بھارت یاسین ملک کو کیوں پھانسی دینا چاہتا ہے؟
بھارت کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی NIA نے عدالت سے کشمیری راہنما محمد یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی استدعا کردی، جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے معاملے کی مزید سماعت کرنے کے لیے یاسین ملک کو اصالتاً طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا کہ اب یاسین ملک عدالت میں دوبارہ پیش ہوکر اپنی صفائی پیش کریں گے۔ یوں عدالت نے این آئی اے کی درخواست قبول کرکے یاسین ملک کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ستاون سالہ محمد یاسین ملک کو منظر سے ہٹانا کیوں ضروری ہوگیا ہے؟ اس کی کئی توجیہات ہیں۔ محمد یاسین ملک کشمیر کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ سے کیا، اور 1987ء کے انتخابات میں وہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار سید محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین چیئرمین متحدہ جہادکونسل کے چیف پولنگ ایجنٹ اور پُرجوش حامی تھے۔ اسی دوران دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں کشمیر پولیس نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد میں انہوں نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بینر تلے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور ان کا شمار سری نگر شہر کو کنٹرول کرنے والے لبریشن فرنٹ کے چار شہرۂ آفاق ایریا کمانڈروں میں ہونے لگا۔ تین عشرے سے جاری کشمیری مزاحمت نے اپنے آخری موڑ پر درجنوں ناموں کی چھانٹی کرنے کے بعد تین بڑے ناموں کو اپنی قیادت کے طور پر چن لیا تھا۔ ان میں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک شامل تھے۔ ان تینوں شخصیات میں قدرِ مشترک ان کی عوام میں جڑیں، ساکھ اور پذیرائی تھی۔ میرواعظ عمرفاروق سری نگر کے ڈائون ٹائون علاقے اور جامع مسجد کے گرد ونواح میں عوام کے بے تاج بادشاہ تھے تو اس سے باہر کی دنیا پر سید علی گیلانی کا راج تھا۔ یہ سید علی گیلانی ہی تھے جنہوں نے جنرل پرویزمشرف کے کریک ڈائون کے نتیجے میں دم توڑتی ہوئی کشمیری مزاحمت کو اپنی تقریروں سے ایک نئی تگ وتاز دی، جس کے بعد اچانک ہی عسکریت سے فاصلہ قائم کرتا ہوا کشمیری سماج ایک بار پھر عسکری نوجوانوں کے گرد جمع ہوگیا تھا۔ انہوں نے کشمیری شہیدوں کے جنازوںکو اُس وقت اونر شپ دی جب سیاسی قیادت کو عسکریت سے دورکیا جا چکا تھا۔ جبکہ کشمیر کی ایک آزاد ریاست کا نظریہ رکھنے والے محمد یاسین ملک سری نگر کے پرانے شہر سمیت وادی کے طول وعرض میں اپنا اثر رسوخ رکھنے والی شخصیت تھے۔ سید علی گیلانی اور یاسین ملک میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں کنٹرول لائن کی دوسری جانب یعنی آزادکشمیر بلکہ پاکستان، برطانیہ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنی حمایت رکھتے تھے۔
اپنے مضبوط حلقہ ہائے اثر رکھنے والے ان سیاسی راہنمائوں کی ٹرائیکا دستِ قدرت کے ہاتھوں اُس وقت ٹوٹ گئی جب سید علی گیلانی کا انتقال ہوگیا۔ میر واعظ عمر فاروق کو بھارت نے 5 اگست 2019ء سے گھر میں نظربند کردیا، اور یہ سیدعلی گیلانی کی ہی نظربندی کا اسٹائل ہے جنہیں کم و بیش دس سال تک دنیا سے کاٹ کر نظربند رکھا گیا تھا اور اسی عالم میں ان کا انتقال ہوا۔ میرواعظ کو جامع مسجد کے پُرجوش نمازیوں سے دور رکھے ہوئے چار سال گزر گئے ہیں۔
محمد یاسین ملک سید علی گیلانی کے بعد کشمیر کے موجودہ منظر پر وہ واحد راہنما تھے جو نڈر، بے خوف اور کشمیر میں مزاحمت کی ایک نئی لہر اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ نوجوانوں کو ان کی باتوں میں سوز اوردرد ملتا ہے اور وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں۔ یاسین ملک کی ذات میں پنہاں یہی پوٹینشل ان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا اور سید علی گیلانی کی حیات کے ڈوبتے سورج کے بعد آسمان ِ حریت پرکسی نئی شخصیت کے طلوع کے اندیشے کے باعث محمد یاسین ملک کا ’’انتظام‘‘ ضروری ہوگیا تھا۔
