ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم فکر کے کچھ اہم گوشے

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمات کا ایک بڑا دائرہ اسلامی فکر، اور دوسرا بڑا دائرہ اسلامی معاشیات ہے۔ اسلامی معاشیات پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی متعدد کتابیںہیں، جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں:

’’ اسلام کا معاشی نظام‘‘، ’’ اسلام کا نظریہ ملکیت‘‘، ’’غیرسودی بینکاری‘‘، مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق‘‘، ’’معاش، اسلام اور مسلمان‘‘، ’’ انشورنس، اسلامی معیشت میں‘‘، اسلام کا نظام محاصل‘‘( قاضی ابویوسف کی کتاب الخراج کا اردو ترجمہ)،’’ اسلام میں عدلِ اجتماعی‘‘( سید قطب شہید کی العدالۃ الاجتماعیۃ کا اردو ترجمہ)

آپ نے انگریزی زبان میں بھی اسلامی معاشیات سے متعلق متعدد کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں متعدد اہم علمی مقالات اسلامی معاشیات کے حوالے سے قلم بند فرمائے ہیں، جو مختلف مین اسٹریم جرنلز میں شائع ہوئے۔ یہ مقالات ڈاکٹر صدیقی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

زیر نظر تحریر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ڈاکٹر صدیقی کے بعض اُن خیالات اور افکارکو پیش کیا جائے گا جو مرحوم کے مجموعہ خطوط میں ملتے ہیں۔

غیرمعمولی دولت والوں کے ساتھ اسلام کا معاملہ
اسلام میں جائز طریقے سے دولت کمانے کی پوری پوری اجازت دی گئی ہے، انفاق کی بھی خوب خوب ترغیب دی گئی ہے، اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ دولت چند مال داروں کے درمیان گردش کرتی نہ رہ جائے، لیکن کہیں اس بات کی طرف اشارہ نہیں ملتا کہ غیرمعمولی دولت رکھنے والوں سے ان کی دولت ضبط کرلی جائے، یا اسلامی ریاست کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی دولت سے بغیر کسی اصول اور ضابطے کے محروم کردے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جناب جمیل احمد صاحب (مدراس) کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس پر اپنے خیالات کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں:

’’غیرمعمولی دولت رکھنے والوں کو خرچ میں اعتدال، نمود ونمائش والے خرچوں سے پرہیز، غریبوں کی امداد اور سماجی فلاحی کاموں کی سرپرستی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے، مگر جائز طریقے سے حاصل کردہ دولت کو صرف اس لیے چھین لینا کہ وہ بہت زیادہ ہے، تین خرابیاں پیدا کرسکتا ہے:

(1) دولت کمانے کی جدوجہد کی ہمت شکنی۔

(2) ظالموں اور استبداد کرنے والوں کے لیے ظلم کا دروازہ کھولنا۔

(3) فاضل دولت کو ترغیب کے ذریعے جن اچھے کاموں کی طرف Direct کیا جاسکتا تھا اس کی جگہ چھینی ہوئی فاضل دولت کا حکومتی استعمال گمان غالب ہے کہ کم اہم، کم مفید ثابت ہوگا۔

صرف کثرت کی بنا پر دولت لے لینے کا طریقہ اسلام میں مقبول نہیں، البتہ جب اجتماعی ضرورت کے لیے ٹیکس لگایا جائے تو فاضل مال پر زیادہ لگے گا، واللہ عندہ علم الصواب۔‘‘ (صفحہ:117)

