اہلِ سندھ بجاطور پر یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر صوبے پر کس کی حکومت ہے؟
آج باب الاسلام سندھ کی سرزمین بدامنی، خوں ریزی، قبائلی جھگڑوں، اور اغوا برائے تاوان کی آئے دن بہ کثرت رونما ہونے والی وارداتوں کی وجہ سے اہلِ سندھ کے لیے سچ مچ سرزمینِ بے اماں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کی اصل وجہ سندھ پر حکومت کرنے والے حکمران طبقے کی نااہلی، نالائقی، بے حسی، ڈھٹائی اور کرپشن ہے۔ پہلے تو ڈاکو اغوا برائے تاوان کی غرض سے زیادہ تر امیر کبیر اور بڑی عمر کے افراد ہی کو اغوا کیا کرتے تھے لیکن اب انہوں نے خواتین اور معصوم کم سن بچوں کو بھی اغوا برائے تاوان کی وصولی کے لیے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ کوئی انہیں روکنے والا ہے اور نہ ہی ان ظالم ڈاکوئوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے والا۔ سندھ بھر میں بدامنی کی جو شدید لہر ایک عرصے سے آئی ہوئی ہے وہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ہے۔ ایک ہفتہ قبل کندھ کوٹ کشمور کے ایک معروف اور گنجان آباد محلے سے دو افراد دن دہاڑے 4 برس کے معصوم سمرت کمار کو زبردستی اپنے ہمراہ موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے گئے، جس کی بازیابی کے لیے اغوا کنندگان نے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھی سمرت کمار کی بازیابی کے لیے سندھ کے مختلف شہروں میں ہندو برادری اور مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ دو روز قبل قصبہ رسالدار کندھ کوٹ سے ایک اور معصوم تین سالہ بچے محمد عظیم مینک کو بھی ظالم اور سنگ دل ڈاکوئوں نے بہ غرض وصولی بھنگ (تاوان) اغوا کرلیا ہے۔ اس معصوم مغوی بچے کی بھی ڈاکوئوں سے رہائی کے لیے سندھ بھر میں عوامی اور سیاسی سطح پر شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
کندھ کوٹ کشمور ضلع میں شدید بدامنی کے خلاف اور عوامی جذبات کو زبان دیتے ہوئے بروز اتوار 21 مئی جماعت اسلامی کی جانب سے امیر صوبہ محمد حسین محنتی اور امیر ضلع کندھ کوٹ غلام مصطفی میرانی کی زیر قیادت ایک بہت بڑا ’’امن مارچ‘‘ بھی منعقد کیا جاچکا ہے جس میں ضلع بھر کی تمام سیاسی، سماجی، تاجر تنظیمیں اور بدامنی سے متاثرہ خاندان شریک تھے، لیکن حکومتِ سندھ اور متعلقہ انتظامیہ ایک ایسا چکنا گھڑا ہے جس پر کسی احتجاج یا عوامی شکایات کا قطعی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے صورتِ حال ہنوز جوں کی توں ہے، اور بظاہر بدترین صورتِ حال میں بہتری یا اصلاح کا امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
دریں اثنا بروز جمعتہ المبارک 26 مئی کو بھی، کندھ کوٹ کے مرزا پور محلے سے ایک ہفتہ پیشتر بے رحم ڈاکوئوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے معصوم بچے سمرت کمار کی تاحال عدم بازیابی کے خلاف اور شدید بدامنی کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کی جانب سے اسکول کے معصوم طلبہ کے ساتھ صوبہ سندھ کے نائب امیر جماعت اسلامی حافظ نصراللہ عزیز چنا، امیر ضلع غلام مصطفی میرانی، شبیر میرانی اور دیگر رہنمائوں کی زیر قیادت ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں بڑی تعداد میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔ نائب امیر صوبہ حافظ نصراللہ عزیز چنا نے اپنے خطاب میں کہاکہ سندھ بھر کی طرح ضلع کندھ کوٹ کشمور بھی شدید ترین بدامنی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور یہاں کسی کی بھی جان، مال، عزت اور آبرو بالکل محفوظ نہیں ہے، ہر روز اغوا، قتل، چوریوں اور لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے عوام سخت پریشان ہیں۔ حکومت کے ذمہ داران صرف دن رات کرپشن کرنے میں ہی مصروف ہیں، انہیں اغوا ہونے والے مغویوں کے اہلِ خانہ کی آنکھوں کے آنسو آخر کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ اس وقت بھی درجنوں مغوی جن میں معصوم بچہ سمرت کمار بھی شامل ہے، ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں،اس لیے معصوم سمرت کمار ، محمد عظیم مینک سمیت تمام مغویوں کو پولیس فوراً ڈاکوئوں سے آزاد کروائے اور ظالم ڈاکوئوں کے خلاف فوری اور بے رحمانہ آپریشن کیا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ سندھ بھر میں شدید بدامنی کو دیکھتے ہوئے اہلِ سندھ بجاطور پر یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر صوبے پر کس کی حکومت ہے؟ بظاہر تو یہی نظرآتا ہے کہ سندھ پر اصل حکومت ڈاکوئوں کی ہے جو جب جی چاہتا ہے اور جب ان کے من میں سماتا ہے دن دہاڑے لوگوں کو اغوا برائے تاوان کی غرض سے اٹھا کر زبردستی لے جاتے ہیں۔
دریں اثنا گزشتہ روزہی بذریعہ سوشل میڈیا ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس نے تمام اہلِ سندھ میں غم و غصے اور ایک طرح سے ڈاکوئوں کے خلاف نفرت کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس وائرل شدہ ویڈیو میں ایک بے حد معصوم اور کم سن بچہ جسے مبینہ طور پر مغوی سمرت کمار قرار دیا جارہا ہے، کے دونوں ہاتھ پشت پر رسّی سے بندھے ہوئے ہیں، اس کے سامنے روٹی رکھی ہوئی ہے، بھوک کی شدت سے بے تاب بچہ روٹی کھانے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن اپنے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہونے کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہتا ہے اور پھر بے حد مایوس دکھائی دیتا ہے۔ بے حمیت ڈاکوئوں نے شاید یہ ویڈیو بچے کے والدین پر تاوان کی رقم جلد سے جلد ادا کرنے کی خاطر دبائو ڈالنے کے لیے بناکر وائرل کی ہے۔ لعنت ہو ایسے حکمرانوں اور دہشت گرد ڈاکوئوں پر جنہیں معصوم اور کم سن بچوں کا بھی کوئی احساس نہیں ہے۔ آج سندھ کے کچے کے اضلاع ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، جنہیں کوئی پکڑنے والا اور کیفر کردار تک پہنچانے والا نہیں ہے۔ حکمران سرکاری خزانے کی لوٹ مار میں اور ڈاکو عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ سندھ بھر میں پولیس ڈاکوئوں کے سامنے بے بس اور لاچار دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی دہائی بھی دیتی ہے کہ ہمارے پاس ڈاکوئوں سے لڑنے کے لیے وسائل اور ہتھیار ناکافی ہیں۔ سندھ کے بجٹ کا بھاری بھرکم حصہ پولیس اور رینجرز پر ہر سال خرچ ہوتا ہے جس کا نتیجہ سبھی کو معلوم ہے۔ قبائلی خوں ریز جھگڑے اور غیر قانونی جرگوں کا سلسلہ بھی زور شور سے جاری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتل بھی تاحال گرفتار نہیں کیے جاسکے ہیں۔
پہلے ڈاکو خواتین اور بچوں کو اغوا نہیں کیا کرتے تھے، لیکن اب ڈاکوئوں نے بھی اپنی روایات اور اقدار کو بالائے طاق رکھ کر بچوں اور عورتوں کو اغوا کرنے کا بے حمیتی اور بے غیرتی پر مبنی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سندھ بھر میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ختم یا کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ کل ہی گرڈ اسٹیشن کرم پور جیکب آباد سے ڈاکو 6 ملازمین کو اغوا کرکے لے گئے ہیں۔ سندھ بھر میں مغویوں کے ورثا اور اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج میں مصروف ہیں اور محکمہ پولیس، حکومتِ سندھ کے ذمہ داران بے شرمی، بے حمیتی، ڈھٹائی اور بے غیرتی کی ردا اوڑھے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اہلِ سندھ کی اکثریت مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ شدید بدامنی کے ہاتھوں بھی سخت پریشان ہے۔ ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اب تو عدالت کے احاطوں کے اندر بھی پولیس کے پہرے میں قتل کے واقعات ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ روز ہی میہڑ کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پولیس کی تحویل میں ایک ملزم نے فائرنگ کرکے دو سگے بھائیوں اور ایک رشتے دار کو قتل کر ڈالا۔ شکارپور، کندھ کوٹ، کشمور، قمبر، شہداد کوٹ، جیکب آباد، گھوٹکی اور دیگر اضلاع بدامنی کے بدترین اور بدنما مراکز بنے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا ابھی ابھی یہ خبر سندھی نیوز چینل ’’کے ٹی این‘‘ پر نشر ہوئی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کندھ کوٹ سے اغوا ہونے والے معصوم بچے سمرت کمار کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ، ایس ایس پی کشمور کندھ کوٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جن جن اضلاع میں بھی پولیس آپریشن شروع کیا جاتا ہے اُن اضلاع میں بدامنی کی وارداتیں بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس وقت جہاں درجنوں کی تعداد میں مغوی ڈاکوئوں کے شکنجے میں ہیں، وہیں ان کے اہلِ خانہ بھی شدید اذیت اور پریشانی سے دوچار ہیں۔
آخر میں یہ افسوس ناک پہلو کہ محکمہ پولیس سندھ کے اعلیٰ افسران نے بدامنی اور سماج دشمن عناصر کے خلاف ہونے والے آپریشن کو بھی اپنی کمائی اور آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ بغیر کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوئے جو پولیس آپریشن کیے جارہے ہیں ان پر پانی کی طرح سے عوام کے خون پسینے کی کمائی اور ٹیکسز کے پیسے ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ یا ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ‘‘ کے مصداق حکومتِ سندھ بغیر کسی پلاننگ کے خرچ کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے اور بڑی رقم بدعنوانی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اطلاع کے مطابق دو دن قبل حکومتِ سندھ نے آئی جی سندھ کی سفارش پر ڈاکوئوں کے خلاف جاری آپریشن کے سلسلے میں گھوٹکی پولیس کے لیے 54کروڑ 10 لاکھ روپے کی اضافی رقم مختص کی ہے۔ گھوٹکی پولیس ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں تو کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکی اور یکسر ناکام ثابت ہوئی ہے، حالانکہ اس کی جانب سے پورے علاقے میں 300 کے قریب پولیس چوکیوں کی تعمیر کثیر خرچ دکھاکر کی گئی ہے، 54 کروڑ 10 لاکھ روپے کی اضافی جاری کردہ رقم میں سے 16کروڑ متفرق الائونسز کی مد میں اور ایک کروڑ 28 لاکھ روپے غیر ظاہر شدہ اخراجات، 14 کروڑ 37 لاکھ روپے دیگر اضلاع سے آنے والے پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کی مد میں، اور حیران کن طور پر14 کروڑ 61 لاکھ روپے پیٹرول پر خرچ کی مد میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ کھانے پینے پر گھوٹکی کے ایس ایس پی آفس کا خرچ 2 کروڑ روپے سمیت عجیب و غریب انداز میں پانی کی طرح پیسے کو بہایا اور ضائع کیا گیا ہے۔ حکومتِ سندھ کے ذمہ داران جب خود مالی امور اور مالی معاملات میں غیر ذمہ دار ہیں تو ان کی ناک کے نیچے اگر سرکاری محکمے اور ان کے افسران بھی اسی روش پر گامزن ہیں تو اس میں حیرت کیسی؟
دریں اثنا ایک ہفتے پہلے کندھ کوٹ کے محلے مرزا پور سے اغوا کیا جانے والا معصوم بچہ سمرت کمار گزشتہ شام شکارپور کے کچے کے علاقے گڑھی تیغانی سے پولیس نے بازیاب کرا لیا ہے۔مغوی بچے کو ایس ایس پی شکار پور امجد شیخ رات کو خود اپنے ہمراہ لے کر کندھ کوٹ اس کے گھر پہنچے جہاں عوام نے ان کا زبردست استقبال کیا اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ سمرت کمار کی بازیابی کے لیے سندھ بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ تاحال کم سن معصوم بچے محمد عظیم مینک سمیت درجنوں مغوی ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کے گھروں میں قیامت ِصغریٰ کا منظر بپا ہے۔