حکمران اتحاد فوجی عدالتوں سے متعلق کچھ تحفظات رکھتا تھا لیکن اب واضح ہوگیا ہے کہ ملٹری کورٹس لگیں گی۔
وفاقی دارالحکومت میں جہاں بھی چلے جائیں، جس محفل میں بھی شریک ہوں، دو ہی سوال ہیں: عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ اور انتخابات کب ہوں گے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب غیر سیاسی فریق کے پاس تو ہے مگر سیاسی فریق ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے گھبرا رہا تھا۔ تاہم صرف ایک ملاقات کے بعد ملک کا سیاسی فریق بھی کسی بڑے سیاسی نام کی تمیز کیے بغیر اُن تمام افراد کے خلاف بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مقدمہ چلانے پر راضی ہوگیا ہے جو 9مئی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ اب معافی کسی کے لیے نہیں۔ سیاسی فریق کے اس فیصلے پر قومی اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد سے مہر بھی ثبت کردی گئی ہے۔ پہلے فیصلہ تھا کہ ہاتھ ہولا رکھا جائے، لیکن اب فیصلہ ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ قومی اسمبلی کی قرارداد کے بعد اب مقدمات ملٹری کورٹ میں جارہے ہیں۔ جن کی شناخت ہوچکی اور جن جن کی شناخت ہوتی چلی جائے گی، ان کے مقدمات اب ملٹری کورٹ میں جائیں گے۔
اب رہ گئی بات اسمبلی کی مدت میں اضافہ کرنے کی… یہ فیصلہ بھی جولائی میں حتمی شکل اختیار کرلے گا۔ گویا آئندہ تین ہفتے ملکی سیاست کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ ان بڑے فیصلوں کا تجزیہ کیا جائے تو منظرنامہ کچھ یوں بن رہا ہے کہ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی سمجھے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ ابتدائی نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگئی، کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کردیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین ایک ہی اسکرپٹ دہرا رہے ہیں۔ حکمران اتحاد فوجی عدالتوں سے متعلق کچھ تحفظات رکھتا تھا لیکن اب واضح ہوگیا ہے کہ ملٹری کورٹس لگیں گی۔ سب سے بڑا دبائو عمران خان پر آئے گا، انہیں 9 مئی کے واقعات کا ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان کے رویّے میں اب یہ تبدیلی آئی ہے کہ وہ ضد اور انا چھوڑ کر مسلسل مذاکرات کرنے کی بات کررہے ہیں، لیکن ان کی اس بات پر توجہ دینے والا کوئی نہیں ہے، وزیراعظم شہبازشریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اُن لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کردیا ہے جنہیں انہوں نے ’’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘‘ قرار دیا جو ’’سیاست دانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘‘۔ تحریک انصاف ممکنہ طور پر اُس وقت تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہوجاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورتِ حال کیا ہوگی؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی تشکیل دی گئی ہے جو تحریک انصاف کی گاڑی سے اترنے والوں کے لیے نئی پناہ گاہ ہے، تاہم جہانگیر ترین سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا چاہیں گے۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک اچک سکتے ہیں یا نہیں؟ اب یہاں اس سوال کا جواب پانے کے لیے پنجاب کے سیاسی میدان کو دیکھنا ہوگا کہ یہاں کے سیاسی دستر خوان سے انہیں کیا ملتا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہوجاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہوگی۔کیا تحریک انصاف کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہوچکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اور اس لیڈر کے اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟
اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 13 اگست کو ختم ہورہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہوسکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کردیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرام یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ فی الحال سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔
یہ غیر یقینی کی صورتِ حال ہمارے ملک کی سیاست کے لازمی جزو کی طرح ہوچکی ہے، البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جارہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ملکی معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔ تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان 30 جون تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کرتا۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالر تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہوسکتے ہیں۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتِ حال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو؟
ہماری موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تقریباً 9 ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ 13 اگست کو پارلیمان کا ایوانِ زیریں تحلیل ہوجائے گا اور آئین کے تحت 12 اکتوبر تک انتخابات کروائے جانے چاہئیں۔ تاہم اس وقت ایک جمہوری انتقالِ اقتدار مشکل نظر آتا ہے۔ہمارے اس متزلزل جمہوری عمل کا مستقبل بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کی مدت میں توسیع کے لیے کسی غیر آئینی قدم کے خطرات بڑھ رہے ہیں، بلکہ اس حوالے سے تو طویل مدتی نگران سیٹ اپ کی باتیں گردش میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کسی انجان راستے کی جانب جارہا ہے۔حکمران اتحاد اور مقتدر حلقوں کے لیے موجودہ سیاسی کشمکش کے منفی اثرات سے بچنا مشکل ہوگا۔ اس سیاسی کشمکش نے ملک کو تقسیم کردیا ہے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہی نہیں کیا جارہا اور سیاست سے باہر کی قوتیں واضح طور پر سیاسی انجینئرنگ کررہی ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے مخالف کو کمزور ہوتا دیکھ کر خوش ہورہی ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا واقعی انتخابات مقررہ مدت کے اندر ہوں گے؟ یا ہم طویل مدت کے لیے نگران سیٹ اپ دیکھنے جا رہے ہیں؟ یہ سب اس بات پر منحصر ہوگا کہ اگلے چند ہفتوں میں صورتِ حال کس طرف جاتی ہے۔ عمران خان کی نااہلی قریب نظر آتی ہے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس کے سیاسی نتائج سے کیسے نمٹیں گے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ کی مدت میں معاشی بدحالی کو کیسے روکا جائے گا؟۔ یہ کام اسمبلی کی مدت بڑھائے بغیر ممکن نہیں۔