کرنسی کا مسئلہ
کاغذی کرنسی پر اعتراض کرنے والے اس بات کو بہت شدت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں کرنسی کی حیثیت صرف اور صرف سونے اور چاندی کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اس رائے سے اختلاف تھا، اس حوالے سے ڈاکٹر صدیقی نے کئی مقامات پر بہت زور دے کر لکھا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’سونے چاندی کو شریعت یا وحی نے کوئی درجہ نہیں دیا ہے۔ ابن تیمیہ اور دوسرے اکابر مفکرینِ اسلام کی رائے میں کسی چیز کو زر (Money) بنانا ایک انسانی فعل ہے جو سہولت پر مبنی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نیا نقد نہیں چلایا۔ رومی دینار سونے کے اور فارسی درہم چاندی کے بیرونِ عرب سے ڈھل کر آتے اور مقامی بازاروں میں رائج تھے، جو رواج تھا اسی میں زکوٰۃ کا نصاب بتادیا۔ اس بات کی قطعی دلیل کہ سونے چاندی کو مقامِ زر کا وحی الٰہی سے کوئی تعلق نہیں موطأ امام مالک کی وہ روایت ہے جس کے مطابق رائج الوقت سکوں میں کمی محسوس کرتے ہوئے سیدنا عمرؓ نے ارادہ کیا تھا کہ اونٹ کی کھال سے بنے چمڑے کے سکے جاری کریں، گرچہ بوجوہ اس اسکیم پر عمل نہ ہوا، مگر ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی چیز کو زر بنانے کا انسان کو اختیار ہے۔ آپ کا یہ خیال بھی تاریخی ثبوت کا محتاج ہے کہ عہدِ رسالت میں سونے چاندی کی قیمتِ خرید یکساں رہی تھی۔ رہا عہدِ خلافتِ راشدہ، تو اس میں تو اشیاء کے نرخ میں نمایاں اضافہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے سیدنا عمرؓ نے دیت کی مقدار میں اضافہ کیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں مزید فتوحات کے بعد عرب میں سونا چاندی باہر سے بہت آگیا، اس کی وجہ سے افراطِ زر جیسی کیفیت شروع ہوگئی۔ آپ نے کاغذی نوٹ کے خلاف جتنا لکھا ہے اس کے سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ موجودہ دنیا میں زر کی مجموعی رسد کا بیشتر حصہ کاغذی نوٹوں کی شکل میں نہیں مجرد دفتری اندراج کی شکل میں رہتا ہے۔ کاغذی نوٹ مجموعی زر کا چوتھائی سے دسواں حصہ تک ہوتے ہیں اور بس۔ رہا مستقبل، تو زیادہ تر لین دین الیکٹرانک ٹرانسفر کی شکل میں ہوتا جائے گا۔ کاغذی نوٹوں کا تناسب بہت ہی کم ہوجائے گا۔‘‘ (صفحہ: 138۔139، تاریخ: 21ستمبر1996ء)

کاغذی زر سے متعلق ایک مکتوب کا جواب
امریکہ میں مقیم ڈاکٹر منیر احمد ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے نام ایک خط میں کاغذی زر کے حوالے سے 23 فروری 1992ء کو ایک تفصیلی مکتوب لکھ کر کچھ استفسارات پیش فرماتے ہیں، ملاحظہ ہو (صفحہ:365۔366)، اس مکتوب کے جواب میں ڈاکٹر صدیقی نے کاغذی زر کے حوالے سے قدرے تفصیلی جواب دیا ہے، جواب کا یہ حصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

’’کاغذی زر کے علاوہ زر کی اور بھی شکلیں ہیں، بینک نہ ہوں تو بھی زر پایا جاسکتا ہے اور پایا ہے، اور اس حالت میں بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ زر کی قوتِ خرید کو، یعنی محنت، عواملِ پیداوار اور اشیائے صرف خریدنے کی قوت کو ایک سطح پر قائم رکھ سکے۔ سونا یا چاندی بھی اس بات کی ضمانت نہ دے سکے نہ دے سکتے ہیں۔ اسباب تفصیل چاہتے ہیں۔

اس تاریخی حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کرانی ہے کہ ایک بار سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ اونٹ کے چمڑے کے سکے چلائیں (اُس زمانے میں رومی اور فارسی دینار ودرہم اسلامی علاقوں میں بھی چلا کرتے تھے)، مگر صحابہ کے مشورے کے بعد آپؓ نے ارادہ ترک کردیا۔ یہ روایت موطأ امام مالک میں دیکھی جاسکتی ہے۔ غور فرمائیے کہ کاغذ کے سکے اور چمڑے کے سکے میں کیا جوہری فرق ہے۔ جن ارشاداتِ باری کو آپ زر پر منطبق کررہے ہیں، یا جس وسیع دائرے میں منطبق کرنا چاہتے ہیں، دلیل چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں منطبق کرنے کے لیے ہیں۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زر اور تبادلۂ اشیاء میں قسط وتوازن کا حصول براہِ راست ناممکن ہو تو بالواسطہ اس کے لیے کیسے اہتمام کیا جائے۔ ‘‘ (صفحہ:367)

