان معاملات اور مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک اچھی اور کامیاب کوشش تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان کے دانش ور طبقے کو کشمیریوں کے جائز اور حقیقی مسائل کو سمجھنے اور زمینی حقائق کا اندازہ
کرنے میں مدد ملی۔ بقول شاعر:
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
اس سرگرمی کا افتتاح گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کیا، اور مختلف پروگراموں کے ذریعے کشمیر اور پاکستان کے اہلِ فکر و نظر کے درمیان رابطہ اور ڈائیلاگ ہوتا رہا۔ کانفرنس کے مستقل شرکاء میں پاکستان آرٹس کونسل کے چیئرمین احمد شاہ، سینئر آرٹسٹ منور سعید، نورالہدیٰ شاہ، عباس تابش، عنبرین حسیب عنبر، بیگم ناصر، جاوید اقبال، بیگم احمد شمیم، فواد حسن فواد، اخلاق احمد، وسعت اللہ خان، حامد میر، سلیم صافی، عاصمہ شیرازی، شاہین اختر، مظہر عباس شامل تھے، جبکہ آزادکشمیر کی طرف سے سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر، جسٹس منظورحسین گیلانی، مدحت شہزاد، عطا اللہ عطاء، صغریٰ صدف، ڈاکٹر آمنہ بہار، طارق نقاش، واحد اقبال بٹ، راجا شوکت اقبال، ابراہیم گل اور راقم السطور ادب، سیاست، کلچر اور صحافت کے حوالے سے مختلف سیشنز میں شریک ہوئے۔ اس سرگرمی میں آزاد کشمیر کے نوجوان طلبہ و طالبات اور اہلِ فکر و دانش نے بھی بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر پالیسی بالخصوص پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والے حالات بھی زیر بحث آئے۔ مشاعروں اور ثقافتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ دو پروگراموں کو بہت دلچسپی سے سنا گیا اور ان پر عوامی ردعمل تقریب کے دوران اور بعدازاں سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سامنے آیا۔ ان میں ایک محفلِ مذاکرہ 5 اگست 2019ء کے حوالے سے تھی، جس میں شرکاء نے مقبوضہ کشمیر کے حالات اور آزادکشمیر کی آئینی اور سیاسی ضرورتوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ اس تقریب کا ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں آزادکشمیر کے سیاست دانوں اور پاکستان کے دانش وروں نے آزادکشمیر حکومت کو پوری ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کرنے پر زور دیا۔ اس سیشن میں آزاد کشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت پیپلز پارٹی کے چودھری لطیف اکبر اور مسلم لیگ (ن) کے راجا فاروق حیدر خان بھی شریک تھے۔ اس اہم سیشن کے ماڈریٹر وسعت اللہ خان تھے۔
پاکستان اور آزادکشمیر کے دانش وروں کی طرف سے آزادکشمیر کو نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلامیہ ایک طویل مدت کے بعد سامنے آنے والی سوچ کا ایک نیا زاویہ ہے۔ آزادکشمیر کے عوام کے لیے یہ تصور نیا نہیں بلکہ ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ منظور قادر اور آزادکشمیر کے اُس وقت کے صدر کے ایچ خورشید نے مشترکہ طور پر نئے حالات میں یہ تصور پیش کیا تھا، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ حکومتِ پاکستان اپنی بین الاقوامی مجبوریوں کے باعث کشمیر پر دبائو کی زد میں آجاتی ہے، اس لیے بین الاقوامی محاذ پر یہ مقدمہ لڑنے کے لیے آزادکشمیر حکومت کو باقاعدہ کردار دیا جانا چاہیے۔ آزادکشمیر حکومت کے سفارت خانے اسلام آباد سمیت دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں قائم ہونے چاہئیں۔ بعد میں حالات تبدیل ہوتے ہی ایوب خان حکومت اس تصور سے ہٹ گئی تھی اور اس نظریے کا سارا بوجھ کے ایچ خورشید کے کندھوں پر آن پڑا تھا، اور یہ محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ اب ناکام تجربات کے بعد اس تصور کی افادیت دوبارہ تسلیم کی جانے لگی ہے جس کا ثبوت یہ مشترکہ اعلامیہ بھی تھا۔ اس محفل میں کے ایچ خورشید کے قریبی عزیز شاعر، مصنف اور سابق بیوروکریٹ فواد حسن فواد بھی موجود تھے جنہوں نے اپنا مؤقف بہت کھل کر بیان کیا۔
