بجٹ 2023-24ءآئی ایم ایف کا یا انتخابی بجٹ ؟

معیشت میں غیر دستاویزی لین دین بڑھے گا

وفاقی حکومت نے 14.46 ہزار ارب روپے کا بجٹ اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو بجٹ 24-2023ء کے اہداف میں معاشی ترقی، سماجی تحفظ میں اضافہ، بڑے انفرااسٹرکچر منصوبے، زراعت میں ترقی اور قومی سلامتی کے لیے ترجیحی رقوم مختص کی گئی ہیں۔کیا یہ بجٹ واقعی بہت اچھا ہے؟ اس بجٹ میں ٹیکس وصولی اور اخراجات کے تخمینے کس حد تک حقیقی ہیں؟ حکومت نے اس بجٹ میں کوئی معاشی روڈ میپ دیا ہے یا پھر یہ بھی ایک انتخابی بجٹ ہے؟ اور کیا مستقبل میں منی بجٹ کے امکانات موجود ہیں یا نہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تحفظات دور نہیں کرسکے گا اور پاکستان کے لیے موجودہ بیل آؤٹ پیکیج کے زیر التوا نویں اور دسویں جائزے کو مکمل کرنا مزید مشکل بنا دے گا۔ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ معاشی استحکام کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ پی ڈی ایم حکومت تقریباً 55 دنوں میں اپنی مدت پوری کررہی ہے اور پھر 90 دنوں کے لیے نئی نگران حکومت ہوگی، اگر کوئی مالیاتی ادارہ، جیسے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کسی پروگرام کا حصہ بنتا ہے تو اسے دونوں فریق کے اتفاق سے ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کی گارنٹی درکار ہوگی۔ جو حکومت 60 سے 90 دن کے لیے ہے وہ یہ گارنٹی کیسے دے سکتی ہے؟ اسی لیے آئی ایم ایف مستحکم حکومت کے بغیر پاکستان کے ساتھ طویل مدتی پروگرام کا حصہ نہیں بنے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے عطیہ دہندگان بھی طویل مدتی سیاسی اور اقتصادی استحکام کی عدم موجودگی میں پاکستان کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے اس دعوے کو قبول نہیں کررہا کہ اس کے پاس 6 ارب ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے دوست ممالک کے وعدے موجود ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اس طرح کی یقین دہانی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگراموں کے لیے کوالیفائی کرنا آسان بنا سکتی ہے، لیکن واشنگٹن اب ایسی کسی امداد کی پیشکش نہیں کررہا ہے۔ اعتراض کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بجٹ میں 53 فیصد زائد اخراجات کو بہت زیادہ قرار دیا اور جب خسارہ بڑھ رہا ہے تو اخراجات کیوں کیے جارہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان 3.5 فیصد ترقی کیسے حاصل کرے گا، جیسا کہ اس بجٹ میں بتایا گیا ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ بجٹ انتخابات سے پہلے لوگوں کو چکمہ دینے کا ایک طریقہ ہے، انتخابات کے فوراً بعد منی بجٹ آئے گا۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ حکمرانوںکو اگلے انتخابات کے بارے میں بھی یقین نہیں ہے، اگر وہ الیکشن میں جارہے ہیں تو بجٹ کیسے برقرار رکھیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ اپنے وعدوں پر عمل درآمد کریں گے؟ یوں اصل بجٹ انتخابات کے بعد دسمبر میں آئے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا موجودہ پروگرام 30 جون کو ختم ہورہا ہے، لہٰذا آئی ایم ایف بورڈ کے پاس ملاقات اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے 20 دن سے بھی کم کا وقت ہے کہ پاکستان کو باقی فنڈز کب اور کیسے جاری کیے جائیں۔

