بلوچستان کی حالیہ سخت گیر سیاسی و مزاحمتی لہر دو عشروں پر مشتمل ہے۔ اس میں ہنوز فوری تبدیلی کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں متوازی طور پر مذہبی عنوان کے ساتھ مسلح تخریبی سرگرمیاں بھی برسوں پر محیط ہیں۔ اگرچہ اس نقطہ نظر کے حامل گروہ مستقل ٹھکانے نہیں رکھتے مگر کہیں نہ کہیں نمودار ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست البتہ الگ عنوان ہے۔ دستور کے تحت صوبائی خودمختاری اور حقیقی جمہوری فضا کی باتیں کی جاتی ہیں، جبکہ شدت پسند بلوچ علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ اب تک حکومت اس سوچ کے حامل افراد کی سیاسی عمل میں شمولیت میں چنداں کامیاب نہیں ہے۔ ہاں کئی کامیاب آپریشن ضرور ہوچکے ہیں اور اہم کمانڈر نشانہ بنائے جاچکے ہیں جن میں کالعدم بی ایل اے کا سربراہ اسلم اچھو قابل ذکر ہے، گرفتاریاں ہوچکی ہیں، اس ذیل میں بڑی گرفتاری گلزار امام شمبے کی ہے جو اپریل، مئی 2022ء میں ترکیہ میں دھرلیے گئے۔ بعض باخبر صحافی گرفتاری کے بجائے اسے دست برداری قرار دیتے ہیں، یہ صحافی اپنے مؤقف کے لیے دلیل بھی رکھتے ہیں۔ بہرحال اغلب ان کا گرفتار کیا جانا ہی ہے۔ یہ ٹاسک بھارتی جاسوس کلبھوشن سنگھ یادیو کو گھیرنے کی طرز پر عمل پذیر ہوا ہے۔
گلزار امام شمبے افغان پاسپورٹ پر ترکیہ گئے، جس میں نام گل نوید لکھا تھا۔ اسی پاسپورٹ پر دسمبر2017ء میں بھارت بھی جاچکے ہیں۔ گلزار امام کی دورانِ حراست خاندان کے افراد سے ملاقات کرائی گئی تھی۔ وہ 23 مئی2023ء کو کوئٹہ میں میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے۔ اہتمام سول سیکریٹریٹ کے جمالی آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر آغا عمر احمد زئی کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے سامنے انہوں نے اپنی بات رکھی۔ میڈیا ضرور موجود تھا مگر انہیں ویڈیو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی، موبائل فون بھی جمع کرا لیے گئے تھے، صرف پی ٹی وی کا کیمرا موجود تھا، یہ بھی لائیو نہ تھا۔ بعد ازاں اسلام آباد سے پریس کانفرنس نشر کرائی گئی۔
گلزار امام مسلح گروہوں میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ سخت گیر مؤقف کی حامل طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے متحرک کارکن تھے۔ بی ایس او کے دھڑوں میں انضمام میں بھی ان کا کردار رہا۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی تنظیم کا حصہ بنے۔ بعد ازاں کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی سے وابستہ ہوئے۔ بی آر اے نواب زادہ براہمداغ بگٹی سے موسوم ہے، جو ڈیرہ بگٹی اور نصیرآباد ڈویژن تک اثرات رکھتی تھی۔ چوں کہ گلزار امام خود پنجگور کے رہائشی ہیں، اس بنا پر ان کی شمولیت کے بعد اس گروہ کا دائرہ کار مکران ڈویژن تک پھیل گیا۔ براہمداغ کے ساتھ ان کی حیثیت نائب کی تھی۔2018ء میں براہمداغ سے الگ ہوکر بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے نام سے الگ تنظیم بنالی، پھر بلوچ مسلح گروہوں پر مشتمل بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) قائم کرلی۔ اس اتحاد میں سندھ کی کالعدم سندھو دیش ریولیوشنری آرمی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ اس نام سے کئی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول ہوتی رہی۔ خود ان کا بھائی ناصر امام پنجگور ایف سی قلعے پر حملہ کرنے والوں میں شامل تھا اور وہیں مارا گیا۔ گویا گلزار امام کی گرفتاری اہم پیش رفت ہے۔ ان کی گفتگو سے سیاسی میدان میں متحرک ہونے کا تاثر ملا ہے۔ انہوں نے عسکریت پسندانہ سرگرمیوں پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کا حصول صرف آئینی و سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔ یہ بھی کہا کہ انہیں حراست کے دوران مسلح تحریکوں کے عالمی لٹریچر کا نزدیک سے تجزیہ کرنے کا موقع ملا اور بلوچ قومی پُرامن تحریک کے اکابرین سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ بھی کہا کہ ریاست کو سمجھے بغیر انہوں نے جنگ کا آغاز کیا، عزیز و اقارب اور دوستوں کو کھویا، احساس ہوا کہ پندرہ سال قبل جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا، کیوں کہ مسلح جنگ سے بلوچستان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتے جارہے ہیں۔ گلزار امام قرار دیتے ہیں کہ کچھ مخصوص طاقتیں بلوچوں کو محض پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں، مسلح جنگ سے بلوچستان ترقی میں پیچھے اور پتھروں کے زمانے میں چلا گیا ہے۔ گلزار امام نے اُن لوگوں سے بھی اپیل کی جو مسلح جنگ کی راہ پر ہیں کہ واپسی کا راستہ اختیار کریں، ریاست کے ساتھ بات چیت، منطق اور دلائل کے ساتھ صوبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، بلوچ طلبہ بھی اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔ گلزار امام نے البتہ یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں، ریاست کے ادارے اور مسلح تنظیمیں سب ذمہ دار ہیں، لہٰذا ان نقصانات کا احاطہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اداروں کو بلوچستان کے مسائل کا ادراک ہے۔ گلزار امام کے مطابق دنیا میں اصول ہے کہ جہاں جنگیں ہوتی ہیں وہاں ہر ملک کے مفادات ہوتے ہیں، جو تحریکیں اور جنگیں چلتی ہیں ان کے بھی اپنے مفادات ہوتے ہیں، اسی طرح بلوچ بھیس میں لڑی جانے والی جنگ کے بھی اپنے مفادات ہوں گے۔ بلوچستان کی جیو پولیٹکل حیثیت پر دنیا کی نظریں ہیں۔ بلوچستان کے اندر اب نئی سوچ اور توانائی کے ساتھ سیاسی عمل اور جماعت کی ضرورت ہے۔ آئینی سیاسی جدوجہد کے نعرے گروہی مفادات کے گرد گھوم ر ہے ہیں۔ اب تو یہاں کی سیاسی جماعتوں اور بلوچستان عوامی پارٹی میں فی الواقع تمیز نہیں کی جاسکتی۔ اعمال سب کے قابلِ گرفت ہیں۔ گلزار امام نے دوسرے شدت پسند رہنمائوں سے رابطوں کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس پریس کانفرنس کے بعد نہیں لگتا کہ شدت پسند حلقوں میں انہیں کوئی خاص اہمیت ملے گی۔ وجہ یہ ہے کہ گلزار امام ناپسند کیے جاتے تھے۔ گلزار ایران کی سرزمین پر بیٹھ کر سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ ایران کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے۔ایرانی بلوچستان میں سرگرم مذہبی عسکریت پسند تنظیم جیش العدل نے 2017ء میں ان پر اپنی تنظیم کے افراد کو پکڑ کر ایران کے حوالے کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ گلزار کو اغوا اور بھتہ خوری میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔ ایک واقعہ مئی 2016ء میں ضلع کیچ کے علاقے دشت سائجی میں پیش آیا تھا جہاں پانچ افراد اغوا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان افراد کی پہاڑوں سے لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان میں محکمہ تعمیرات و مواصلات اور محکمہ آب پاشی کے تین انجینئر اور
دو ٹھیکیدار شامل تھے جو سابق رکن صوبائی اسمبلی اصغر رند کے فنڈ سے نو سال پرانے منصوبوں کی انسپکشن کے لیے جارہے تھے۔ گلزار امام کے لوگوں نے انہیں اغوا کیا اور ایک ویران پہاڑی علاقے میں لے گئے۔ جب فورسز نے تعاقب کیا تو مغویوں کو پانی اور خوراک کے بغیر بے یارومددگار شدید گرمی میں پہاڑ پر ہی چھوڑ دیا اور بھوک، پیاس اور گرمی سے ان کی موت ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور پہلی بار مکران میں کسی کالعدم بلوچ مسلح تنظیم کے خلاف احتجاج ہوا۔