مشہور برطانوی مستشرق مارگولیتھ (Margoliouth)نے کہا تھا: ”محمد ﷺ کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا غیر ممکن ہے، لیکن اس میں جگہ پانا قابلِ فخر چیز ہے۔“
بلاشبہ سیدالمرسلین، خاتم النبیین محمد الرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ پر اردو سمیت دنیا کی ہر علمی زبان میں ہزارہا کتب موجود ہیں اور آپﷺ کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ لیکن اردو زبان میں ہزارہا کتبِ سیرت لکھی جانے کے باوجود تاریخِ سیرت، تدوینِ سیرت اور سیرت نگاروں کے ذاتی و عصری حالات، ان کے مناہج و اسلوب وغیرہ پر مواد کم ملتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب ”سیرت نگارانِ مصطفیٰﷺ“ اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک لائقِ تحسین کاوش ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے تاریخ نویسی کی طرف توجہ دوسری صدی ہجری، بلکہ بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں کی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے تاریخ کی کتابیں، خواہ وہ کتنی ہی ابتدائی نوعیت کی کیوں نہ ہوں، پہلی صدی ہجری کے وسط میں لکھنا شروع کردی تھیں۔ پہلی صدی ہجری صحابہ اور تابعین کی صدی تھی۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں سیر و مغازی کا تذکرہ مسلمانوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں تاریخ نویسی کا آغاز مغازی اور سیر سے ہوا۔ مغازی کی روایت اور درس کی ابتدا عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہوچکی تھی اور پہلی صدی ہجری ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ مغازی و سیرت کی ابتدائی کتابیں مدون ہوچکی تھیں۔
اس کتاب کی تصنیف کا بنیادی مقصد سیرت نگاری کے اس سفر کا جائزہ لینا ہے جو پہلی صدی ہجری کے نصف آخر سے مدینہ منورہ سے شروع ہوا، پھر دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عراق کے شہروں بصرہ اور بغداد میں برگ و بار لایا۔ وہاں سے سیرت نگاری کا قافلہ چوتھی صدی ہجری میں یورپ کے ملک اسپین (اندلس) پہنچا۔ جب اسپین میں مسلمانوں کی حکومت انحطاط پذیر ہوئی اور دوسری طرف مشرق میں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تو علم و فن کے مراکز کے طور پر شام اور مصر نے مسلمانوں کی علمی قیادت کی۔ لہٰذا آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارہویں صدی میں سیرت کے حوالے سے ہونے والے اہم کاموں کا تعلق مصر و شام ہی سے ہے۔
اس کتاب کے باب اول میں پہلی صدی ہجری میں مدینہ منورہ میں سیرت نگاری کے آغاز اور نمائندہ سیرت نگاروں کے طور پر حضرت ابان بن عثمان اور حضرت عروہ بن زبیر کا تفصیلی تذکرہ اور سیرت کے حوالے سے ان کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دوسری صدی ہجری سیاسی، اقتصادی اور علمی اعتبار سے ایک ہنگامہ خیز صدی تھی۔ اسی صدی میں مسلمانوں کی حکومت یورپ کے علاقے اسپین (اندلس) میں قائم ہوئی۔ باب دوم میں سیرت نگاری کے شیوع کے ضمن میں قاسم بن محمد، عاصم بن عمر بن قتادہ، جعفر بن محمود انصاری مدنی، شرحبیل بن سعد، یعقوب بن عتبہ، عبداللہ بن ابی بکر، یزید بن رومان، ابوالاسود، دائود بن الحسین، موسیٰ بن عقبہ، ابوالمعتمر سلیمان بن طرخان تیمی، عامر بن شرحبیل شعبی، عمرو بن عبداللہ السبیعی، ابن شہاب زہری، وہب بن منبہ صنعانی اور معمر بن راشد کا تذکرہ اختصار کے ساتھ، جب کہ دوسری صدی ہجری کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر محمد ابن اسحاق اور ان کی سیرت نگاری کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔
تیسری صدی ہجری اگرچہ مسلمانوں کے سیاسی استحکام اور کمزوری کی ملی جلی صدی تھی لیکن علمی اعتبار سے یہ اپنے عروج کی صدی تھی۔ اس صدی میں تاریخ و سیرت نگاری کے مختلف و متنوع رجحانات سامنے آئے، مثلاً احداث نگاری، فتوح، طبقات و انساب نگاری۔ خاندانی تاریخ نویسی کا آغاز بھی اسی صدی میں ہوا۔ تیسرے باب میں سیرت نگاری کے ارتقا اور اس دور کے سیرت نگاروں میں ابوحذیفہ، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالملک بن ہشام حمیری، ابن عائذ، عبدالملک بن حبیب سلمی، خلیفہ بن خیاط، حماد بن اسحاق، ابن قتیبہ، محمد بن عیسیٰ ترمذی، ابو ذرعہ، اسماعیل بن اسحاق، ابراہیم بن محمد بن سعید کوفی، یعقوبی، ابراہیم بن اسحاق، محمد بن یحییٰ مروزی کا تذکرہ اختصار کے ساتھ، جب کہ نمائندہ سیرت نگاروں کے طور پر محمد بن عمر الواقدی اور محمد ابن سعد کا تذکرہ تفصیلاً کیا گیا ہے۔