بجٹ کے مطابق مجموعی وفاقی محصولات 12 ہزار 163 ارب روپے ہوں گے، جس میں ایف بی آر 9 ہزار 200 ارب روپے جمع کرے گا۔ جمع شدہ ٹیکس کی صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاق کے پاس محض 6 ہزار 887 ارب روپے رہ جائیں گے، اس کے مقابلے میں وفاق کے اخراجات 14ہزار 463 ارب روپے ہوں گے۔ جو فنڈز وفاق کے پاس رہ جائیں گے ان میں سے وفاق 1804 ارب روپے دفاعی اخراجات، 1464 ارب روپے گرانٹس، 1074 ارب روپے کی سبسڈیز دے گا، مگر ان تمام سے بڑا خرچہ تو سود کا ہے جس کی مد میں وفاق کو 7 ہزار 300 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے، یعنی وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہوگا۔ یہ خسارہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ خسارے سے 82 فیصد زائد ہے۔ یعنی پاکستان جتنا ٹیکس جمع کرتا ہے اس سے ایک ہزار ارب روپے یا کچھ زائد سود ادا کرے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کے محصولات سے زائد صرف سود کی ادائیگی ہوجائے۔ توقع کی جارہی تھی کہ حکومت جائداد کی خرید و فروخت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرے گی۔ مگر ایسے اقدامات ابھی تک نظر نہیں آئے ہیں۔ اس طرح سے حکومت نے ملک میں جائداد کی سٹے بازی کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے، زراعت سے ہونے والی آمدنی پربھی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔ ملک میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد یا تو خود بڑے سیاست دان ہیں یا پھر فنانسر ہیں جو اربوں روپے کے فنڈ دیتے ہیں، انتخابی مہم کے لیے ہوائی جہاز تک فراہم کرتے ہیں، اسی لیے ایسے سپورٹر پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے سے گریز کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ریٹیل سیکٹر ہے جس میں 22 لاکھ سے زائد دکانیں ہیں۔ مگر یہ بھی ایک مضبوط لابی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو یہیں سے فنڈنگ ملتی ہے، ان پر بھی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت نے ٹیکس دینے والوں کی تعداد کو بڑھانے کے کوئی اقدامات تجویز نہیں کیے ہیں، اس کے بجائے ٹیکسوں کی شرح خود ہی بڑھا دی ہے جس سے 39 فیصد مہنگائی اور 21 فیصد افراطِ زر کو جھیلتے افراد اور کاروبار کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس سے معیشت میں غیر دستاویزی لین دین بڑھے گا۔ نان فائلر پر بینک سے لین دین کرنے پر مجموعی رقم کا 0.6 فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، مگر حکومت بھول رہی ہے کہ ملک میں تیزی سے غیر بینکاری نقد لین دین بڑھ رہا ہے اور ملک میں زیر گردش نقد کرنسی میں گزشتہ چند سال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

بجٹ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی قرض لینا شروع کردے گی اور ملک حقیقی طور پر قرض کے جال میں الجھتا چلا جائے گا۔ حکومت نے معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھا ہے، مگر عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ دنیا کی مجموعی ترقی کی شرح سال 2023ء میں 2.1 فیصد ہوگی، تو پاکستان کس طرح اور کن وجوہات کی بنا پر دنیا سے 1.4 فیصد اضافی ترقی کرسکتا ہے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کرلیا اور شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور 3.5 فیصد کی شرح نمو حاصل کرسکیں گے، لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ایک بہت بڑا ’’اگر‘‘ بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ عوامی ترقیاتی فنڈز کا استعمال درست نہیں ہوتا، اور بڑی رقم کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔

اس بجٹ میں نوجوانوں خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ٹیکس اقدامات رکھے گئے ہیں، کیونکہ ووٹر کی عمر 18 سال ہے اور یہ سال انتخابات کا بھی ہے تو نوجوانوں کو کاروبار کے لیے سستے قرضوں کے علاوہ ایک لاکھ لیپ ٹاپ کی مفت تقسیم بھی بجٹ میں رکھی گئی ہے۔ اس بجٹ میں ایک اور انتخابی اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے مجموعی افراطِ زر یعنی مہنگائی کے مساوی سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھا دی ہے۔ یہ سرکاری ملازمین نہ صرف ووٹر ہیں بلکہ انتخابی مشینری کا ایک بڑا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ پنشنرز کو 17.5 فیصد ریلیف دیا گیا ہے۔ ملکی معیشت کو سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ادائیگیوں کا ہے جن میں بیرونی قرضوں پر اصل زر اور سود کی واپسی کے علاوہ دنیا بھر سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور خدمات کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ پاکستان کی بیرونی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں، مگر عالمی سطح پر کساد بازاری کی وجہ سے ترسیلات میں کمی ہورہی ہے تو دوسری طرف ملکی برآمدات بھی گھٹ رہی ہیں۔

پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 120 ارب ڈالر ہے جس میں سے 45 ارب ڈالر عالمی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، اسلامی ترقیاتی فنڈ اور ایشن انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے ہیں۔ پاکستان کو سال 2026ء تک عالمی اداروں کو 77 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے بشرطیکہ پاکستان کوئی قلیل مدتی قرض نہ لے۔ آئندہ مالی سال پاکستان کو 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس معاشی پس منظر میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے یا تو موجودہ یا پھر نئے پروگرام پر بات چیت کرنا ہوگی۔ بجٹ میں بھی آئی ایم ایف سے 2.4 ارب ڈالر ملنے کی امید ظاہر کی گئی ہے، مگر حکومت نے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے تقریباً انکار ہی کردیا ہے، تاہم 30 جون تک کسی فیصلے کی منتظر بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام 30 جون کو ختم ہورہا ہے، اور تب تک آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے قرضے پر غور ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنایا گیا ہے۔ بجٹ کو آئی ایم ایف کے پاس بھیجا گیا تھا۔ حکومت چاہتی ہے کہ پیرس کلب سمیت عالمی اداروں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے بجائے قرضوں کی بروقت ادائیگی کرے۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ کسی مستحکم ترقی اور اصلاحات کے ایجنڈے اور حکمت عملی کے بغیر تیار کیا گیا ہے، اور یہی کہا جارہا ہے کہ یا تو عبوری حکومت صدارتی حکم نامے کے ذریعے یا پھر نومنتخب حکومت ضمنی فنانس بل کے ذریعے اس بجٹ میں بڑی تبدیلیاں کرے گی چاہے وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ بجٹ کے ان خدوخال کے بعد یہ بحث جائز ہے کہ اس بجٹ کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا یہ بجٹ انتخابی سیاسی بجٹ ہوگا، یا پھر یہ آئی ایم ایف بجٹ ہوگا؟ کیا پاکستان پر ڈیفالٹ کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جوکہ ہر پاکستانی خصوصاً کاروباری اور تجارتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تلاش کررہے ہیں۔

جن حالات میں یہ بجٹ تیار کیا گیا ہے اس کا پس منظر سمجھنا نہایت اہم نکتہ ہے۔ پاکستان میں آئندہ مالی سال کا بجٹ تخمینہ جس طرح کے بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی سیاسی و معاشی حالات میں پیش کیا گیا ہے، اس سے قبل ملکی تاریخ میں ایسے گنجلک اور پیچیدہ حالات کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی معیشت میں تیزی اور مندی کی لہریں بہت تیزی سے آتی اور جاتی ہیں۔ یہ تیز ترین بدلاؤ ملکی معیشت کے حوالے سے پالیسی سازی اور حکمت عملی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 600 ارب ہے۔ بجٹ میں اصل میں کیا ہے، ان اقدامات اور حالات کا تجزیہ ضروری ہے جو بجٹ کی تیاری پراثرانداز ہوں گے۔ ملک کا سیاسی ماحول اس ضمن میں بنیادی اہمیت کا حامل عنصر ہے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ ایسے ماحول میں پیش کیا گیا جب ملکی سیاست شدید تلاطم کا شکار ہے۔ ایک جانب مشکل معاشی صورت حال کی وجہ سے موجودہ حکمران اتحاد کی سیاسی مقبولیت کم ترین سطح پر ہے، تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست اور اس کے خلاف ریاستی کریک ڈائون، سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف فوجی عدالت کے قیام نے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت طاری کی ہوئی ہے۔ یہ بجٹ اس لیے بھی اہم ہے کہ ملک میں اِس سال انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اگست میں موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور متوقع طور پر ستمبر یا اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان آئین کا تقاضا ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے ایسے اقدامات کرنا ناگزیر ہے جن سے مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ ساتھ ہی علاقائی سطح پر بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو پونے دو سال کا عرصہ ہوگیا ہے اور اس کے بعد سے خطے میں بہت سی ایسی انہونی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن سے مغرب خصوصاً امریکی مفادات کو شدید دھچکا پہنچا۔ ایران سعودی عرب سفارتی تعلقات کی بحالی، افغانستان میں طالبان کی مستحکم ہوتی ہوئی حکومت اور اُس کی سی پیک میں شمولیت سے خطے کو استحکام کی جانب لے جانے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف بھارت کا جارحانہ رویہ خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ بھارت امریکی ایما پر خطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔ علاقائی معاملات سے آگے نکل کر دیکھیں تو چین اور امریکہ کی براہِ راست تجارتی محاذ آرائی اس وقت سفارتی محاذ آرائی سے آگے نکلتے ہوئے کسی بھی وقت عسکری کشیدگی میں تبدیل ہوسکتی ہے، جس کے اثرات عالمی منڈی اور خصوصاً ہمارے خطے پر بھی پڑرہے ہیں اور مزید پڑ سکتے ہیں۔

