معروف کالم نگار محمد خان ابڑو نے بروز اتوار 4 جون 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ کاوش حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
’’دو دن قبل راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے سابق رہنمائوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے ہونے والی خفیہ ملاقات کی اطلاعات کے بعد مائنس عمران خان فارمولے پر مبنی گردش کرنے والی افواہیں اور بھی زیادہ تقویت اختیار کرگئی ہیں۔ حکومتی ذرائع سے بھنک پڑی ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں نے شاہ محمود قریشی کو بھی پارٹی چھوڑنے پر آمادہ کرلیا ہے۔ لیکن اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے دورانِ گفتگو فواد چودھری کا مؤقف خفیہ اطلاعات کے بالکل برعکس تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ اس حوالے سے علی زیدی، پرویز خٹک، اسد عمر، اسد قیصر، فرخ حبیب اور عاطف خان سے رابطہ کیا ہے اور شاہ محمود قریشی سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔‘‘ اگرچہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والوں کی قطار طویل ہوتی جارہی ہے، لیکن قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر نے فواد چودھری سے رابطوں کی اطلاعات کو رد کردیا ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے تو دوسری جانب جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے تجربہ کار سیاسی کھلاڑی سابق صدر آصف زرداری بھی لاہور میں اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں جہاں اُن سے ملاقات کرکے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ پنجاب کی کئی شخصیات نے آصف زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ آصف زرداری سے جنوبی پنجاب کے اہم رہنمائوں کی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور آصف زرداری کی جانب سے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے رہنمائوں کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جب کہ چودھری شجاعت سمیت دیگر رہنمائوں سے بھی ملاقات کا امکان ہے۔ دوسری جانب اگرچہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے صدر عارف علوی کے ساتھ اپنی ناراضی کی خبروں کی تردید کردی ہے، لیکن عمران خان اور صدر علوی کے مابین ہونے والے اختلافات بھی بوتل میں بند ہونے والے جن کی مانند باہر نکل آئے ہیں، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حاضری کے موقع پر میڈیا سے عمران خان کی جو باتیں ہوئیں یا پھر اس حوالے سے بلاوجہ کی جو وضاحتیں کی گئیں ان سے صاف لگتا ہے کہ اندرونی طور پر ضرور کوئی بڑا گڑبڑ گھوٹالا ہے۔ عمران خان کا کہنا یہ تھا کہ ’’یہ امر درست نہیں ہے کہ میرا عارف علوی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ صدر علوی اگر کسی سمری پر دستخط نہ کریں تو بھی وہ قانون بن جائے گا۔ اس لیے اگر وہ حکومتی سمریوں پر دستخط کررہے ہیں تو بھلے سے کریں۔‘‘ عمران خان بظاہر تو آج بھی اپنے سابقہ مؤقف پر ہی جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن پہلے کے عمران خان اور موجودہ عمران خان میں واضح فرق یہ رونما ہوا ہے کہ پہلے والے عمران خان حکومت کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں کے باوجود بات چیت سے انکار کردیا کرتے تھے، اور موجودہ عمران خان بات چیت کرنے کے لیے التجائیں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب شاید پانی ناک کی سطح سے بلند ہوچکا ہے، اسی لیے تو کہا کرتے ہیں کہ ’’سب کچھ لُٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا!!؟‘‘
عمران خان کے مطابق الیکشن کے سوا دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ الیکشن کا انعقاد نہ ہوا تو ملک میں مزید تباہی آئے گی۔ عمران خان اب قسم کھاکر میڈیا کو بتارہے ہیں کہ ہم نے تو باجوہ سے بھی بات چیت کی تھی۔ ہماری حکومت چلی گئی تب بھی ہم نے مذاکرات کیے، چیف جسٹس کے کہنے پر بات چیت کی۔ اس لیے اب مجھ سے مذاکرات کرنے سے آخر انکار کیوں کیا جارہا ہے؟ لیکن فیصلہ کرنے والوں نے بھی یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اب ہمیں عمران خان کو کس طرح سے چلانا ہے اور پی ٹی آئی کا کیا حشر کرنا ہے۔ کیوں کہ جب عمران خان کی باری تھی تب انہوں نے کسی کی بھی نہیں سنی اور عوامی اجتماعات کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ اتنے زیادہ آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے اپنے ملکی اداروں پر بھی دنیا والوں کے سامنے حملے کرانے شروع کردیے، لیکن اب جب کہ باری دوسروں کی ہے تو وہ بھی اب انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں اصل مرضی کس کی چلتی ہے۔ اگر یہ بھی کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ جب منت اور سماجت سے بھی کام نہ ہوسکا تو ’’اصلی بڑے بھائیوں‘‘ کو پھر اپنے ہاتھوں میں ڈنڈا اٹھانا پڑگیا جو اب ہر جانب چلتا ہوا سب کو صاف دکھائی دے رہا ہے، اور جس کے خوف سے ہی پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی ایک لمبی قطار اپنے کیے گئے گناہوں کو بخشوانے کے لیے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ ’’بڑے بھائیوں‘‘ کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے ڈنڈے کا اثر سب سے زیادہ اُس وقت نظر آیا جب تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویزالٰہی کو لاہور میں اُن کے گھر کے قریب سے بذریعہ اینٹی کرپشن پولیس گرفتار کرایا گیا۔ بتایا جارہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ پولیس نے گاڑی کو روک کر انہیں اپنی حراست میں لے لیا۔ اینٹی کرپشن کے اہلکار پرویز الٰہی کو دوسری گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس نے جب ان کی گاڑی کا گھیرائو کیا تو عمر رسیدہ سیاست دان نے پہلے تو اپنی گاڑی کو لاک کردیا اور دروازے کھڑکیاں کھولنے سے صاف انکار کردیا، لیکن پھر جب پولیس ڈرل مشین اور دوسری مشینری لے آئی اور اس نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے اس میں سوراخ کرنا شروع کیا تو سابق وزیراعلیٰ بہ امر مجبوری اپنی گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ واضح رہے کہ پرویزالٰہی نے کرپشن کے کیس میں عدالت میں عبوری ضمانت کی درخواست داخل کی تھی لیکن گوجرانوالہ کی کرپشن کی عدالت نے ان کی یہ درخواست رد کردی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ پرویز الٰہی جیسے ضعیف العمر سیاست دان کو زور زبردستی گرفتار کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی جانب سے اپنی پارٹی کو چھوڑنے میں مزید تیزی آگئی ہے۔ یہ منظر دیکھنے اور سننے کے بعد سے دیگر عمر رسیدہ رہنمائوں نے بھی پارٹی سے منہ موڑنا شروع کردیا ہے۔ ویسے بھی 72 برس کے عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نوجوانوں کی پارٹی ہے، اسی لیے سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی پی ٹی آئی خیبر پختون خوا کی صدارت کو چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ عمر رسیدہ رہنمائوں کے لیے یا پھر شاید کسی خاص رعایتی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر دوسری پارٹی جوائن کریں، یا سیاست سے ریٹائرمنٹ اپنانے کے بجائے پہلے مرحلے میں صرف پارٹی کے عہدے سے دست بردار ہوں اور پھر رفتہ رفتہ پارٹی سے گم ہوجائیں۔ اطلاع ہے کہ پی ٹی آئی کے پانچ دیگر سینئر رہنمائوں کو بھی اسلام آباد میں گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن انہیں ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان میں قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر، سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور خیبر پختون خوا کے سابق گورنر شاہ فرمان کے علاوہ کچھ دیگر رہنما بھی شامل ہیں جو وقت آنے پر نئے اعلانات کے ساتھ منظرعام پر آئیں گے۔ انہیں اسلام آباد میں ایک نامعلوم مقام پر بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا لیکن آخری اطلاعات تک ان رہنمائوں کی واپسی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں نے مذاکرات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے دو سینئر ممبرز پرویز خٹک اور اسد قیصر کو اسٹیبلشمنٹ نے ملاقات کے لیے بلوایا تھا اور اب انہیں محفوظ گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ غیر قانونی طور پر محفوظ گھر میں نظربند ان رہنمائوں کو آزادی کے لیے پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عمران خان دہائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جنگل کے قانون میں طاقت حق ہے اور کمزور کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے‘‘۔
پی ٹی آئی سے رہنمائوں کے فرار پر مبنی ماحول میں ان کی پارٹی ہی کے ایک سینئر سیاست دان جہانگیر ترین کی طرف سے اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کی باتیں بھی اب عملی جامہ پہن چکی ہیں۔ اس کے لیے مشاورتی عمل کے بعد عملی کام بھی شروع کیا جاچکا ہے۔ خبر ملی ہے کہ جہانگیر ترین نے اس حوالے سے اپنی لیگل ٹیم بھی قائم کردی ہے، جس نے الیکشن کمیشن میں پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ مذکورہ سیاسی صورتِ حال کسی بھی مہذب ملک اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے کوئی عام روایتی اور مروجہ بات نہیں ہے۔ اس لیے اس ملک میں اس کے ادارے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورتِ حال کوئی آسان بات بھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا بروز ہفتہ ایک اہم اجلاس بھی ہوچکا ہے جس میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے مذکورہ اجلاس طلب کیا تھا، جس میں سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس کے بارے میں بظاہر یہ بات کہی گئی کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امن و امان کی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔ لیکن درحقیقت اس اجلاس میں 9 مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ہی اہم ایجنڈا تھی، یقیناً اس اہم اجلاس میں ملک کی معاشی صورتِ حال کا جائزہ بھی لیا گیا ہوگا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز کون سے ہیں؟ اور آخر ان سے کس انداز میں نبرد آزما ہوا جائے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے بھی قرضوں کے پیچھے بھاگنے والی پاکستانی حکومت کو دوڑا دوڑا کر تھکا ہی ڈالا ہے، جس کے بعد بالآخر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب نگران حکومت کے ذرائع ہی سے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔ خبر کے مطابق موجودہ قرض پروگرام 30 جون کو ختم ہوجائے گا لیکن حکومت اس پروگرام میں اضافہ نہیں کرائے گی بلکہ ماہ اگست کے بعد نگران حکومت ہی ازسرنو کشکول اٹھا کر میدانِ عمل میں اترے گی۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق نئے قرض کا معاہدہ موجودہ پروگرام سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ آئی ایم ایف کا نیا بیل آئوٹ پروگرام 3 سال سے زیادہ کا ہوگا۔ امسال دسمبر تک پاکستان کو مزید 9 تا 11 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ آئندہ بجٹ میں مجموعی طور پر 22 تا 24 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق موجودہ پروگرام مکمل کیے بغیر ہی 30جون کو ختم ہوجائے گا۔ اس حوالے سے خزانے کی وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کا بھی یہی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہم کسی اور پلان پر نہیں سوچ رہے ہیں، البتہ اب یہ کام آئندہ آنے والی نگران حکومت ہی کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ پروگرام جو 30 جون کو ختم ہورہا ہے،اس کا 2 ارب ڈالر سے زیادہ قرضہ ملنا ہے۔ ایک ارب ڈالر قرض کے لیے مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں لیکن اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوپارہا ہے۔ اسٹاف لیول معاہدہ ہو بھی گیا پھر بھی دسویں اور گیارہویں جائزے کے لیے بات چیت ابھی ہونا باقی ہے، یعنی 30 جون سے پہلے دو مرتبہ جائزہ امور کے حوالے سے بات چیت کا ہونا ناممکن ہے۔ اس لیے بجٹ کے بعد آنے والے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت کی جائے گی۔ حکومت اگر بات چیت کا یہ سلسلہ مکمل نہ کرسکی تو نگران حکومت نیا قرضہ مکمل کرے گی۔ ایک طرف اگر آئی ایم ایف کا قرض ملنے کی امیدیں کم ہوتی جارہی ہیں تو دوسری طرف بجٹ سے قبل پیٹرول مزید سستا ہونے کی امید بھی ظاہر کی گئی ہے۔
اس ساری تکلیف دہ صورتِ حال میں اچھی خبر یہ ہے کہ ڈالر کو اچانک ہی معجزانہ طور پر بڑا جھٹکا لگا ہے اور ایک دو دن میں ڈالر میں 15 روپے کی ریکارڈ کمی سامنے آئی ہے، جب کہ سونا بھی فی تولہ 6000 روپے کی کمی کے بعد 2 لاکھ 35 ہزار روپے فی تولہ سے 2لاکھ 29 ہزار روپے فی تولہ ہوگیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے ڈیل ختم کرنے اور کریڈٹ کارڈز کے لیے ڈالروں کی خریداری ایکسچینج کمپنیوں کے بجائے انٹر بینک سے کرنے کے فیصلے کے بعد ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں گھٹ ہوگئی ہے، اسی طرح سے پائونڈ میں بھی ساڑھے 14 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ فیصلے کے بعد بینکوں کے حساب سے ڈالر 27 روپے سستا ہوا ہے جس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ حکومت کے فیصلے سے اوپن مارکیٹ میں انٹر بینک کا 26 روپے کا فرق کم ہوکر 15 روپے پر آن پہنچا ہے۔ صرافہ بازار میں سونے کی قیمت کم ہوکر 2لاکھ 29 ہزار فی تولہ ہوگئی ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں 7 ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ ساری صورت حال کا مختصر جائزہ لیا جائے تو ملک کی سیاسی صورتِ حال یقینا کوئی اچھی دکھائی نہیں دیتی، لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہنے والے عمران خان کو محصور اور محدود کردینے سے ڈالر، سونا اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی شروع ہونے سے نئی امیدیں اور آسرے بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ امیدوں اور توقعات پر چلنے والی اس قوم کے نصیب میں آگے چل کر کیا لکھا ہے!!!؟‘‘