چوتھی صدی ہجری کی سیاسی اعتبار سے ایک انفرادیت یہ ہے کہ دنیائے اسلام بیک وقت تین خلفاء کے تحت رہی۔ مشرق میں بنو عباس، مغرب میں بنو امیہ (اندلس) اور مصر میں فاطمی۔ اس دور میں سیرت نگاری عالمی تاریخ کے ایک جزو کے طور پر کی گئی۔ چوتھے باب میں اس دور کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر محمد ابن جریر طبری اور ان کی سیرت نگاری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں سیرت نگاری کے میدان میں مسلم اندلس کے سیرت نگار ممتاز نظر آتے ہیں۔ پانچویں صدی ہجری کے نمائندہ سیرت نگاروں کے طور پر ابن عبدالبر اور ابن حزم اندلسی اور ان کی سیرت نگاری پر، جب کہ چھٹی صدی ہجری کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اور ان کی سیرت نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ساتویں صدی ہجری عالمِ اسلام کے لیے ایک پُرآشوب صدی تھی لیکن مسلمانوں کی علمی و فکری سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ساتویں باب میں نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ابوالربیع سلیمان بن موسیٰ الکلاعی اور ان کی سیرت نگاری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
آٹھویں باب میں آٹھویں صدی ہجری میں شام و مصر میں سیرت نگاری کے ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس ضمن میں سیرت نگاروں میں ابن سید الناس، عبدالمومن الدمیاطی، حافظ ابن قیم الجوزیہ پر مختصراً، اور نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ابن کثیر اور ان کی سیرت نگاری پر تفصیلاً کلام کیا گیا ہے۔
نویں صدی ہجری میں اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ اس صدی میں ہم کسی اندلسی سیرت نگار کو تلاش نہیں کرسکے۔ لہٰذا نویں صدی ہجری کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ابن خلدون کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جب کہ دسویں صدی ہجری کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر محمد بن یوسف الصالحی اور احمد بن ابی بکر القسطلانی اور ان کی سیرت نگاری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
مختصراً یہ کہ پیش نظر کتاب پہلے ہزاریے کے نمائندہ سیرت نگاروں کے صدی بہ صدی جائزے پر مشتمل ہے۔ کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب ایک صدی پر محیط ہے جس کی پہلی فصل میں اس صدی کے سیاسی و علمی حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے اور دوسری (اور تیسری) فصل میں اس عہد کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سیرت نگاروں کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اور علم سیرت اور سیرت نگاروں کے منہج و اسلوب اور فنی محاسن و کمزوریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس کتاب میں علمِ سیرت کے بنیادی سوالات کو نہیں چھیڑا گیا۔ مثلاً یہ کہ لفظ سیرت اور مغازی کے لغوی و اصطلاحی معنی، شریعت کی اصطلاح میں ”سیر“ سے مراد، حدیث و سیرت کا آپس میں تعلق، سیرت و تاریخِ اسلام کا باہمی تعلق وغیرہ۔ چونکہ پہلے ہزاریے میں عربی ہی علمی زبان تھی اس لیے اس کتاب میں صرف ان کتبِ سیرت کا ذکر ہے جو عربی زبان میں لکھی گئیں۔
صاحب ِ کتاب ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر معروف محقق اور مؤرخ ہیں۔ اسلامی تاریخ آپ کا اختصاص ہے۔ متعدد اہم کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ سیرت نگاری پر اس سے قبل ایک کتاب ”سیرت نگاری ۔ آغاز و ارتقاء“کے عنوان سے تحریر کرچکی ہیں جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ امید ہے کہ اس کتاب کی بھی علمی حلقوں میں پذیرائی ہوگی اورسیرت نگاری کے ارتقا بالخصوص سیرت نگاروں کےباب میں اس سے استفادہ کیا جائے گا۔