بینکاری تمام تر مغرب کی پیداوار نہیں
موجودہ نظام بینکاری کے سلسلے میں ایک بات بڑے شدومد سے کہی جاتی ہے کہ یہ پورا بینکاری نظام مغرب کی پیداوار ہے اور یہ درحقیقت استعماری عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا مؤقف اس سلسلے میں بھی عام رائے سے کچھ ہٹ کر ہے۔ ڈاکٹر منیر احمد کے مکتوب کے جواب میں اس مسئلے پر بھی قدرے تفصیل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے، لکھتے ہیں:

’’آپ کو یہ غلط فہمی معلوم ہوتی ہے کہ بینکاری تمام تر مغربی دنیا کی پیداوار ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ کسی مناسب تاریخی ماخذ سے درج ذیل تین الفاظ کی تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں تیسری صدی سے ’’تخلیق زر‘‘ کا عمل نمودار ہونے لگا تھا، یا کم سے کم جہبذہ (Jahbaza: Credit Creation)، سفتجہ (Suftaja)، اور رقعہ(Ruqa)۔

محنت، عواملِ پیداوار، صرف، نیز خون پسینہ بڑے پیمانے پر دولت (ضرورت کی چیزیں، مکان وغیرہ) پیدا کرنے میں بہت پیچھے رہ جائیں، اگر زر یا Creditکا نظام تنگ اور محدود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ Barter کا دور دورہ جب تک رہا معیشت محدود رہی۔ بینکاری کا پیدا کردہ سرمایہ ضروری نہیں کہ لازماً وہ پھیلاؤ اختیار کرے جو آج دیکھا جارہا ہے، اس کو سماج کی ضرورت اور صلاحیت کی حدود میں رکھنا ممکن ہے۔

آپ کا یہ تاثر کہ بینکاری کا نظام ارشاداتِ باری کے خلاف ہے، میرے لیے پوری طرح قابلِ فہم نہیں ہے۔ یہ نظام سود پر قائم ہے، سود حرام ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات صد فی صد درست ہے۔ مگر سود کی جگہ مضاربت، مشارکت وغیرہ لانے کے بعد، جیسا کہ آپ نے میری کتاب میں دیکھا ہوگا، اب جس چیز کو آپ ارشاداتِ باری کے خلاف بتارہے ہیں اس کی متعین نشاندہی کیجیے، کسی چیز کو حرام کہنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔

البتہ یہ بات سمجھنے میں مجھے دقت نہیں کہ موجودہ نظام بینکاری کے نتائج آپ کو پسند نہیں۔ مجھے بھی پسند نہیں۔ کوئی ایسا حل ڈھونڈنا ہے جو پسند ہو، مگر بینکاری کو حرام کہہ دینا حل نہیں ہے۔ آپ بتائیں کہ اس کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟‘‘ (صفحہ: 367۔368)

اس مسئلے پر مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’جب تک کسی تدبیر کی مخالفت پر دلیل نہ قائم ہوجائے اس کو مباح سمجھا جائے گا۔ امورِ دنیا کی تنظیم وتدبیر کے لیے اختیار کیے جانے والے ذرائع ووسائل میں سے ہر ایک کی بابت الگ سے سندِ جواز کی ضرورت نہیں۔ ان غیرمنصوص امور میں بالآخر مصالح اور مفاسد کا میزانیہ ہی فیصلہ کن ہوگا۔‘‘ (صفحہ:371)

افراطِ زر اور سود کے علاوہ بھی مسائل ہیں
موجودہ معاشی نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے عموماً اسلامی معاشیات کی وکالت کرنے والے تجزیہ کار یہ بات کہتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کا اصل مسئلہ افراطِ زر اور سودی لین دین ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی نظام میں تبدیلی کے لیے محض سود اور افراطِ زر کا مسئلہ حل کردینا کافی نہ ہوگا، بلکہ ایک بھرپور اور ہمہ جہت تبدیلی لانے کے لیے کئی اہم محاذوں پر سنجیدہ علمی وتحقیقی کام کرنا ہوگا، لکھتے ہیں:

