عمران خان،نوازشریف رابطے کی کوشش

’’مثبت نتائج‘‘ کے لیے نئی سیاسی انجینئرنگ

9 مئی کے متشدد واقعات اب ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں، لیکن تاریخ سے سبق کون سیکھتا ہے؟ چاہیے یہ تھا کہ ان واقعات کو بنیاد بناکر پالیسی ساز فیصلہ کرتے کہ ملک میں سیاسی، معاشی اور سماجی عدل کا نظام قائم کردیا جائے، اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ بھی یہی سوچتی۔ لیکن ملک میں حقیقی اور پائیدار تبدیلی لانے کے بجائے ڈنگ ٹپائو کام ہورہا ہے جس نے ملکی صورتِ حال کو انتہائی مکدر کردیا ہے، لیکن تبدیلی کے بجائے ایک ناکام ہائبرڈ نظام اکھاڑ کر نیا ہائبرڈ نظام لایا جارہا ہے۔ اس نئے نظام میں سب سے بڑا سوال انسانی حقوق کے بارے میں اٹھے گا کہ مستقبل میں شہری حقوق سمیت قانون کے تابع آزادی بھی محدود ہوجائے گی اور معاشرے پر غیر سیاسی گرفت کم ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوگی۔ عمران خان پراجیکٹ کی کلی ناکامی کے بعد فیصلہ ہونا چاہے تھا کہ اب ملک میں عدل کا نظام مضبوط بنادیا جائے تاکہ سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیاں ختم ہوسکیں اور قوم یکسو ہوکر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ بن جائے۔ لیکن غالباً کسی کو اس قوم کا ابھی مزید امتحان مقصود ہے، یہی وجہ ہے کہ نظام سے عوام کی بیزاری اور نوجوان نسل کی غضب ناکی کا کسی کو ادراک نہیں ہے۔ ان دنوں میڈی ایٹرز کا بہت شور سننے میں آرہا ہے۔ یہ میڈی ایٹرز وہی ایلیٹ کلاس ہے جو خود کو برتر سمجھتی ہے اور جواب دہی کے لیے تیار نہیں۔ ان کی میڈیکل بنیادوں پر ریلیف کے لیے لمحوں میں فائل تیار کرکے عدالتوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ یہ کام ماضی میں بھی ہوتا رہا، اور آج بھی ہونے جارہا ہے۔ اس کام میں بیوروکریسی، سیاست دان اور ملک کا نظام عدل سب ایک پیج پر ہیں۔ ملک کے اگر حقیقی مسائل کی بنیادی وجوہات جاننا ہوں تو غیر منصفانہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں مسلط کی جانے والی حکومتیں ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں کہ ایسی حکومتیں عوام کی منشا اور مرضی کے بغیر مسلط کی جاتی ہیں، اور پھر ایسی حکومتوں سے ملک میں عدل اور انصاف کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ تصور عوام کے ساتھ دھوکے اور فریب سے کم نہیں ہے، اور ہر لحاظ سے قابلِ تعزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے ملک میں جمہوریت ، تسلیم شدہ بنیادی انسانی، شہری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کی منزل مسلسل دور ہوتی جارہی ہے۔ یہیں سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے اور تعصبات مجروح ہونے کے بجائے نئی نئی شکل اور مطالبات کی صورت میں سامنے آتے رہتے ہیں۔