پانچ اگست کے بعد حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی مختلف حوالوں سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔ اس موقع پر پاکستان کا کمزور ردعمل اور سکوت، آزاد کشمیر کا بطور بیس کیمپ نان فنکشنل ہونا، اور وزیراعظم آزادکشمیر کو امریکہ روانہ کرکے منظر سے غائب کرنا.. ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا جواب وقت دیتا چلا جارہا ہے۔ ان سوالوں کا پہلا جواب تو سب سے بڑے واقفِ حال سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپنے انٹرویوز میں دیا، جن کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کے قائل ہوچکے تھے کہ کشمیر کو بیس سال کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھ کر بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جانا چاہیے مگر سیاسی مُہر کے بغیر یہ منصوبہ روبہ عمل آنا ممکن نہیں تھا۔ اب بھارت کے معروف صحافی اور دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی نے بھی اپنے تازہ وی لاگ میں پاکستان کی موجودہ سنگین بحرانی صورتِ حال پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلق کی دیوار میں پہلی دراڑ کشمیر پالیسی ہی بنی۔ اس اختلاف کے باعث کشمیر کے بارے میں عالمی منصوبے پر عمل میں ایک رکاوٹ پیدا ہوگئی۔
کانفرنس کا دوسرا اہم ترین سیشن ”مسئلہ کشمیر میں میڈیا کا کردار“ کے عنوان سے منعقد ہونے والی محفلِ مذاکرہ تھی جس کی میزبان عاصمہ شیرازی تھیں، جبکہ شرکائے گفتگو میں وسعت اللہ خان، حامد میر، مظہر عباس، جبکہ آزادکشمیر سے طارق نقاش، واحد اقبال بٹ اور راقم السطور شامل تھے۔ اس محفل میں بھی بہت کھری اور کھلی باتیں ہوئیں جن میں حاضرین کی بھرپور دلچسپی رہی اور بعد میں سوشل میڈیا پر بھی یہ زیر بحث آتی رہیں۔ اس تقریب میں کشمیری شرکاء نے پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر اور میڈیا پالیسی پر گلے شکوے کیے، وسعت اللہ خان کی تقریر کے دوران طلبہ کے ایک گروپ نے جذباتی ہوکر نعرے بازی شروع کی۔ یہ نوجوان ’’یہ ملک ہمارا ہے… اس کا فیصلہ ہم کریں گے… اس پر حکومت ہم کریں گے‘‘ کے نعروں سے اپنی تنظیمی اور نظریاتی حاضری لگوانا، اور محفل میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے تھے۔ اس نعرے بازی پر وسعت اللہ خان اور حامد میر نے اظہارِ ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو نعرے لگانا ہیں تو لگائیں، ہم چلے جاتے ہیں۔ جس کے بعد نعرے بازی ختم ہوگئی اور پروگرام دوبارہ چل پڑا۔ سوشل میڈیا پر کچھ حلقوں نے یہ تاثر دیا کہ یہ کوئی ہلڑ بازی تھی، یا نعرے بازی وسعت اللہ خان کی کسی بات سے مشتعل ہوکر کی گئی۔ ایسا قطعی نہیں تھا۔ آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں میں قوم پرست طلبہ تنظیم این ایس ایف سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبہ شرکاء کو اپنے خیالات اور نظریات سے واقف کرانا چاہتے تھے، اور اس نعرے بازی کی ساری وجہ یہی تھی۔ بعد میں عاصمہ شیرازی نے بھی ایک وڈیو کلپ میں اس کی وضاحت کی۔ قومی دھاروں سے کٹے ہوئے علاقوں اور لوگوں کو جب اپنی بات کہنے کے مواقع میسر آئیں تو وہ اگلے پچھلے سارے گِلے موقع پر ہی کرنا چاہتے ہیں، اس لیے پاکستان لٹریری کونسل کی اس تقریب کو بھی مقامی شرکاء نے اسی انداز میں لے کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ راقم السطور نے گزارش کی کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرنے والوں کے لیے اب پاکستان کی ’’پاکستان پالیسی‘‘ کا معاملہ اہم ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک کا اس وقت حلیہ بگڑ کر رہ گیا ہے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت، پچیس کروڑ آبادی اور بے پناہ معدنی وسائل کے حامل ملک کی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ پاکستان اس حالت کو نہ تو ایک دن میں پہنچا، نہ کسی ایک فرد کی وجہ سے یہ دُرگت بنی۔ کشمیری پاکستان پر انحصار کیے ہوئے ہیں، پاکستان کی کمزوری اور زوال انہیں اندر سے توڑ دیتا ہے، اور پاکستان کی مضبوطی ان کے حوصلوں اور عزائم کو ہمالیہ کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔1971ء کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔ کشمیری راہنما شیخ عبداللہ بائیس سال تک جیل میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ انہوں نے کشمیریوں کی امید کو مرنے نہیں دیا، مگر جب پاکستان دولخت ہوا تو بھارت نے انہیں باور کرایا کہ پاکستان تو اب ٹوٹ چکا ہے، اب وہ کبھی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا، اس لیے جو کچھ ملتا ہے لے لیں اور تاریخ کا یہ بوجھ پٹخ دیں۔ شیخ عبداللہ نے حالات کے دبائو میں اپنی بائیس سالہ قربانیوں کو نظرانداز کرکے اندرا عبداللہ ایکارڈ کرکے کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ قبول کرلی۔ یہ کشمیر کی تحریک کا سب سے بڑا المیہ تھا جو پاکستان کے ٹوٹنے سے پیدا ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے کشمیری نژاد مشیر یوسف بچھ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو لندن سے اسلام آباد بلواکر یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان کشمیریوں کی مدد کی پوزیشن میں نہیں رہا، اس لیے اپنے والد شیخ عبداللہ کو بتادیں کہ بھارت جو کچھ دے رہا ہے، قبول کرلیں۔ شملہ معاہدے میں سیز فائر لائن کے کنٹرول لائن میں بدلنے سے بھی کشمیریوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان عالمِ مجبوری میں اِدھر ہم اُدھر تم کا حل قبول کرچکا ہے۔ بعد میں کشمیریوں کی ایک تازہ دم نسل میدان میں اُتری اور اس نے پاکستان کے عالمِ مجبوری میں کیے جانے فیصلوں کا بوجھ اُٹھانے سے انکار کیا اور ستّر کی دہائی کے وسط سے کشمیر میں محاذِ آزادی، پیپلزلیگ، اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ، اسلامی جمعیت طلبہ اور الفتح کے نام سے کئی تنظیمیں وجود میں آکر بھارت کے لیے نیا چیلنج کھڑا کرتی رہیں۔ اس بدلی ہوئی فضا میں جب شیخ عبداللہ آزادی پسندی کا محاذ سُونا کرگئے تو اس خلاء میں سید علی گیلانی، اعظم انقلابی، فاروق رحمانی، محمد مقبول بٹ جیسے نام سامنے آتے چلے گئے۔ بعد میں پاکستان کی کشمیر پالیسی دبائو میں بنتی بگڑتی رہی۔ جب بھی امریکہ کا دبائو آیا، پاکستان نے کشمیر کی تحریک سے دامن بچالیا اور کشمیریوں کی حمایت کا گراف گرا دیا، اور جب امریکہ کو بھارت کی کلائی مروڑنے کی ضرورت پڑی تو پاکستان کو گو اے ہیڈ کا اشارہ دے دیا۔ مطلب براری کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان اور کشمیر سے نظریں موڑ لیں۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کے آغاز میں امریکہ کا ایک کردار موجود تھا اور آئی ایس آئی کے اہم اہلکار میجر عامر نے کئی بار تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے خودمختار کشمیر کے لیے کام کرنے والے سی آئی اے کے ایک نیٹ ورک کو پکڑا تھا۔ سی آئی اے نے کشمیر میں اُسی وقت تک دلچسپی لی جب تک بھارت نے اپنی منڈیاں مغرب کے لیے نہیں کھولی تھیں، نوّے کی دہائی کے اوائل میں جونہی یہ کام ہوا امریکہ بھارت کی سمت کھڑا ہوکر کشمیر کے مسئلے کو بھارت کے زاویۂ نگاہ سے حل کروانے میں جُت گیا۔
آج پاکستان 1971ء جیسی مایوس کن صورتِ حال کا سامنا کررہا ہے۔ معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا پاکستان کشمیریوں کو مایوس اور ناامید کرنے کے سوا کسی اور پوزیشن میں نہیں رہا۔ کشمیر کے لیے واحد امید بھارت پر طاری چین اور پاکستان کی دو محاذوں کی جنگ کا خوف تھا۔ اب سال بھر سے پاکستان میں جو حالات پیدا ہورہے ہیں وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان اس پالیسی پر سجدۂ سہو کررہا ہے۔