حکمرانوں کے مفادات کا محافظ میزانیہ

’’تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا‘‘ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے میزانیہ کا اعلان کر دیا مجلس شوریٰ سے منظوری کے بعد یہ میزانیہ یکم جولائی سے نافذ العمل ہو گا، آئینی لحاظ سے موجودہ حکومت یکم جولائی کے بعد ایک ڈیڑھ ماہ کی مہمان ہو گی تاہم میزانیہ پورے سال کا پیش کیا گیا ہے، جسے بڑی حد تک انتخابی اور سیاسی میزانیہ قرار دیا جا سکتا ہے، حکومت نے ملک کے معاشی حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد گرتی ہوئی حکومتی ساکھ اور مقبولیت کو سہارا دینا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بظاہر خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے مگرمہنگائی کے تناسب سے حساب لگایا جائے تو یہ اضافہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں، یوں بھی اس اضافہ سے مستفید ہونے والے یہ سرکاری ملازمین ملک کی مجموعی آبادی کا کتنے فیصد ہوں گے؟ نجی شعبہ کے کارکنان کا کم از کم معاوضہ بتیس ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں میں سے کون ہے جو ایک ہزار روپے روزانہ میں اپنا صرف کچن چلا کر دکھا سکے؟ تعلیم، صحت، رہائش اور دیگر بنیادی ضروریات آخر کہاں سے اور کیسے پوری ہوں گی؟ پھر اس سے بھی زیادہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اس کم از کم معاوضہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے کا حکومتی سطح پر کوئی نظام موجود نہیںحکومت کا کام صرف اعلانات کر کے مطمئن ہو جانا نہیں بلکہ ان اعلانات پر عمل درآمد کرانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر وطن عزیز میں عملاً اس کا کسی بھی سطح پر کوئی اہتمام نہیں جس کی وجہ سے جگہ جگہ بے گار کیمپ قائم ہیں جن میں غربت اور بے روز گاری کے ہاتھوں مجبور لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور بے بس و بے کس غریب لوگ حکومت کے مقرر کردہ کم از کم معاوضہ سے بھی نصف معاوضہ پر دیگر ہر طرح کی مراعات و سہولتوں کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں اس قدر قلیل معاوضہ پر بھی انہیں ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہیں، مالک یا آجر کا جب دل چاہتا ہے، مزدور کو فارغ کر کے گھر بھیج دیتا ہے، حکمران غریبوں کے حقوق کے نعرے تو خوب لگاتے ہیں مگر عملاً ان حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدام اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوتے، ارباب اختیار کا یہی طرز عمل ہے جس سے معاشرے میں مایوسی اور نا امیدی تیزی سے راہ پا رہی ہے چنانچہ نوجوان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر جیسے تیسے ملک سے فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ راستے میں کشتی کے ڈوبنے یا کنٹینر میں دم گھٹنے سے جاں کی بازی ہار جانے کی خبریں آئے روز ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جو لوگ باہر نہیں جا پاتے وہ بچوں سمیت خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں… مگر اس سب کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی…!!!

قومی میزانیہ میں ظاہر کئے گئے اعداد و شمار میں یہ اعتراف موجود ہے کہ قومی آمدن کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی مد میں ادائیگیوں پر صرف ہو گا صرف سود کی ادائیگی کے لیے سات ہزار تین سو تین ارب روپے درکار ہوں گے مگر اس کے باوجود حکومت کی طرف سے دھڑا دھڑ بھاری شرح سود پر قرض حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے مرکزی ریاستی بینک نے میزانیہ کے اعلان کے بعد جس نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں سود اکیس فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، سود کی واضح نظر آنے والی تباہ کاریوں کے باوجود ہمارے حکمران نہ جانے اس سے جان چھڑانے پر کیوں تیار نہیں، حالانکہ آئین بھی انہیں اس کا پابند کرتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت بھی ایک سے زائد بار اس کے حرام ہونے اور اس سے ہر صورت نجات پانے کا حکم دے چکی ہے، مگر حکمران حیلوں بہانوں سے اس لعنت کو جاری رکھنے پر مصر ہیں، وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلہ کے بعد بھی پہلے تو اس کے خلاف اپیل کا راستہ اختیار کیا گیا اور پھر عوامی احتجاج کے سبب سود کے خاتمہ کے لیے ایک کمیٹی بنا کر معاملہ کو سرد خانے کی نذر کر دیا گیا چنانچہ اس کمیٹی کی اب تک کی کارکردگی صفر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ عام طور پر بیرونی قرضوں کو سود سے نجات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن قرضوں پر قومی آمدن کا بڑا حصہ صرف کیا جاتا ہے ان میں سے زیادہ تر مقامی اور اندرون ملک سے حاصل کئے گئے قرضے ہیں ، سود سے نجات نہ صرف بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان، پاکستان کے آئین اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا تقاضا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو در پیش سنگین معاشی بحران سے نجات بھی ’ سود‘ سے چھٹکارہ پائے بغیر ممکن نہیں مگر ظلم یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں موجود سیکولر جماعتیں تو ایک طرف جماعت اسلامی کے علاوہ مذہبی کہلانے والی تمام جماعتیں بھی اس حکومت کا حصہ ہیں مگر ان کی موجودگی کے باوجود اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی جانب کوئی عملی پیش رفت تو دور کی بات ہے، ان مذہبی جماعتوں کی سود کے خلاف کوئی صدائے احتجاج تک سنائی نہیں دیتی…!!!

ہمارے سیاست دانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب تک اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو جو دعوے اور مطالبے وہ بار بار دہراتے ہیں، اقتدار سنبھالنے کے بعد وہی کام خود ہر طرح کی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر پوری ڈھٹائی سے انجام دینے لگتے ہیں، قومی احتساب بیورو سے متعلق موجودہ برسراقتدار اتحاد کے کم و بیش تمام رہنمائوں کے خیالات یہ تھے کہ اسے ختم ہونا چاہئے، یہ آمروں کا آلۂ کار ہے، نیب اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جونہی موقع ملا اسے ختم کر دیں گے۔ مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسی ترامیم کی گئیں جن کے نتیجے میں موجودہ برسراقتدار سیاستدانوں کے خلاف قائم مقدمات خود بخود ختم ہو گئے اور وہ نیک، پاک، امین و دیانتدار قرار پائے مگر جس شخص کو خود موجودہ حکمرانوں نے چیئرمین نیب مقرر کیا تھا اس نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اس پر سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے، ان کے بعد جن سابق جرنیل صاحب کو چیئرمین بنایا گیا انہوں نے صرف تین دن قبل لاہور میں ایک تقریب کے دوران یہ اعتراف کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو میں کمزوریاں ہیں، اسے غیر سیاسی بنانے اور ساکھ بحال کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں بدعنوانی کم نہیں ہو رہی بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود اور اپنے ماضی کے ارشادات کو قطعی فراموش کرتے ہوئے حکمرانوں نے میزانیہ میں قومی احتساب بیورو کے لیے مختص رقم میں ایک ارب روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ خدا جانے یہ کس ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کا انعام ہے…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)