بچوں میں غذا کا انتخاب

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک بچہ صرف مخصوص چیزیں ہی کھانا چاہتا ہے؟

”سر! کھانا تو دیکھتے ہی اس کو ابکائی آنے لگتی ہے، کسی کو کھاتے دیکھ کر بھی الٹی کردیتا ہے۔“
”سر! جسے ہم کھانے کی خوشبو کہتے ہیں نا، اس پر اس طرح ردعمل دیتی ہے جیسے کوئی بہت ہی خراب سی ”بو“ ہو۔“

”سر! یہ بچے اتنے Picky eater کیوں ہوتے ہیں، کچن میں کام کرتے کرتے تو حشر ہوگیا میرا۔ میں محنت سے کچھ بھی بناکر دوں، تو کہتی ہے: صرف یہی ہے کھانے میں؟ یہ تو میں نہیں کھاتی۔“

شہری زندگی میں سہولتوں کی بھرمار کے ساتھ والدین کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہے۔ نزلہ، کھانسی، زکام، موشن، بخار وغیرہ کے ساتھ ساتھ اب بہت زیادہ وقت اُن بچوں کی ماؤں کا کائونسلنگ میں استعمال ہوتا ہے جو کھانے کے معاملے میں Choosy ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک بچہ صرف مخصوص چیزیں ہی کھانا چاہتا ہے؟ یا کھانا دیکھ کر اس کی بھوک مر جاتی ہے، یا اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے؟

وجوہات جانے بغیر یہ کہہ دینا کہ وہ بچہ بہت Choosy/ Picky Eater ہے، درست نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو بات وہاں سے شروع کرنی چاہیے جب ہم نے اس بچے کو ابتدائی غذا دینا شروع کی تھی یعنی تقریباً 6 ماہ کی عمر سے۔

ہم نے کون سی غذا کا انتخاب کیا؟ اگر میٹھے سے شروع کیا تو آئندہ چل کر وہ عام روزمرہ کی غذا میں دلچسپی نہیں لے گا کیوں کہ اسے ذائقہ میٹھا پسند آگیا ہے۔

دوسری بات: غذا کھلاتے ہوئے ماحول کیسا تھا؟ کھیلنے کھلانے کا ماحول، یا جلدی جلدی کام نمٹانے کا ماحول؟ بچوں کے لیے ہمیشہ کھانے کا وقت خوشی کا وقت بنانا چاہیے، خواہ ہم مشکلات والی زندگی ہی گزار رہے ہوں۔

تیسری بات: ہوسکتا ہے بچہ کسی پرابلم کا شکار ہو جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر موجود ہو۔ یعنی اُسے غذا زبان کے اگلے حصے سے پچھلے حصے میں لے جانے میں مشکل ہو جس کی وجہ سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ الٹی کردیتا ہے۔ اس مسئلے کو Suck Swallow Reflex کہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اسے اپنی زبان کو گھمانے میں مشکل ہو، اس کو چبانے میں مشکل ہو، اس کے وہ عضلات جو غذا کے، منہ میں جانے کے بعد استعمال ہوتے ہیں وہ درست کام نہ کرتے ہوں۔

ان مسائل کا حل پھر ہمیں Occupational therapy میں ملتا ہے، جہاں تھراپی کروانے والے ماہرین ایسے بچوں کو کھلانا سکھاتے ہیں۔

چوتھی بات: بعض بچے کسی مخصوص غذا، اس کے انداز، اس کی ”بو“، خوشبو یا اس کے ذائقے کو برداشت نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے وہ اس غذا سے بھاگتے ہیں، مثلاً مچھلی کی بو، ہاتھوں پر چپکنے والی غذا مثلاً آلو کا بھرتہ (Mashed Potatoes)، انگلیوں پر شوربے کا لگنا۔ اس قسم کے بچوں کی چھونے کی حس یا تو بہت تیز ہوتی ہے یا بالکل کم، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی چیز ان کے ہاتھوں پر لگے، ناک میں اس کی تیز بو آئے، یا اس کو دیکھنے پر ان کا تاثر اچھا نہیں بن پائے تو وہ پھر اس قسم کی غذائیں استعمال نہیں کرپاتے اور دور ہٹ جاتے ہیں۔