اگر سیاسی طور پر بات کی جائے تو آئین کی تشکیل کے بعد 18ویں ترمیم کا بہت شور ہے، اور پیپلزپارٹی اس کا بہت کریڈٹ لیتی ہے۔ لیکن18آئینی ترمیم کو ہوئے تیرہ سال ہوچکے اور سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، مگر اُس نے آج تک اُن محکموں کی اونرشپ قبول نہیں کی جو اس آئینی ترمیم کے ذریعے صوبے کو منتقل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تعلیم، صحت سمیت دیگر شعبوں میں تنظیمِ نو نہیں ہوسکی اور مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہی صورتِ حال بلدیاتی نظام سے متعلق ہے کہ ابھی تک یہی بحث ہورہی ہے کہ ایک جامع آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں سے ضلع اور نچلی سطح تک وسائل اور مالیات سمیت اختیارات کو منتقل کیا جائے۔ غیر منصفانہ راستوں سے مسلط کی گئی کسی بھی حکومت کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کے نام پر ذاتی لڑائی لڑتی ہے، جیسا کہ ابھی حال ہی میں آرٹیکل 184 (3) میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس قانون میں ترمیم لائی گئی ہے۔ اس قانون کی بنیادی روح یہ تھی کہ اسے مفادِ عامہ کے لیے استعمال کیا جائے گا، لیکن اس کے غلط استعمال نے اس میں اصلاح کی کوشش کو مزید مشکل بنادیا ہے جس سے ایک نئی سرد جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے۔ ماضی سے اب تک اس سرد جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت، سفارت کاری اور سیاسی استحکام ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں چین، ترکی، سعودی عرب اور مصر نے سری نگر میں ہونے والی جی20 کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ پاکستان اسے اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے، لیکن اصل کامیابی تو مسئلہ کشمیر کا حتمی حل ہے، اس جانب اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟ حکومتِ پاکستان کا مؤقف ہے کہ پاکستان چین یا امریکہ، کسی بھی بلاک میں شامل نہیں ہوگا، امریکہ پاکستان کی سب سے زیادہ برآمد ات کی منڈی ہے، اور چین اس خطے میں اہم دوست ملک ہے۔ لیکن اس فیصلے کے بجائے کھلی آنکھوں کے ساتھ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک معاشی لحاظ سے مضبوط ہو اور قرضوں سے نجات مل جائے۔ ہمارے لیے تو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے یہ حالات بن گئے ہیں کہ آئی ایم ایف ابھی تک اسٹاف لیول معاہدے کے لیے تیارنہیں ہے اور ملکی معیشت خطرناک سطح پر کھڑی ہے، ملک میں مہنگائی کا گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے جس سے عام آدمی سخت متاثر ہورہا ہے۔ شرائط پوری ہونے اور دوست ممالک کی جانب سے مالی ریلیف دیے جانے کے باوجود اب آئی ایم ایف معاہدے کے لیے راضی نہیں، اس کی وجہ حکومت کا عوامی مینڈیٹ سے محروم ہونا ہے۔دو بڑے صوبوں کی اسمبلیاں موجود نہیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں بھی ارکان کی تعداد پوری نہیں ہے، لہٰذا بین الاقوامی ادارے ملک میں نئے الیکشن کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ نئی منتخب حکومت سے بات چیت کریںگے۔

