بلدیاتی اداروں کے عہدوں پر وڈیروں اور ان کی اولادوں کا تسلط
پاکستان پیپلزپارٹی کی ساری سیاسی تاریخ ہی ماضی تا حال، ہمیشہ فسطائیت اور موروثی اقدار و روایات پر عمل پیرا ہونے کی حامل رہی ہے۔ بہ ظاہر جمہوریت کی نام لیوا اور جمہوری اقدار کی علَم بردار اِس جماعت نے ہمیشہ ہی اپنے کیے گئے دعووں اور لگائے گئے نعروں کے بالکل برعکس بدترین فاشزم کو اپنائے رکھا ہے۔ پی پی پی کی ہر دور کی قیادت نے ہمیشہ سے ہی اوروں کو اپنے ظاہری سیاسی چہرے کو لیپا پوتی، ملمع سازی اور میک اَپ کے ذریعے پُرکشش، قابلِ قبول اور حسین و جمیل دکھانے کی اپنی سی بھرپور سعی کی ہے، تاہم اس کی سیاسی تاریخ، کارناموں، عمل اور اصل چہرے سے آگاہ واقفانِ حال بہ خوبی جانتے ہیں کہ درحقیقت اوائل ہی سے اقبالؒ کے الفاظ میں اس کا اصل چہرہ تو بہ ظاہر روشن، مگر اندرون چنگیز سے بھی تاریک تر رہا ہے۔ اپنے قیام کے ساتھ ہی زبانی کلامی تو جمہوریت، جمہوریت کا شیریں اور سریلا راگ الاپنے والی پی پی پی کی قیادت عملی طور پر ہمیشہ سے ہی ’’دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘‘ کا بھیانک اور مکروہ کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی پی پی پی کی قیادت اپنی اسی سابقہ روش پر گامزن رہی ہے۔ اس نے حسبِ عادت و روایت اب کی مرتبہ بھی وہی کچھ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جو اس کے مزاج کا خاصہ اور فطرتِ ثانیہ ہے۔ جب پی پی پی کی قیادت کراچی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی دیہی سندھ کے اضلاع کی طرز پر تمام تر دھونس، دھاندلی، ترغیب اور تحریص کے باوجود مطلوبہ اکثریت کے حصول میں ناکام اور نامراد ثابت ہوئی اور اہلِ کراچی نے پی پی پی کے موجودہ اور سابقہ بدترین حکومتی ریکارڈ کے پیش نظر اس کے برعکس بلدیاتی امور کے حوالے سے سنہری اور تاریخی ترقیاتی ریکارڈ کی حامل جماعت اسلامی کے نمائندوں کو بذریعہ ووٹ اکثریت کی حامل اپنی نمائندہ جماعت کے طور پر پذیرائی بخشی جو جمہوریت کی نام نہاد علَم بردار پی پی پی کی قیادت کے لیے خفت کا باعث بن گئی ہے، اور وہ اب مسلسل اپنے مکروہ روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے کراچی کی میئر شپ کے صحیح معنوں میں اہل امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن کی راہ میں روڑے اٹکانے میں جتی ہوئی ہے۔ وہ کراچی کے سیاسی اور شہری شعور کو سزا دینے کے لیے اپنا میئر لاکر کراچی کو بھی سندھ کے اپنے زیرنگیں دیگر اضلاع کی طرح اور زیادہ خراب و خستہ کرکے مزید کھنڈر بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ پی پی پی کی قیادت کے حالیہ فسطائی عمل سے اُس کے نام نہاد جمہوری ملمع شدہ چہرے سے سارا نقاب اترگیا ہے۔ یہ دراصل پی پی پی کی ہر دور کی قیادت کا شعار رہا ہے۔ اس نے ماضی تا ایں دم جمہوریت، جمہوریت کے نعرے تو خوب خوب بلند کیے ہیں لیکن اس کا عمل ہمیشہ ہی سے اِس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو صرف کراچی ہی نہیں بلکہ سارا صوبہ سندھ پی پی پی کی قیادت کی موروثیت پسندی، اس کی فسطائیت اور قول و فعل میں تضاد بلکہ حد درجہ منافقت پر دلالت کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ہفتۂ رفتہ پی پی پی کی قیادت کی جانب سے لوکل باڈیز الیکشن کے دوسرے مرحلے (جس میں میئر اور چیئرمین کا انتخاب ہونا ہے) کے لیے 5 جون کو سندھ کے حوالے سے کارپوریشن، اضلاع، تعلقہ جات اور شہروں (میونسپلٹیوں) کے نامزد امیدواروں کا اعلان کردیا گیا ہے، اور ایک مرتبہ پھر پی پی پی کی قیادت کی طرف سے جمہوری تماشا کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے کی بھرپور سعی کی گئی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ سندھ میں خصوصاً تمام لوکل باڈیز الیکشن میں پی پی پی نے اپنی روایتی سیاسی پالیسی اور ہتھکنڈوں سے اکثریتی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ پی پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے اپنی پارٹی کے جن امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ان ناموں کی منظوری پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دی ہے، اور بلاشبہ اس کی حتمی منظوری سابق صدر اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے والدِ گرامی قدر آصف علی زرداری نے ہی دی ہوگی۔ قابلِ ذکر اور لائقِ غور و فکر امر یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوے داروں، علَم برداروں اور اس کا وقت بے وقت اونچے اور نچلے سُروں میں موقع کی مناسبت سے راگ الاپنے والوں نے میئرشپ، چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں، ڈسٹرکٹ کونسلرز کے جو نام اپنی جمہوری پارٹی پی پی پی کے پلیٹ فارم سے نامزد کیے وہ سارے کے سارے نام، جی ہاں سارے کے سارے نام جن میں پی پی پی کے کسی عام سیاسی ورکر یا جیالے کا نام بھولے سے بھی شامل نہیں کیا گیا، وہ سب نام طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے وڈیروں، بھوتاروں، جاگیرداروں، پیروں، زمینداروں اور مہروں کے ہیں، جو رجواڑوں، کیٹیوں، بنگلوں اور بہت بڑی بڑی اراضی پر محیط زرعی زمین کے مالکان ہیں۔ پی پی پی کی قیادت نے اپنے کسی بھی عام سیاسی ورکر کو مذکورہ بالا پارٹی عہدوں کے لیے نامزد کرنا گوارا نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی جیالے ہی کو کوئی عہدہ دیا گیا ہے۔ پی پی پی قیادت نے ہمیشہ کی طرح اب کی مرتبہ بھی اپنی سابقہ روش پر عمل کیا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات ہرگز نہیں ہے۔ دراصل پی پی پی کی قیادت کا خمیر ہی فسطائیت اور موروثیت سے تشکیل شدہ ہے۔ اگر کسی ضلع میں پی پی پی سے وابستہ کوئی وڈیرہ، بھوتار یا جاگیردار اب اِس دنیا میں نہیں رہا اور قبل ازیں وہ کسی ضلع میں چیئرمین، وائس چیئرمین یا کسی بلدیاتی عہدے پر تھا تو اب موروثیت پسند پی پی پی کی قیادت نے حسبِ موقع مرحوم کے بجائے اس کے بیٹے، بھائی یا کسی اور رشتے دار کو نام زد کردیا ہے۔ پی پی پی کی قیادت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سندھ کے بلدیاتی عہدوں پر وڈیروں، بھوتاروں یا پھر اُن کی اولادوں کو مسلط کرنے سے پی پی پی کی قیادت کے جمہوریت کے دعووں کی کامل نفی ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے چہرے سے جمہوریت کا نقاب مزید سرک اور لبادہ بالکل اترگیا ہے جسے پہن کر وہ ایک عرصے سے اہلِ وطن، خصوصاً اہلِ سندھ کو دھوکا دینے میں بڑی مکاری، عیاری اور ہوشیاری کے ساتھ مصروف ہے۔ وطنِ عزیز کی تقریباً ہر سیاسی، قوم پرست اور دینی جماعت اسی المیے سے دوچار ہے جہاں منصب، عہدہ اور اقتدار نسل درنسل موروثیت کی بنیاد پر منتقل ہوتا دیکھا گیا ہے۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سبھی کرتے ہیں کہ صرف جماعت اسلامی ہی دراصل صحیح معنوں میں جمہوری اقدار اور روایات کی حامل اور موروثیت سے یکسر پاک پارٹی ہے۔ پی پی پی کو تو کم از کم مذکورہ بالامثال کے بعد بالکل بھی خود کو ایک جمہوری پارٹی کہلوانا زیب نہیں دیتا۔ پی پی پی ایک فاشسٹ پارٹی ہے اور اسے یہ لقب اس کی قیادت کی جانب سے مکروہ انتخابی ہتھکنڈوں کو اپنانے کی بنا پر ملا ہے۔ وہ ہر غیر قانونی، غیر اخلاقی حربہ آزما کر سندھ میں بلدیہ سے لے کر صوبائی اور قومی سطح کا الیکشن تو جیت لیتی ہے لیکن اِس کی وجہ سے اس کی جو اخلاقی ساکھ تباہ و برباد ہوچکی ہے اس کی اسے کوئی فکر نہیں ہے۔ شاید پی پی پی قیادت اس بات پر صدقِ دل سے یقین رکھتی ہے کہ (واللہ اعلم) ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!!؟‘‘
سندھ کے بلدیاتی اداروں کی سیاست میں پی پی پی نے اپنے کارکنان کے بجائے مؤثر سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کو ایک بار پھر اہمیت اور فوقیت دی ہے جس کی وجہ سے پی پی پی کے کارکنان میں شدید مایوسی اور ناراضی کے جذبات نے جنم لیا ہے، تاہم وہ بوجوہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کر پارہے ہیں۔ پی پی کی جانب سے ضلع کونسل گھوٹکی پر نام زد چیئرمین بنگل خان مہر پی پی کے ایم این اے محمد بخش مہر کے برادرِ خورد اور غلام محمد مہر کے بیٹے ہیں۔ وائس چیئرمین میر بابر خان لُنڈ کےچچا خالد لُنڈ پی پی کے ایم این اے ہیں۔ میونسپل کمیٹی گھوٹکی کے نام زد چیئرمین جام آصف رزاق دھاریجو پی پی کے صوبائی وزیر جام اکرام اللہ کے بھانجے ہیں۔ مٹیاری کے نام زد چیئرمن مخدوم احمد زمان ہالا کے مشہور مخدوم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیرپور میرس کے نام زد چیئرمین ڈاکٹر شیراز راجپر کا تعلق بھی ایک بڑے سیاسی خاندان سے ہے۔ وائس چیئرمین فہد شاہ جیلانی پی پی کے ایم این اے جاوید شاہ جیلانی کے فرزند ہیں۔ میرپور خاص کے چیئرمین انور تالپور آصف زرداری کی بہن، پی پی کی نفسِ ناطقہ اور اہم ترین رہنما فریال تالپور کے دیور اور میرمنور تالپور کے بھائی ہیں۔
اسی طرح ضلع جیکب آباد سمیت سندھ کے دیگر اضلاع کی بھی یہی صورتِ حال ہے جہاں پی پی کے مقامی سرداروں، وڈیروں، ایم پی ایز، ایم این ایز، سندھ کے صوبائی وزراء کے قریب ترین رشتے داروں کو چیئرمین، وائس چیئرمین سمیت دیگر اہم بلدیاتی عہدوں کے لیے نام زد کرکے اور قربانیاں دینے والے پی پی کے کارکنان کو یکسر نظرانداز کرکے پی پی کی قیادت نے نہ صرف ان کا شدید استحصال کیا ہے بلکہ ایک طرح سے ان کے ساتھ ظالمانہ اور سنگین مذاق بھی کیا ہے۔ البتہ پی پی کی قیادت کے مذکورہ فیصلے اور عمل سے اس کے چہرے کا وہ سارا غازہ بھی اتر کر رہ گیا ہے جسے اپنے چہرے پر مَل کر وہ اپنا ایک نام نہاد خوش نما اور خوب صورت روپ پیش کیا کرتی تھی۔ اب سب جان گئے ہیں کہ بہ ظاہر پی پی کے پُرکشش جمہوری روپ کے نیچے اس کی قیادت کی تنگ اور پست ذہنیت کی بدنما کالک چھپی ہوئی ہے۔