اسلام اور سیکولر زم (ایک موازنہ)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی عالم ِاسلام کے مایہ ناز عالمِ دین تھے۔ دورِ حاضر میں اپنے علمی تبحر اور تفقہ فی الدین اور عصرِ حاضر کے مسلمان اہلِ علم میں ایک امتیازی شان رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف ان کے علمی مقام و مرتبے، ذہانت و بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔ وہ عرب دنیا میں جدید دور کے مسائل میں اسلامی نقطہ نظر کے معتبر اور پُرزور ترجمان تھے۔ ان کی تحریروں میں اعتدال، توازن اور فکری فراخ دلی و وسیع المشربی اور کشادگی کا اظہار ہوتا ۔ فکری طور پر وہ جمود اور تقلید سے کوسوں دور تھے لیکن ایسے معلوم ہوتا جیسے وہ جدیدیت سے متاثر ہیں۔ بعض حلقے اسے قابلِ اعتراض قرار دیتے، مگر یہ درست نہیں تھا۔

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب ’’اسلام اور سیکولرزم‘‘ ایک عام فہم، سادہ، مگر پُرزور انداز میں اسلامی ریاست کی وکالت، اس کے خدوخال کی وضاحت اور سیکولرزم کے اس تصور کی نفی پر مبنی ہے جس کے تحت اسلام کو ریاست سے بے دخل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مسائل اُن فکری مسائل میں سرفہرست اور نمایاں ہیں جو بیسویں صدی میں اسلامی دنیا میں زیر بحث رہے۔ مسلمان ممالک میں جہاں اسلامی ریاست کے پُرجوش حامیوں کی کمی نہیں، وہاں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اسلام کے ریاستی امور سے تعلق کے قائل نہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی معاملات مذہبی و دینی وابستگی سے بالاتر رہ کر کرنے چاہئیں۔ مصر کو اس اعتبار سے مسلم دنیا میں اہم مقام حاصل ہے جہاں امتِ مسلمہ کو درپیش فکری مسائل پر بھرپور انداز میں گفتگو ہوتی رہی، اور ان میں اسلام اور ریاست کے باہمی تعلقات کا معاملہ نہایت اہم تھا۔

مصر میں بائیں بازو کے معتبر نمائندہ تصور ہونے والے احمد فواد زکریا نے اپنی تحریروں میں خالص سیکولر نقطہ نظر کی ترجمانی کی۔ ڈاکٹر فواد زکریا نے اپنے مضامین میں منطقی انداز اپنانے کے بجائے ایسا طریقِ کار اپنایا جو تلوار لے کر اپنے مخالفین پر حملہ آور ہونے جیسا تھا۔ انہوں نے کوشش کی کہ 1400 سال سے طے شدہ اور مسلمہ امور اور اصولوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔ ’’بالخصوص اسلامی شریعت کے بارے میں کہ وہ اللہ کے نازل کردہ اصول و قواعد کا مجموعہ ہے‘‘۔ نیز انہوں نے داعیانِ اسلام کے خیالات و جذبات سے قریب ہونے کے لیے اپنے افکار و نظریات میں لچک پیدا کرنے کے بجائے کوشش کی کہ ان کے افکار و خیالات سے ہم آہنگی اور قربت پیدا کریں۔ ان کا طریقہ تعمیر کے بجائے تخریب اور اتفاق و یکجہتی کے بجائے تفریق اور دوری کا غماز تھا، جس سے کوئی مفید نتائج نہ مل سکتے تھے۔ ڈاکٹر فواد زکریا سیکولر حلقوں کے نمائندہ اور ان کے طے کردہ پروگرام پر عمل پیرا تھے۔ اسلام، اسلامی شریعت اور اسلام کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے خلاف مورچہ جماکر رائے عامہ ہموار کرنے کے مشن پر مامور تھے اور یہ کام وہ مصر کے اخبار ’’الاہرام‘‘ کی پوری تائید اور پشت پناہی سے سر انجام دے رہے تھے۔

’’اسلام اور سیکولر زم‘‘ میں ڈاکٹر فواد زکریا اور ایسے ہی دوسرے لادینیت زدہ دہریت پسندوں کا ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے نصیحت آموز اور خیر خواہانہ انداز میں تعاقب کیا ہے اور چند اسلامی سیاسی امور کو پیش نظر رکھا ہے اور انہی پر اپنی گفتگو مرکوز کرکے وضاحت کی، انہوں نے دونوں فریقوں کے مؤقف کہ دونوں میں سے ہر ایک کی فکر کیا ہے اور وہ کس مقام پر ہے؟ گفتگو کے بنیادی نکات کا تعین کرتے ہوئے، اسلام اور لادینیت کے معانی کی تحدید، نیز ان معیارات کا تعین جن کی طرف اختلافات کی صورت میں رجوع اور فریقین بطور حکم تسلیم کرنے پر رضامند ہوں، فریقین کے درمیان اصل اور کلیدی اختلاف کی وضاحت اولاً ایسے امور جن پر اتفاق ہے، یا اختلاف، ان کا تعین، سیکولر اور لادینی حلقے اسلام اور اسلامی شریعت کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا کرتے رہے ان کا تفصیلی جائزہ اور تردید، کیونکہ یہ اعتراضات بالکل بے بنیاد اور علمی نقطہ نظر سے کمزور،بودے اور بے وزن ہیں، اور جدید دور میں عالم اسلام کو حقیقی آزادی کا حصول کیسے ہو اور نفاذِ شریعت کی کوششوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اور ان کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اقدامات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ استعمار اور صہیونیت کا مؤقف بھی واضح کیا ہے۔

کتاب کا موضوع ایسا تھا جس کا ترجمہ اردو میں ضروری تھا تاکہ اردو قارئین اس قیمتی لوازمے سے محروم نہ رہیں۔ کتاب کو اردو میں ڈھالنے کا کام ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے سر انجام دیا، جبکہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر نظرثانی کی۔
’’اسلام اور سیکولرزم‘‘ جدید ذہن کے اشکالات کا تسلی بخش اور شافی جواب دیتی ہے اور خاص طور پر اساتذہ و طلبہ کے لیے نہایت مفید لوازمہ لیے ہوئے ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ کتاب عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ اور معیاری انداز لیے ہوئے ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