اسمبلیوں کی مدت رواں سال اگست میں مکمل ہونے جارہی ہے، 14 اگست نگران حکومت کا پہلا دن ہوگا۔ آئین نے تو نگران حکومت کی مدت کا تعین کیا ہوا ہے، اس کے باوجود یقین نہیں ہے کہ نگران حکومت کتنے عرصے کے لیے آئے گی؟ اس بارے میں ابہام بڑھ رہا ہے۔ نگران حکومت کے قیام کے لیے بات چیت ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم نے غالباً یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ انہیں یقین ہوچکا ہے کہ ان کی جماعت منتشر ہوتی چلی جارہی ہے اور ان کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، ایسے میں وہ خود اپنی سیاسی بقا جمہوری عمل کے تسلسل میں تلاش کر رہے ہیں، اسی لیے تحریک انصاف کی جانب سے ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان ہوا ہے تاہم معاملات کہیں اور طے ہورہے ہیں۔ تحریک انصاف کے عمران خان اور مسلم لیگ(ن) کے نواز شریف کے مابین رابطے کے لیے ایک سابق اٹارنی جنرل( نام لکھا جاسکتا ہے تاہم مناسب نہیں) جو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے عزیز بھی ہیں، ان دنوں بہت متحرک ہیں۔ ملک کے سیاست دانوں اور عدلیہ کے ججوں کی باہمی رشتہ داریاں بہت دلچسپ ہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، مسلم لیگ(ن) کی رکن قومی اسمبلی کے سمدھی ہیں، یہ سب ایک دوسرے کے محافظ بھی ہیں اور ناقد بھی، یوں سمجھ لیجیے کہ کھیل جیسا بھی ہو، گیند ہمیشہ ایک ہی خاندان کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ اگر ملک میں نگران حکومت کے لیے سیاست دان اتفاق کرلیتے ہیں تو اس کے بعد نگران حکومت کی مدت کا اصل کھیل شروع ہوگا۔ نگران حکومت کی سربراہی کے لیے شعیب سڈل اور مشاہد حسین سید کے نام بھی زیر غور فہرست میں موجود ہیں۔ شعیب سڈل نگران وزیراعظم بنے تو یہ ایک مختلف نگران حکومت ہوگی۔ جس طرح عمران خان پراجیکٹ بند ہورہا ہے یہ نگران حکومت بھی بہت سارے سیاست دانوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر فارغ کردے گی۔ عمران خان کی نااہلی کے لیے القادر ٹرسٹ کیس ایک بہت مضبوط کٹہرا ہے کیونکہ یہ منی لانڈرنگ کا کیس ہے، یہی وجہ ہے کہ لندن میں مقیم دو پاکستانی خاندانوں سے وابستہ جائدادوں کے تناظر میں سیاسی اشرافیہ اور ان کی جائداد کے لیے برطانیہ کے ایک محفوظ ٹھکانہ ہونے کی حیثیت نے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ایون فیلڈ ہاؤس میں شریف خاندان کی رہائش گاہ اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی ہائیڈ پارک پیلس پر حویلی کا ذکر ہے، جو 2019ء میں ملک ریاض کے ساتھ نیشنل کرائم ایجنسی کے تصفیے کے دوران سامنے آئی۔ ملک ریاض کی پراپرٹی (جس کی مالیت 2019ء میں 5 کروڑ پائونڈ تھی) این سی اے کے ساتھ ہونے والے تصفیے کا مرکز تھی اور اس تصفیے میں شامل رقم پاکستان میں ایک تنازعے کا موضوع بن گئی۔ یہ پراپرٹی 2022ء کے اوائل میں 3 کروڑ 85 لاکھ پائونڈ میں فروخت کی گئی تھی اور یہ رقم بھی این سی اے نے پاکستان کو واپس کردی تھی۔

پاکستان میں سیاسی افراتفری خود برطانیہ کے لیے بھی سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ سابق وزیراعظم کی گرفتاری اور پاکستانی سیاست میں گزشتہ دہائی کے دوران ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات، اسلام آباد اور لندن کے درمیان دولت کی ترسیل، اور سیاسی اشرافیہ اور ان کی جائدادوں کے لیے برطانیہ کی عجیب و غریب حیثیت گہرائی تک الجھی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس دولت کے ٹھکانے کے طور پر لندن کا کردار اس انداز میں جانچ پڑتال کی زد میں آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سماجی کارکنان نے دلیل دی ہے کہ روس کی سیاسی کاروباری شخصیات کے علاوہ لندن پوری دنیا کی سیاسی اشرافیہ کا مرکز ہے، اس میں شریف خاندان اور ملک ریاض سے وابستہ جائدادوں کا حوالہ دیا گیا جو کہ لندن کی ایک ’محفوظ ٹھکانے‘ جیسی حیثیت ظاہر کرتا ہے۔ ملک ریاض خاندان کے وکلا کے مطابق یہ خاندان برطانیہ میں دیگر جائدادوں کا بھی مالک ہے جنہیں پاکستان کے ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ایون فیلڈ ہاؤس کا ذکر کیا گیا، جہاں شریف خاندان نے مبینہ طور پر ایک فلیٹ بنانے کے لیے 4 مہنگے اپارٹمنٹس خریدے۔ نوازشریف کے لندن میں رہنے کی اہلیت پر بھی سوال اٹھایا گیا، اینٹی کرپشن واچ ڈاگ ’اسپاٹ لائٹ آن کرپشن‘ کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق ’’حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف برطانیہ آکر پاکستان میں انصاف سے بچنے میں کامیاب ہوئے‘‘۔ پھر یہاں رہ کر کاروبار چلانا اور سیاسی سرگرمیوں کی ہدایت دینا اصل امیگریشن اسکینڈل ہے۔ یہ واضح ہے کہ برطانیہ کے امیگریشن سسٹم میں کرپٹ سیاست دانوں کے لیے الگ اصول ہے اور حقیقی پناہ گزینوں کے لیے الگ اصول۔ان دو جائدادوں کی کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے لندن میں چھپائی گئی دولت کی تحقیقات کے بارے میں برطانیہ اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے جواب دہ ہے۔ منی لانڈرنگ کے قوانین سے جو واقف ہیں، وہ اس کیس کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کئی سال تک گرے لسٹ میں رکھا ہوا تھا اور اِن دنوں بھی پاکستان گرے لسٹ سے باہر ہے مگر کلیئر نہیں ہوا بلکہ واچ لسٹ میں ہے۔