ایسے میں پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے اضافی بجٹ کے علاوہ ایسی معاشی پالیسی بھی دینا ہوگی جوچین اور امریکی بلاکس میں توازن قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جن سے امریکی مفادات کو ٹھیس لگتی محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان کا روس سے ایندھن کی خریداری کا عمل شروع کرنے کے علاوہ روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ مال کے بدلے مال (بارٹر) کی تجارت شروع کرنا سرحدی مارکیٹ کے قیام کے سلسلے کی کڑی ہیں۔ بجٹ میں اس حوالے سے قانون سازی کی تجاویز ہیں۔

پاکستان میں یہ بجٹ انتہائی مشکل سیاسی اور معاشی حالات میں دیا گیا ہے، کیونکہ آئندہ اکتوبر میں پی ڈی ایم جماعتوں کو الیکشن کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف دنیا بھر میں نہایت غیرمقبول ادارہ ہے، مگر اس کے بغیر حکومتوں کا گزارا بھی نہیں۔ آئی ایم ایف معاشی مشکلات کا شکار ممالک کی معیشت میں اصلاحات کی کڑی شرائط پر قرض دیتا ہے اور یہی عوامی اور سیاسی سطح پر اس کی غیرمقبولیت کی وجہ ہے۔ کوئی سیاسی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اسے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لینا پڑے، مگر جب بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ نہ ہو تو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت تک آئی ایم ایف سے 23 پروگرام لے چکا ہے اور 2 کے سوا کسی بھی پروگرام کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتیں مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھانے سے ہمیشہ گھبراتی رہی ہیں، مگر وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار مسلسل کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ آئندہ مالی سال 24-2023ء میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں جن میں تجارتی قرضوں کا حجم 10 فیصد ہے۔ باقی 90 فیصد عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ قرضے ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کڑی شرائط کو پورا کیا ہے جس میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ حکومت کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے مالی سال کے وسط میں نئے ٹیکس عائد کیے گئے، پیٹرولیم لیوی اور دیگر شرائط پر عمل کیا گیا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور طویل عرصے سے انتہائی کم ترین سطح پر موجود ہیں۔ پاکستان کو اس سال جون تک اصل زر اور سود کی مد میں 4.1 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے بعد مالی سال کے آغاز پر ملکی سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر چین کے قرضوں کے رول اوور کے ساتھ صرف 3 ارب ڈالر رہ جائیں گے، اور ستمبر تک یہ ڈیڑھ ارب ڈالر یا اس سے کم ہوں گے۔ اسی بنیاد پر مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا تو اس مالی سال میں نہیں تو آئندہ مالی سال میں اکتوبر یا نومبر تک ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا۔ ان کے خیال میں موجودہ معاشی ٹیم نے بہت قیمتی وقت گنوا دیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملا تو پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان فنانسنگ گیپ پر معاملات اٹکے ہوئے ہیں۔ پروگرام کی تکمیل کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم شہبازشریف اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان بات چیت بھی ہوئی۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان قرض پروگرام بحالی کے لیے 6 ارب ڈالر کی اضافی فنانسنگ کا بندوبست کرے، جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف جس پیشگی یقین دہانی کو طلب کررہا ہے اس پر سعودی عرب 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر فراہمی کا یقین آئی ایم ایف کو دلواچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کفایت شعاری اور درآمدی کنٹرول کو کم کرکے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو کم کیا اور اب 6 ارب ڈالر کی ضرورت نہیں، لیکن آئی ایم ایف اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