پانچویں بات: بچے اپنا کنٹرول چاہتے ہیں، اگر ان پر زبردستی کی جائے تو پھر وہ اُس غذا کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو بچے تمام ہی کہیں نہ کہیں Picky Eater ہوتے ہیں۔
اب کریں کیا؟ کس طرح ان کو سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیں؟ کس طرح خوشبو یا کھانے کی بو کے مسائل پر قابو پائیں؟

ایک طریقہ تو ڈنڈے کا زور ہے، بچہ آپ کے خوف سے شاید کھا بھی لے، مگر تیز قوتِ شامہ والے تو فوراً الٹی کردیں گے۔ باقی بھی غذا یا آپ سے نفرت کا اظہار کسی نہ کسی طرح کر ہی دیں گے۔ تو پھر یہ سمجھ لیں یہ قابلِ قبول اور قابلِ عمل ترکیب نہیں۔

دوسری طرف بچے سے دوستی کرکے، اس کے مسائل کو سمجھ کر ہر بچے کے حساب سے انفرادی لائحہ عمل ترتیب دینا درست حل ہے۔

مثال کے طور پر اگر بچے کے کچھ طبی مسائل ہیں جیسے زبان کے یا جبڑے کے عضلات کے مسائل، تو Occupational therapist اس کے حل میں آپ کو مددگار ملیں گے۔
خوشبو کا مسئلہ ہے تو بار بار ہلکا پھلکا Exposure، یعنی اس کی حساسیت کو مخاطب کرتے ہوئے Desensitized کرنا، بالکل ایسے جیسے بچے کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے تو آپ ابتدائی طور پر انگلی پکڑ کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کا خوف ختم کرتے ہیں، اسی طرح آہستہ آہستہ اس کی سونگھنے کی حس کو اس غذا کا عادی بنانا۔
پھر یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ غذا کو کسی دوسری پسندیدہ غذا کے ساتھ ملا کر آہستہ آہستہ اس کا عادی بنایا جائے۔ جیسے اگر بچے انڈا نہیں کھاتے مگر پراٹھا شوق سے کھاتے ہیں تو انڈے کو آٹے میں ہی گوندھ لینا۔
سبزی ابال کر اس کا پیسٹ بنا کر محفوظ کرلینا اور پھر ہر سالن وغیرہ میں تھوڑا سا ملا کر استعمال کرنا۔،
پھلوں کو شیک کی صورت میں استعمال کرنا۔
دالوں کو بھی سالن میں گھوٹ کر ملا دینا۔
ہر ماں کے اندر ایک زبیدہ آپا ہونی چاہیے جو ترکیب نکالے۔
یاد رکھیں، زبردستی سے کام نہیں بنے گا۔، دوستی اور ترکیبیں ضروری ہیں۔
آخر میں سب سے اہم بات… دودھ کی بوتل سے دودھ بالکل نہیں، اور اگر مجبوری ہے تو ایک سال بعد گلاس یا کپ کے ذریعے دودھ، اور ایک سال کی عمر کے بعد دودھ کا محدود استعمال تاکہ بچے کھانا کھا سکیں۔
اسی طرح کم سے کم کھانے کے علاوہ چیزیں (Snakes)، اور بطور اسنیک بھی پھل بہتر چیز ہیں۔
کھانے کے ٹائم سے کم از کم دو تین گھنٹے پہلے کوئی الا بلا نہیں، کہ اس سے بھوک ختم ہو جاتی ہے۔
زبیدہ آپا کے لیے دعائیں، جو بہت سی کام کی باتیں بتا کر گئیں۔