جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے زیر اہتمام حقوقِ قبائل کل جماتی کانفرنس کاانعقاد 21 نکاتی اعلامیہ کا اجرا

خیبرپختون خوا کے سیاسی منظرنامے پر اگر اس وقت نظر دوڑائی جائے تو فی الحقیقت اِن دنوں اگر کوئی جماعت صوبے میں سب سے زیادہ فعال اور متحرک نظر آتی ہے تو وہ بلاشک وشبہ اور بلامبالغہ جماعت اسلامی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹنے کے نتیجے میں عوام سے دور ہیں، اور اپنی نالائقی اور کرتوتوں کی وجہ سے تاریخی مہنگائی کے باعث بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں، جب کہ صوبے میں گزشتہ دس سال سے برسراقتدار رہنے والی پی ٹی آئی پر چونکہ 9مئی کے بعد زمین تنگ کردی گئی ہے لہٰذا وہ اور اس کی ساری صوبائی قیادت بھی غیر فعال ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جماعت عوام کی آواز اور ان کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کررہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی نے اگر ایک طرف ملاکنڈ ڈویژن میں مجوزہ ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف محاذ گرم کررکھا ہے تو دوسری جانب وہ زخم خوردہ قبائل کے زخموں پر مرہم رکھنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ دراصل قبائل کے ساتھ خیبرپختون خوا میں انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے اور انضمام کے نتیجے میں انہیں جو سبز باغ دکھائے گئے تھے پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس سمت میں متعلقہ اداروں کی جانب سے معمولی حرکت بھی نظر نہیں آتی، جس سے قبائل کا احساسِ محرومی کم ہونے کے بجائے اس میں دن بدن مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز الاسلامی پشاور کے سید مودودی ہال میں قبائلی اضلاع کے حقوق کے حوالے سے ایک حقوق قبائل آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت جماعت اسلامی خیبرپختون خوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کی، جب کہ اس موقع پرتحریک حقوق قبائل کے چیئرمین شاہ فیصل آفریدی، جنرل سیکرٹری مولانا وحید گل، اے این پی کے شیخ جان، جے یو آئی (ف)کے مولانا رشید اللہ، پی پی پی کے ڈاکٹر جانباز آفریدی، تحریک انصاف کے ملک نوید احمد، قومی وطن پارٹی کے ڈاکٹر فاروق افضل، نیشنل پارٹی کے اعجاز احمد آفریدی، مسلم لیگ (ق) کے ملک عظمت خان، معروف قبائلی راہنما اور انگریزوں کے خلاف تحریک مزاحمت کے سپہ سالار فقیر ایپی کے نواسے مولوی ظاہر اللہ اور مختلف سیاسی، سماجی، تجارتی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔

امیر جماعت اسلامی خیبرپختون خوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کو دوبارہ خراب کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ قبائل محب وطن اور مغر بی سرحدوں کے محافظ ہیں، یہاں امن قائم کیا جائے، جنرل پرویزمشرف کی پالیسیاں اب ختم کردینی چاہئیں، فوجی آپریشنز کے باوجود بھی قبائلی علاقوں میں مثالی امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ امن و امان کا مسئلہ قبائلی عوام پر چھوڑا جائے جسے ان علاقوں کے عوام خود سنبھال سکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بدامنی، صحت اور تعلیم کے علاوہ بے روزگاری بڑا مسئلہ ہے۔ امن اور صحت سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے قبائل کو ان کا حق دیا جائے، قبائلی عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے ان کو ایفا کیا جائے، قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ سے حصہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائل کے حقوق اور امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس وقت قبائلی علاقوں کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کام ہونا چاہیے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت قبائلی علاقوں کو 100 ارب روپے سالانہ دینا شروع کردے۔ ٹیکسوں سے نظام چلتا ہے لیکن پہلے ضم اضلاع سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔

تحریک حقوقِ قبائل کے چیئرمین شاہ فیصل آفریدی کاکہنا تھا کہ قبائل کو دیوار کے ساتھ لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قبائل نے ہر کڑے اور مشکل وقت میں پاکستان اور مقتدر اداروں کا پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ساتھ دیا ہے لیکن آج قبائل کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیاگیا ہے جس سے قبائل میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے جو کسی بھی وقت ایک بڑے آتش فشاں کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ قبائل کے ساتھ ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور قبائل کو باعزت روزگار کی فراہمی کے وعدوں کو پورا کیا جائے، بصورتِ دیگر قبائل اپنے جماعتی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے پر مجبور ہوں گے۔

جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے زیراہتمام قبائلی اضلاع کے حقوق کے لیے منعقدہ حقوق قبائل آل پارٹیز کانفرنس میں ایک 21 نکاتی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ:

(1) ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن وامان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت کے واقعات ہورہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ یہاں پر جان بوجھ کر حالات خراب کیے جارہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کو ترجیح اوّل کے طور پر لیا جائے اور قیام امن کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔

(2) انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں کو ٹیکس فری زون قرار دیا گیا تھا۔ 25 ویں آئینی ترمیم پاس ہوتے وقت حکومت نے 5 سال کے لیے قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا، اب اس کی میعاد 31 مئی کو پوری ہوگئی ہے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ جب تک قبائلی اضلاع کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر ترقی نہیں دی جاتی انہیں اُس وقت تک ہر قسم کے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا جائے۔

( 3) قبائلی اضلاع کی پسماندگی دور کرکے پاکستان کے دیگر اضلاع کی طرح ترقی دی جائے۔

( 4) حکومت فاٹا اصلاحات پر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سے مختلف حیلے بہانے بنا کر بھاگ رہی ہے جو کہ قبائلیوں کی حق تلفی ہے، حکومت فوری طور پر کمیٹی کی سفارشات پر من و عن عمل کرتے ہوئے سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دے کراپنا وعدہ پورا کرے۔

(5) قبائلی اضلاع کا قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے صوبوں کا، اس لیے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کردہ 3 فیصد حصہ قبائل کو جلد فراہم کیا جائے۔

(6) قبائلیوں کے حقِ رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16 سے بڑھا کر 24 کی جائے۔ (7) قبائلی اضلاع میں معدنیات پر قبائلیوں کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

(8) قبائلی اضلاع کے معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ لیز کے طریقۂ کار کو آسان بنایا جائے۔

( 9)نئے ضم اضلاع میں بعض اضلاع کے انتظامی دفاتر اور عدالتیں اضلاع سے باہر ہیں، انہیں فوری اپنے اپنے ضلع میں منتقل کیا جائے اور ڈی سی کو اپنے ضلع میں بیٹھنے کا پابند بنایا جائے۔

(10) قبائلی اضلاع کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے بلا سود قرضے دیئے جائیں۔

( 11) قبائلیوں کی ملک کی خاطر قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے معزز شہری کا حق دیا جائے۔

(12) حالیہ مردم شماری میں قبائل کی آبادی حقیقی آبادی سے کم شمار کی گئی ہے، یہ امتیازی سلوک ہے، لہٰذا قبائل کی آبادی کو صحیح طریقے سے شناختی کارڈ کے مستقل پتے پر شمار کیا جائے۔

( 13) قبائلی اضلاع میں مسمار گھروں کے لیے معاوضے کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے۔

(14) قبائلی اضلاع کے لیے وعدے کے مطابق کم از کم 30 ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے۔

(15) قبائلی اضلاع میں معاشی ترقی کے لیے منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔

( 16) قبائلی اضلاع میں تعلیمی انقلاب لا کر غیر مثبت سرگرمیوں کو کچلا جاسکتا ہے، اس لیے ناگزیر ہے کہ ہر ضلع میں یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول بنائے جائیں اور تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کو بحال کیا جائے۔

(17)قبائلیوں کا بھی حق ہے کہ دیگر پاکستانیوں کی طرح اُن کو بھی صحت کی سہولیات گھر کی دہلیز پر میسر ہوں، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ 20 ہزار مربع میل کے علاقے میں کوئی میڈیکل کالج اور بڑا اسپتال نہیں ہے۔ لہٰذا فوری صحت کی سہولیات دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
(18) قبائلی نوجوانوں کو تعلیم کے حصول میں آسانیاں فراہم کی جائیں اور ان کے لیے وظائف کا اجراء کیا جائے۔

(19)کھیلوں کو غیر مثبت سرگرمیوں کے خلاف بہترین ہتھیار قرار دیا جاتا ہے اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرکٹ سمیت ہر گیم میں قبائلیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے، اس لیے قبائلی اضلاع کی ہر تحصیل کی سطح پر گراؤنڈ بنائے جائیں۔

(20) قبائلی اضلاع میں معطل شدہ خاصہ دار فورس کو بحال کیا جائے۔

(21) قبائلی اضلاع میں افغانستان کی طرف تمام تجارتی راستے کھول دیئے جائیں اور یہاں سے قبائل کو روزگار کے لیے آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت دی جائے۔