’’آپ کی یہ رائے کہ تمام مشکلات ومسائل کا سبب افراطِ زر ہے، صحیح نہیں ہوسکتی۔ افراطِ زر چلا جائے گا پھر بھی بہت سے مسائل ومشکلات کا سامنا ہوگا، اور سود ختم کرکے شرکت و مضاربت وغیرہ رائج ہوجائے تو بھی ظلم و بے انصافی کی دوسری شکلیں باقی رہیں گی۔ آپ کا یہ دعویٰ کہ صرف سود کے خاتمے اور زکوٰۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے… موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوٰۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے‘‘۔ ( صفحہ: 139۔140، تاریخ: 21ستمبر1996ء)

دو ملکوں کی کرنسی کے تبادلے میں نقد کی شرط
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے خطوط میں ایک خط قاضی مجاہدالاسلام قاسمی مرحوم کے نام بھی ہے۔ قاضی صاحب اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے مؤسسین میں سے تھے اور مولانا علی میاں ندوی مرحوم کی وفات کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ خط کے آخر میں موجود حاشیہ اور دوسرے شواہد بتاتے ہیں کہ قاضی صاحب سے ڈاکٹر صدیقی کی مختلف علمی مسائل پر خط کتابت ہوتی رہتی تھی، لیکن اتفاق سے مجموعہ خطوط میں ایک ہی خط شامل کیا جاسکا، اس خط میں ڈاکٹر صدیقی نے دو ملکوں کی کرنسی کے تبادلے سے متعلق ایک اہم مسئلے کی طرف قاضی صاحب کو توجہ دلائی ہے، لکھتے ہیں:

’’بحث ونظر جنوری تا مارچ 1990ء میں صفحہ 12پر یہ لکھا ہے کہ: ’’دو ملکوں کی کرنسیاں دو اجناس ہیں، اس لیے ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی بیشی کے ساتھ حسبِ رضائے فریقین جائز ہے‘‘، مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ مذکورہ بالا عبارت کے بعد درج ذیل عبارت لکھنے سے رہ گئی ہے، بہرحال یہ اضافہ ضروری ہے: ’’بشرطیکہ یہ تبادلہ نقد (دست بدست) ہو‘‘۔

موجودہ عبارت سے پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ فریقین راضی ہوں تو دو کرنسیوں کے تبادلے میں نہ صرف کمی بیشی جائز ہے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ ایک فریق نے ایک کرنسی نقد دے دی اور دوسرے فریق نے دوسری کرنسی کچھ عرصے بعد دینے کا ذمہ لیا۔ مذکورہ عبارت سے پہلے شق2 کے آخر میں چونکہ نقد اور ادھار دونوں شکلوں کا صراحتاً ذکر ہے، اس لیے اس کے بعد شق 3 سے پڑھنے والا وہی سمجھے گا جو میں نے بیان کیا۔ دو کرنسیوں کے تبادلے میں کمی بیشی جائز ہونے مگر اُدھار ناجائز ہونے کی دلیل ’مسلم، باب الصرف‘ میں عبادہ بن الصامت کی روایت کی ہوئی حدیث ہے جس کے آخر میں تاکید ہے کہ صَرف کا عمل دست بدست ہونا ضروری ہے، حدیث کا متن درج ذیل ہے:

الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید فاذا اختلفت ھذھ الأصناف فبیعوا کیف شئتم اذا کان یدا بید۔

اس ممانعت کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر اُدھار کی اجازت ہو تو صرف Money Changing کو سود کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، مثلاً ایک ایسے وقت میں جب کہ بازار کا نرخ ایک ڈالر برابر بیس روپیہ ہو، اگر ایک آدمی بائیس روپے فی ڈالر کی شرح سے پچاس ڈالر اُدھارخرید رہا ہو تو اس کا قوی امکان ہے کہ وہ دراصل آج ایک ہزار روپے اُدھار لے کر وقتِ مقررہ پر گیارہ سو روپے ادا کرنے کا ذمہ لے رہا ہو (چونکہ اُدھار لیے ہوئے پچاس ڈالر سے وہ آج ہزار روپے نقد حاصل کرسکتا ہے)۔‘‘ (صفحہ: 284۔285)