اس کیس کی اہمیت اپنی جگہ پر، آئندہ انتخابات کے لیے عمران خان اب بھی اہم ہیں، اگر وہ ’’راہِ راست‘‘ پر آگئے تو ملک میں انتخابات بھی ہوجائیں گے، ورنہ ’’مثبت نتائج‘‘ تک ہر سیاسی جماعت کے لیے کٹہرا تیار ہے ۔ یہ جو اِن دنوں تحریک انصاف چھوڑ دینے کی سیاسی وبا پھیلی ہوئی ہے، یہ بدبودار تعفن زدہ ماحول ختم کرنے کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ پارٹی چھوڑنے کے اعلانات اپنی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ عتاب سے بچنے کے لیے کیے جارہے ہیں اور اسے ازخود سیاسی انجینئرنگ کا نام دینا مناسب ہوگا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو فیصلہ اب ہوچکا ہے اور جس کام کا آغاز ہوا ہے اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ جو ان فیصلوں کو سمجھ نہیں رہے اُن کا خیال ہے کہ ہدایت کار پرانے ہیں اور اداکار نئے ہیں۔ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ انہیں حالات کا ادراک ہی نہیں، اب جو بھی حکومت آئے گی وہ کلی تابع فرمان، بے زبان اور چابی والا کھلونا ہوگی۔

اب آتے ہیں عمران خان اور اُن کی روزانہ ویڈیو پیغام جاری کیے جانے کی کہانی کی جانب… یہ ویڈیو پیغام اب دھمکیوں نہیں بلکہ منت سماجت کے مدار میں داخل ہوچکے ہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نو مئی کو کوئی بھی فراموش کرنے کو تیار نہیں ہے، جنرل عاصم منیر اب ایک مختلف اور بدلے ہوئے سپہ سالار ہیں، ان سے متعلق تحریک انصاف کی جو مہم جوئی ہونی تھی، وہ ہوچکی، اب جنرل عاصم منیر کے فیصلے اور سکہ چلے گا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جنرل عاصم منیر ملکی سیاسی حالات کے باعث ایک کمزور سپہ سالار سمجھے جاتے تھے کہ وہ پھونک پھونک کر قدم بڑھا رہے تھے، لیکن نو مئی کے واقعات نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان واقعات کا ابتدا میں عمران خان نے جن الفاظ کے چنائو کے ساتھ ذکر کیا تھا یہ فاتح کی باڈی لینگویج تھی، لیکن وہ نو مئی کے واقعات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہ کرسکے۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ نو مئی سے پہلے بہت کچھ تحریک انصاف کے حق میں تھا، لیکن جب فیصلہ کرلیا تو پھر حالات پلٹا کھا چکے ہیں۔ اب جنرل عاصم بلاشبہ طاقت ور ترین سپہ سالار بن کر سامنے آئے ہیں۔ سانحہ نو مئی کا شاخسانہ ہے کہ سیاسی آئینی حکومت کی موجودگی کے باوجود پورا نظام جنرل عاصم منیر کے اشارۂ ابرو کا منتظر ہے۔ میڈیا ہائوسز کو بہت سخت پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے اور دشمن کا دوست بھی ہمارا دشمن سمجھا جائے گا، اب فیصلہ میڈیا ہائوسز کو کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہونا چاہیں گے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب فیصلہ سازوں کے پاس صرف ایک چوائس بچی ہے، مثبت نتائج تک الیکشن سے اجتناب کریں اور اگلے چند سال وطن کے استحکام کو یقینی بنائیں۔ فضل الرحمان بھی انتخابات کی مشروط حمایت کررہے ہیں اور اسے معیشت سے جوڑ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوری لوگ ہیں لیکن اس وقت پہلی ترجیح معیشت ہے اور الیکشن سے متعلق پی ڈی ایم کا فیصلہ متفقہ ہوگا۔

