ریموٹ کنٹرول سیاسی نظام زیادہ عرصے نہیں چل سکتا
قومی سیاست بڑی تیزی سے زوال کا شکار ہے، اور اس زوال نے محض قومی سیاست نہیں بلکہ ریاست کے مجموعی کردار پر بھی کئی طرح کے سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔ اس وقت ملک میں جمہوریت، آئین اور قانون کے مقابلے میں ایک مکمل کنٹرول کا نظام ہے۔ یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ اس وقت حالات یا فیصلوں کا ریموٹ کنٹرول بھی سیاسی اور جمہوری لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں، اور اس بنیاد پر یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ یہاں جمہوری قدروں اور روایات سمیت جمہوری نظام تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ملک کو آئین اورقانون کے تابع کرنے کے بجائے اسے ہم اپنی مرضی، منشا اور خواہشات کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں۔ یہی وہ روش ہے جو ریاستی نظام کو پیچھے کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ ہم ماضی کے تجربات یا غلطیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہم وہی کررہے ہیں جو ماضی میں ہوتا رہا ہے، بلکہ بعض معاملات میں ہم نے ماضی کو بھی پیچھے چھوڑ کر حال میں وہ طرزعمل اختیار کیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طاقت کی حکمرانی کا جو نظام لے کر ہم چل رہے ہیں اس سے سیاست، جمہوریت، آئین اورقانون کی حکمرانی کا تصور گم ہوجائے گا۔ کیونکہ ریموٹ کنٹرول یا مصنوعی طور طریقوں کی بنیاد پر چلنے والا نظام نہ تو اپنی اہمیت کو قائم رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس نظام کی کوئی ساکھ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستانی اپنے مستقبل کے تناظر میں مایوسی اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں، اور بقول ڈاکٹر حفیظ پاشا: خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوا ہے، ساتھ ہی ساتھ تیزی سے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ قومی سیاست ہو یا ریاستی سطح کے فیصلے، ہمیں نظر نہیں آتا کہ حکمران ان معاملات پر سنجیدہ ہیں اور کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرعروج پر ہے، اس کی وجہ سے قومی سیاست اور ریاست سمیت عام آدمی کو جو نقصان ہورہا ہے اس کا انداز ہ ہمارے فیصلے سازوں کو نہیں ہورہا۔
حال ہی میں ایسی ہی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچر جہانگیر ترین کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ تجربہ قومی سیاست میں نیا نہیں ہے۔ وہی پرانا تجربہ، پرانی کہانی اور پرانا اسکرپٹ جس کا نتیجہ نہ تو ماضی میں کوئی مثبت نتائج دے سکا اور نہ ہی اب دے سکے گا۔ یقینی طور پر جہانگیر ترین کی نئی جماعت کا قیام اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، اوراس میں جس انداز سے لوگوں کو جبری بنیادوں پر لایا جارہا ہے یا ان کو دھکا دیا جارہا ہے وہ بھی اسی کھیل کے مناظر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں مرجھائے ہوئے، سہمے ہوئے اور منہ چھپائے ہوئے کئی سیاست دانوں کو پوری قوم نے دیکھا ہے اور ایسے لگا جیسے یہ کسی نئی جماعت میں شمولیت کی نہیں بلکہ کسی سوگ کی تصاویر ہوں۔ماضی میں بھی بڑی جماعتوں کو کمزور کرکے یا انہیں دیوار سے لگاکر نئی سیاسی جماعتوں کو مختلف ناموں اورکرداروں سے سامنے لایا گیا تھا۔جہانگیر ترین کی جماعت کو بھی ماضی کے اسی کھیل سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔پنجاب جو قومی سیاست کامرکز ہے وہاں یہ سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی مہم جوئی نمایاں ہے۔ آصف زرداری کی جانب سے پیپلزپارٹی کے مردہ جسم میں جان ڈالنے، مسلم لیگ (ق) کے بیمار سربراہ چودھری شجاعت کی چودھری سرور کی مدد سے کھڑے ہونے کی کوشش، اوراب جہانگیر ترین کی مدد سے ایک نئی سیاسی بساط بچھانے کا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ محض کردار بدلے ہیں، کھیل وہی پرانا ہے۔
پی ٹی آئی کو ماضی کا قصہ بنانے کا کھیل بھی عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوںکو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ خود کو اس جماعت سے علیحدہ کرلیں اور پریس کانفرنس کے ذریعے توبہ کا اعلان کریں تو ان کو عام معافی مل سکتی ہے۔ اسی طرح ایک کوشش یہ بھی ہے کہ عمران خان خود کو پی ٹی آئی سے وقتی طور پر علیحدہ کرلیں اور قیادت شاہ محمود قریشی کے حوالے کردیں تو بات بن سکتی ہے۔ مگر اب تک کی خبروں کے مطابق عمران خان انکاری ہیں، شاہ محمود قریشی بھی عملاً چپ ہیں، اور دوسری طرف خیبر پختون خوا میں پرویز خٹک پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہوکر ایک نیا گروپ یا جماعت تشکیل دیں تو ان کی سرپرستی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اب تک کی خبروں کے مطابق پرویز خٹک بھی انکاری ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہاں کے حالات کا خوب اندازہ ہے کہ عمران خان مخالف سیاست کا وہاں کوئی مستقبل نہیں۔ اس وقت تحریک انصاف کو عملی طور پر مفلوج کردیا گیا ہے اور یہ بھی خبریں ہیں کہ فوجی عدالتوں میں اس کے لوگوں کے خلاف مقدمات چلیں گے۔ فوجی قیادت کی جانب سے جو حالیہ کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی فی الحال کوئی جگہ نہیں اور اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر تحریک انصاف دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہے اوراس کو پوری قوت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ انتخابات سے قبل ہی اسے عملاً سیاسی طور پرمفلوج کردیا جائے تاکہ یہ انتخابی عمل میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔ ممکن ہے جو لوگ ایسا چاہتے ہیں وہ کامیاب ہوجائیں، مگر اس کے جو سیاسی نتائج شدید سیاسی بحران اورٹکرائو کی صورت میں نکلیں گے اس کا شاید یہاں فیصلہ کرنے والوں نے سوچا نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اب کچھ ڈری ہوئی ہے اور جہانگیرترین کی سیاسی جماعت کو بھی وہ ایک نئے خطرے کے طور پر لے رہی ہے، اسے لگتا ہے کہ محض پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ ہم کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے یا ہماری تعداد کو کم کرنے کا نیا کھیل سجایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں اب آصف زرداری کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اور ان کو لگتا ہے کہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ہماری قوت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگلے کچھ وقت میں پیپلزپارٹی اور پی ایم ایم این کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
عام انتخابات کے بارے میں بھی خاصا ابہام موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ابھی بھی اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات کی حامی نہیں، اور ان کے بقول موجودہ حالات میں انتخابات انہیں ان کی مرضی کے نتائج نہیں دے سکیں گے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر سوچا جارہا ہے جب پی ٹی آئی کو مفلوج کرنے کا کھیل جاری ہے، مگر ابھی حکمران طبقے کو لگتا ہے کہ عمران خان کے پاس ووٹ بینک کی طاقت موجود ہے، اور اسی بنیاد پر زور دیا جارہا ہے کہ پہلے عمران خان کی طاقت کو پوری طرح سے مفلوج کیا جائے پھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ کئی سینئر صحافیوں کے تجزیے بھی سامنے آئے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئی ہے اور جو کچھ اُن کے خلاف ہورہا ہے اس کا ردعمل بھی موجود ہے۔ آصف علی زرداری کے بقول انتخابات تب ہوں گے جب وہ چاہیں گے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور ختم اور فردِ واحد یا افراد کی خواہشات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور وہی ہماری قسمتوں کے فیصلے کریں گے۔ حکمران طبقے نے اگرچہ بجٹ پیش کردیا ہے مگر کیا بجٹ کے بعد عام آدمی کے حالات میں کوئی بہتر تبدیلی دیکھنے کو ملے گی؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت جو کچھ سیاست اورمعیشت میں ہورہا ہے اس پر سخت قسم کا ردعمل عوامی سطح پر موجود ہے۔ کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ اگر واقعی عوام میں سخت ردعمل ہے تو اس کا اظہار کسی بڑی عوامی طاقت کی صورت میں کیوں نظر نہیںآرہا؟ اس کا جواب سادہ سا ہے، لوگ واقعی ڈرے ہوئے اور خوف میں ہیں، کیونکہ مزاحمت کرنے اور آواز اٹھانے پر یہاں انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔سیاست کا مقابلہ سیاست سے تو کیا جاسکتا ہے، لیکن جب سیاست کے مقابلے میںریاست کھڑی ہوجائے تو پھر مقابلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی کہانی بھی موجودہ حالات میں کچھ ایسی ہی ہے جو ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔اب وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کی مدد سے ملٹری ایکٹ کے تحت 9مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف مقدمات چلانے کی منظوری حاصل کرلی ہے،جبکہ بہت سے قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ا ن مقدمات کو سول کورٹ میں ہی چلایا جائے۔ مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت ملٹری ایکٹ کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو شدیددبائو میں لانا چاہتی ہے تاکہ اسے مزید دیوار سے لگایا جائے۔
اصولی طور پر تو اس وقت جو بھی سیاسی، معاشی اور ریاستی مسائل ہیں ان کا واحد حل گرینڈ ڈائیلاگ ہی ہے، اور یہی سیاسی و ریاستی ترجیح ہونی چاہیے۔لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجود ہ حالات میں بدلے کی سیاست نے جس طرح مضبوطی اختیار کرلی ہے، اس کے بعد ڈائیلاگ کا کھیل پیچھے رہ گیا ہے۔ ابھی تو ہم کسی کو سبق سکھانا چاہتے ہیں یا اس کو قومی سیاست سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لیا جائے، اس کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔اس لیے آج نہیں تو کل ہمیں ڈائیلاگ کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا، لیکن اگر ہم نے اس میں دیر کردی تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ سارے کردار اپنی اپنی سیاسی انا اور ضد سے باہر نکلیں تو ہی مذاکرات کا راستہ سامنے آسکے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا یہ مؤقف کہ وہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی مذاکرات کریں گے، درست حکمتِ عملی نہیں۔ ان کو بھی اپنے سیاسی مخالفین کے لیے راستہ نکالنا ہوگا۔کیونکہ مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہوں گے اور یقینی طور پر اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی ہوگا، لیکن پہلے مرحلے میں سیاست دانوں کو ہی بیٹھنا ہوگا۔ اسی طرح حکمران اتحاد کو بھی اپنے سیاسی نشے سے باہر نکلنا ہوگا اوریہ سوچ کہ عمران خان کو محض ختم ہی کرنا ہے، ممکن نہیں۔ ایک دوسرے کی سیاسی حقیقت کو قبول کرکے ہی سیاسی راستے کی تلاش معاملات کے حل میں کلیدی کردارادا کرسکتی ہے۔ہم ریاستی طور پر ایک بڑے بحران سے گزررہے ہیں، اور یہاں ٹکرائو کے مقابلے میں مذاکرات اور مفاہمت ہی مسئلے کا حل ہے اور یہی ہماری ریاستی ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو فتح کرنے کی روش کے مقابلے میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر ہی سیاسی راستہ تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ یہی راستہ سیاست، جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