بینکنگ سسٹم سے متعلق کچھ بنیادی سوالات
16مئی 1984ء کو سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے ایک ہندوستانی نوجوان نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمت میں معاشی معاملات سے متعلق کچھ سوالات ارسال کیے تھے، ڈاکٹر صدیقی کے مجموعہ خطوط میں یہ سوالات اور ان کے جوابات موجود ہیں، ان میں سے کچھ سوالات اور جوابات ذیل میں ذکر کیے جارہے ہیں:

سوال: آج کل بینک کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کرنا جائز ہے جو فی نفسہٖ حرام نہ ہو؟

جواب: جو معاملات فی نفسہٖ حرمت کے عناصر سے پاک ہیں وہ بینکوں سے کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ ضرورت عام ہے، اور سہولتِ متبادل موجود نہیں، مثلاً لاکر لینا، کرنٹ اکائونٹ رکھنا، ڈرافٹ بنوانا وغیرہ۔

سوال : اگر سود کی یہ تعریف صحیح ہے کہ ہر وہ زیادتی جو قرض پر لی جائے، تو عام افراد جو بینکوں میں سیونگ اکائونٹ یا فکسڈ ڈپازٹ رکھتے ہیں ان پر اضافہ کس طرح سود کہلائے گا، کیونکہ بہرحال یہ روپیہ قرض نہیں، بلکہ امانت ہے، یہاں یہ بحث غیرمتعلق ہے کہ بینک امانت میں خیانت کرتے ہیں۔

جواب: سیونگ یا فکسڈ ڈپازٹ امانت کی تعریف میں نہیں آتے ہیں، بلکہ بینک کو دیے قرض کی تعریف میں آتے ہیں، متعلقہ بینکنگ لاز اور بعض معاصر فقہاء کی تحریریں ملاحظہ ہوں، ان پر ملنے والا سود حرام ہے۔

سوال: جب تک کسی ایک اسلامی ملک میں پوری طرح غیرسودی نظام نافذ نہیں ہوجاتا اگر سب لوگ بینکوں سے ہر قسم کے لین دین (ملازمت، حسابات رکھنا، L/C کھولنا، Bills وغیرہ )کو حرام سمجھ کر بند کردیں تو ملک میں معاشی اثرات کیا نتیجہ دکھائیں گے؟

جواب: بینکوں سے ناگزیر معاملات کی معاصر فقہائے اسلام اجازت دیتے ہیں، مگر جہاں متبادل غیرسودی بینک سرگرم عمل ہوں ان کی طرف رجوع اولیٰ ہے۔ ملازمت کا مسئلہ ذاتی ضروریات پر موقوف ہے۔ حرمت اور ترکِ ملازمت کے وجوب پر اکثر علماء کو اصرار نہیں ہے، متبادل ذریعہ معاش ملے تو بہتر ہے، ملک کے معاشی حالات کی بہتری کی ایک شرط نظامِ بینکاری کا سود سے پاک کیا جانا بھی ہے۔

سوال: لاکھوں افراد جو خود کاروبار نہیں کرسکتے اگر اپنی فالتو دولت بینکوں کے ذریعے ملک کی صنعتوں میں نہیں لگائیں گے تو سرمایہ کاری کس طرح ہوگی؟

جواب: افراد کو اپنی فالتو دولت کی غیرسودی بنیاد پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے، جن ملکوں میں ایسے ادارے موجود نہ ہوں وہاں مل جل کر ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں جیسا کہ ہندوستان، فلپائن وغیرہ اقلیتی ممالک میں عملاً ہورہا ہے۔ مسلم اکثریتی ملکوں میں سے زیادہ ممالک میں اسلامی بینک قائم ہوچکے ہیں، ان کے ذریعے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