پاکستان اس وقت جس بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اپنی 76سالہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے حکومت اور اس کی معاشی ٹیم دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہر طرح کے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے، مگر صورتِ حال ہے کہ قابو میں نہیں آرہی، اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے معاملے میں ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جیو ٹی وی نے اس مسئلے پر ’گریٹ ڈیبیٹ‘ کے عنوان سے ایک مباحثے کا اہتمام کیا جس میں ملک کے ممتاز معاشی ماہرین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی اجاگر کی اور اس کے حل کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں جو گہرے غور و فکر کی متقاضی ہیں۔ ماہرین کے خیال میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام کی اشد ضرورت ہے، اس معاملے میں پلان بی اور پلان سی کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط یقیناً بہت سخت ہیں لیکن معاشی ابتری پر قابو پانے کے لیے ان پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارۂ کار بھی نہیں۔ معیشت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور دانش وروں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے جو فکر انگیز آرا اور تجاویز پیش کیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ ہوگیا تو مہنگائی میں جو پہلے ہی عام آدمی کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، 70فیصد تک مزید اضافہ ہوجائے گا جس سے صاحبِ حیثیت لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے بجٹ اور کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پانا ہوگا، برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ معاشی بحران ملک میں معاشی عدم استحکام کا براہِ راست نتیجہ ہے اور آئی ایم ایف بھی سخت ترین شرائط پوری کرنے کے باوجود اسی وجہ سے قرضہ جاری نہیں کررہا۔ اس لیے سیاست دانوں کو اپنی سیاست کے بجائے ریاست کے مفادات پر توجہ دینا ہوگی تاکہ معاشی ابتری دور کرنے کی تدابیر کارگر ہوسکیں۔ ماہرین کے مطابق زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ہول سیلرز پر ٹیکس ہونا چاہیے، نج کاری کے اقدامات کرنا ہوں گے جس کے لیے سیاسی عزم بھی ضروری ہے جو اِس وقت مفقود ہے، اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر اس سلسلے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی تجویز بھی سامنے آئی۔ مباحثے میں بھی یہ بتایا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر ہر سال 50ارب ڈالر کی خوراک درآمد کرتا ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ خوراک کا درآمدی بل کم ہوسکے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ترسیلاتِ زر کے لیے ترغیبات دی جائیں جو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ اسکیم کو فعال بنایا جائے۔ پراپرٹی کو فیئر ویلیو پر لایا جائے۔ روپے کی قدر کو گرنے سے بچانے کے لیے ایکسچینج ریٹ پر قابو پانا ہو گا جس کا اس وقت مفروضوں اور نادیدہ خدشات کی بنیاد پر تعین ہورہا ہے۔ ٹیکسوں کی شرح کم کرکے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا۔ اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہوا تو اگلے بارہ ماہ میں پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے جس کے قومی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

گریٹ ڈیبیٹ اس لحاظ سے دوررس نتائج کی حامل ہے کہ اس میں معاشی ماہرین نے اپنے طویل تجربات، مشاہدات اور معاشی فکر کی روشنی میں صورتِ حال کا تجزیہ کیا اور بہت معقول تجاویز پیش کیں۔ اب یہ پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ بحث کی تفصیلی رپورٹ حاصل کرکے متعلقہ فورم پر اس کا تجزیہ کریں، اسے قابلِ عمل بنائیں اور ملک کو معاشی بحران کے گرداب سے نکالیں۔ اس معاملے میں تذبذب یا تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