محمد یاسین ملک کو اپریل 2019ء میں دہشت گردی کے لیے فنڈز منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 24 مئی 2022ء کو انہیں بھارتی عدالت نے سزائے عمر قید سنادی، جس کے بعد اب نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے عدالت سے عمر قید کو سزائے موت میں بدلنے کی درخواست کی ہے۔ این آئی اے کی طرف سے کی جانے والی یہ استدعا نہ صرف ایک ذہنیت کا پتا دے رہی ہے بلکہ بھارت اور نریندر مودی کے مستقبل کے عزائم کا بھی کھلا اظہار ہے۔ ایجنسی کی اس اپیل کے بعد کشمیر میں سراسیمگی پیدا ہوچکی ہے اور یہ سوال زبان زدِ عام ہے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت اگلے انتخابات کو جیتنے کے لیے یاسین ملک کو افضل گورو کے انداز میں سزائے موت دے سکتی ہے؟ گزشتہ برس دہلی میں بھارتی عدالت نے تحریکِ آزادی کے راہنما محمد یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یاسین ملک پر 120 الزامات پر مبنی فردِ جرم عائد کی گئی تھی جس کا دفاع کرنے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ سنائیں اور مجھے پھانسی دیں، میں اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ یاسین ملک کی اس بات کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ بھارتی اداروں کی طرف سے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کے حق میں دلائل دئیے گئے تھے جن کا ذکر عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی کیا تھا۔ محفوظ فیصلہ سنانے کے دن یاسین ملک کو دوبارہ سخت حفاظتی حصار میں عدالت لایا گیا تھا۔ اس موقع پرجج نے کہا تھا کہ استغاثہ نے عدالت سے ان کی سزائے موت کی درخواست کی ہے، جس پر یاسین ملک نے کہا کہ وہ عدالت سے کسی قسم کی بھیک نہیں مانگیں گے مگر عدالت کو ان کے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ جج نے یہ کہہ کر کہ اب ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے، سوالوں کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔
یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے دن کشمیر میں ہڑتال تھی جبکہ بھارتی فوج نے کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کے لیے شہروں اور دیہات میں کرفیو نافذ کررکھا تھا، اس کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں سری نگر کے مائسمہ علاقے میں یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوکر ان کی حمایت میں نعرے لگاتی رہیں۔ بھارتی فوج نے ایسے درجن بھر نوجوانوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے نہایت ذلت آمیز انداز میں پیش کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں لوگوں کی آواز کو دبانے کے لیے کس انداز کا جبر کا تہہ درتہہ نظام قائم کررکھا ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے بھرپور احتجاج کرکے بھارتی عدالت کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔ آزادکشمیر میں بھی اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے لیے قائم روایتی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بھی اس فیصلے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ یاسین ملک کی سزا کے فیصلے کے روز اُن کے گھر کی کھڑکی پر اُن کی ہمشیرہ کی قرآن پاک پڑھتے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوئی تھی۔
یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کی تشفی یاسین ملک کی عمر قید سے نہیں ہورہی، اور وہ کشمیر کے ایک اہم اور مقبول سیاسی راہنما کو تختۂ دار تک پہنچانا چاہتی ہے۔ یاسین ملک بھارتی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے پہلے سربرآوردہ کشمیری راہنما ہیں۔ اس سے پہلے بھارت نے جرمِ آزادی میں یا تو مقبول بٹ اور افضل گورو کی طرح حریت پسندوں کو تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا، یا پھر سید علی گیلانی کی طرح غیر اعلانیہ عمر قید میں رکھ کر ان کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے کا انتظار کیا، اور اب شبیر احمد شاہ اور دوسرے قائدین مختلف مقدمات میں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
یاسین ملک کشمیر کی اُس سیاسی قیادت کا حصہ ہیں جس نے اپنا حال قوم کے آزاد و باوقار مستقبل کے لیے وقف کیے رکھا۔ اس راہ کو منتخب کرنے والوں کی زندگیاں یا تو جیلوں میں گزر گئیں یا پھر صعوبتوں کی کسی اور زنجیر نے انہیں تاحیات جکڑے رکھا۔ اس نسل نے اپنا حال خراب کرکے قوم کا مستقبل سنوارنے کا بارِ عظیم سنبھال لیا۔ یہ کوئی آسان راستہ نہیں بلکہ کانٹوں بھری راہ ہے۔ دس سال کی نظربندی کے بعد اس راہ پر چلنے والے سید علی گیلانی کا جنازہ بھی چھین کر رات کی تاریکی میں دفن کرکے ان کی قبر پر پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس راہ میں چلنے والے مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے پھندوں پر چڑھا کر ان کی قبروں کے نشان بھی نہیں چھوڑے جاتے کہ مبادا یہ نشان نئی نسل کے لیے قوت کا سامان بن جائیں۔ اس راہ کا انتخاب کرنے والے اشرف صحرائی کسی روز جیلوں کی تنگ وتاریک فضا میں اپنوں سے دور گھٹ گھٹ کر دم توڑدیتے ہیں۔ اسی قطار میں شبیر شاہ، نعیم خان اور مسرت عالم جیسے لوگ ہیں، اور نجانے کب ان کی باری آجائے۔ کشمیریوں کی اس نسل سے بھارت خصوصی طور پر خار کھاتا ہے کہ اس نسل نے بھارت کے قبضے کو چیلنج کیا، اور یوں کشمیر ایک انقلاب سے آشنا ہوا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس نسل کو حراست میں موت سے ہمکنار کرکے یا پھانسی دے کر، یا پھر طویل عرصے تک جیلوں میں رکھ کر کشمیریوں کی نئی نسل کو آزادی جیسے نعروں سے توبہ تائب کرا سکتا ہے۔ اس نسل کے خاتمے کے بعد کشمیر میں نہ تو آزادی کے حوالے سے دوبارہ کوئی فصل لہلہائے گی اور نہ اس کی آبیاری کی کوئی جرات کرسکے گا۔ اس لیے بھارت ایک پوری نسل کو نشانِ عبرت بنائے ہوئے ہے۔ کچھ یہی سوچ کر بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت چھیننے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ سرکاری فرمان نے جموں وکشمیر کو یونین ٹیریٹری کا نام تو دیا مگر کشمیریوں کے دل ودماغ تسخیر نہ کیے جا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں بدستور ایک دلدل میں کھڑا ہے جس کا اعتراف بھارت کے معتدل مزاج دانشور بھی کررہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے ’دی وائر‘ ٹی وی کے کرن تھارپر کو کشمیر کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو میں کہا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر کی صورتِ حال مزید سنگین ہوکر رہ گئی ہے۔کشمیر میں تحریک ایک نئے انداز اور نئی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ محمد یاسین ملک کو سزائے موت دی جاتی ہے تو یہ کشمیر میں ایک اور مقبول بٹ کی پھانسی بنے گی۔ مقبول بٹ کی پھانسی کشمیر کے خرمن ِامن میں ایسی چنگاری ثابت ہوئی تھی جس کی آگ میں چار عشروں سے کشمیر جھلستا اور سلگتا چلا آرہا ہے۔ بھارت ایک اور سید علی گیلانی اورکشمیر کی مزاحمت کے ایک اور دور کے آغاز اور احیا کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے یاسین ملک کو جلد از جلد راہ سے ہٹانا چاہتا ہے، مگر یہ ایک طویل دلدل میں بھارت کا پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے اور کشمیری نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ یاسین ملک کی پھانسی کے ردعمل میں پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کر سکتی ہے۔