سوال: اور پھر دولت کا یہ استعمال کہاں تک درست ہے کہ اسے نہ تو خرچ کیا جائے نہ کاروبار میں لگایا جائے، بلکہ اسے روک کر رکھ لیا جائے۔ معاشی لحاظ سے اس پالیسی کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟
جواب: دولت کا یہ استعمال مناسب نہیں کہ اسے نہ خرچ کیا جائے، نہ مزید نفع کمانے کے لیے سرمایہ کاری میں لگایا جائے، لیکن اگر کسی مخصوص صورتِ حال میں دولت کو روکے رکھنے کا متبادل صرف یہ رہے کہ اسے سودی طور پر لگایا جائے تو اسے روکے رکھنا حرام سے بچنے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے برے معاشی اثرات سے بچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو دولت کو مشغول کرسکیں۔ نہ یہ کہ دولت کے سودی استعمال میں شریک ہوجایا جائے جو ظالمانہ معیشت کو تقویت پہنچائے۔ ملاحظہ ہو میری کتاب ’’Issues in Islamic Banking‘‘(مطبوعہ: اسلامک فاؤنڈیشن، لیسٹر 1983ء)
سوال: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں رسک زیادہ ہوگا وہاں نسبتاً سرمایہ کاری کم ہوگی۔ مضاربت میں نفع کی گارنٹی تو کجا سرمائے کی سلامتی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ چونکہ صاحب ِ مال کا سرمائے پر اختیار نہیں ہوتا،اس لیے وہ غیریقینی صورتِ حال میں مضاربت میں روپیہ لگانے سے گریز کرے گا۔ موجودہ نظام میں سرمائے اور نفع کی ضمانت ہوتی ہے اس لیے سرمایہ مختلف صنعتوں میں لگتا رہتا ہے، مگر مضاربت میں ان خدشات کی روشنی میں سرمایہ کاری موجودہ نظام کے مقابلے یقیناً بہت ہی کم ہوگی، اور نتیجہ ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن۔ ان حالات میں یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مضاربت کا نظام موجودہ نظام سے بہتر ہوگا؟
جواب: مضاربت میں جس خطرے کی آپ نے نشاندہی کی ہے وہ شخصی معاملات میں زیادہ پیش ہوتا ہے، مثلاً آپ کسی فرد سے مضاربت کا معاہدہ کریں۔ جب کسی درمیانی ادارے مثلاً اسلامی بینک کے توسط سے اس کا انتظام کیا جائے گا تو ایسا خطرہ کم ہوجائے گا، اوّلاً اس لیے کہ یہ ادارہ بہت سے لوگوں کے سرمائے کو بہت سے کاروبار میں لگائے گا اور ایک ساتھ سب کی طرف سے خسارے کا امکان کم ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ یہ ادارہ آپ سے کہیں زیادہ مہارت کے ساتھ کاروباری لوگوں کی اسکیموں کا جائزہ لے کر ایسے فریقوں سے معاہدہ کرے گا جن سے نفع اور کاروبار کی امید ہو۔ ثالثاً اس لیے کہ مضاربت کا معاہدہ اس کاروبار کے حالات کی جانچ اور اس کے کاروباری فیصلوں پر نظر رکھنے کی پوری گنجائش دیتا ہے جس میں مال لگایا گیا ہو اور بینک اپنے اسٹاف کے ذریعے یہ کام کرے گا۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں پورا نظام مالیات و بینکاری مضاربت کے اصولوں پر سرمایہ کاری کرنے کے اصول پر قائم ہوگا تو عام ڈپازٹر کو نفع کی شرح کم وبیش ہونے کا خطرہ تو رہے گا مگر خالص نقصان یا جمع کردہ سرمائے میں کمی کا اندیشہ عملاً نہ رہے گا۔ (صفحہ 308۔311)
یہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے کچھ اہم اور قابلِ ذکر معاشی افکار تھے، جو مجموعہ خطوط کی روشنی میں مرتب کیے گئے۔ ڈاکٹر صدیقی کے مجموعہ خطوط میں مذکورہ بالا افکار کے علاوہ بھی معاشی امور سے متعلق کئی اہم امور اور مسائل کے سلسلے میں رہنمائی ملتی ہے۔