مقبوضہ کشمیر میں جی 20اجلاس ،بھارت کو سفارتی دھچکا

کشمیر بھارت کا ’’گوانتاناموبے‘‘ کا قید خانہ

چین، ترکی، سعودی عرب، مصر اور اومان نے سری نگر میں منعقد ہونے والے جی ٹوئنٹی ملکوں کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا ہے کہ ایک متنازع علاقے میں اس سرگرمی کا جواز نہیں۔ چین نے تو اعلانیہ اس سرگرمی سے دوری اختیار کی، جبکہ او آئی سی کے رکن دوسرے ممالک خاموشی سے الگ رہے۔ کئی ملکوں نے جن میں میکسیکو بھی شامل تھا، کانفرنس میں شرکت کا درجہ گھٹا دیا۔ گویا کہ ان ملکوں سے آنے والے نمائندوں کے بجائے صرف دہلی کے سفارت خانوں میں تعینات افسروں نے سری نگر اجلاس میں شرکت کی۔ برطانیہ نے بھی کہا کہ سری نگر کانفرنس میں شرکت کا مطلب مسئلہ کشمیر پر برطانیہ کے مؤقف کی تبدیلی نہیں۔ امریکہ نے حسبِ روایت گول مول انداز میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے معاملات باہمی طور پر حل کرنے چاہئیں۔

جی ٹوئنٹی ملکوں کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس 22 تا 24 مئی سر ی نگر میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی پاکستان کی طرف سے کھلی مخالفت کی گئی تھی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر تمام ملکوں سے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔ پہلے مرحلے پر چین اور ترکی نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد سعودی عرب نے بھی سری نگر اجلاس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے جی ٹوئنٹنی ملکوں کے اجلاس سری نگر میں منعقد کرکے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ایک تو کشمیر میں حالات نارمل ہوچکے ہیں اور ان حالات میں یہاں سرمایہ کاری اور سیاحت کے بھرپور مواقع موجود ہیں، دوسرا یہ کہ کشمیری عوام بھارت کی طرف سے خطے کی الگ حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے سے خوش اور مطمئن ہیں اور اب یہ خطہ مکمل ذہنی اور عملی طور پر انڈینائز ہوچکا ہے۔ اس طرح بین الاقوامی برادری سے اس فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کرائی جارہی تھی۔

بھارت کو ان مقاصد میں کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی ناکامی ہوئی کیونکہ کئی ملکوں کے بائیکاٹ اور کچھ کی طرف سے درجہ گھٹانے نے کشمیر کو ایک بار پھر بین الاقوامی کینوس پر نمایاں کردیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ تقسیم وہی پرانی ہے جو کشمیر کی شناخت کے خاتمے کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ چین اور ترکی وہ دوممالک تھے جنہوں نے کھل کر بھارت کے اس قدم کی مخالفت کی تھی اور کئی عملی اقدامات بھی کیے تھے۔ سعودی عرب اُس وقت مکمل خاموش رہا تھا اور اس خاموشی کو نریندر مودی نے اپنے فیصلے کی خاموش تائید کے طور پر پیش کیا تھا۔ اب سعودی عرب نے سری نگر کانفرنس میں شریک نہ ہوکر اس عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا ہلکا سا اشار ہ دیا ہے اور پرانا تاثر زائل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ سعودی عرب کا فیصلہ بھارت کے لیے چین کی عدم شرکت سے بھی بڑا سرپرائز ہے، کیونکہ چین اور ترکی کی پوزیشن چار سال قبل ہی واضح ہوچکی تھی مگر بھارت کو سعودی عرب سے اس فیصلے کی توقع نہیں تھی۔ سعودی عرب نے اس فیصلے سے بتایا کہ وہ پاکستان کے مؤقف اور کشمیریوں کے خدشات کو کسی نہ کسی حد تک جگہ دینے کو تیار ہے۔

اس اجلاس سے پہلے کشمیر کو ایک رنگین اور دیدہ زیب فوجی چھائونی میں بدلا گیا تھا۔ رنگین اس طرح کہ ائرپورٹ سے کانفرنس کے مقام تک پورے راستے اور باقی درودیوار کو ترنگے کے تین رنگوں سے لیپ دیا گیا تھا، جس سے باہر سے آنے والوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ کشمیر اب بھارت کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔ فوج کی موجودگی کا تاثر کم کرنے کے لیے قد آدم پورٹریٹ آویزاں کرکے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔ فوجی چوکیوں کو بھی ایسے ہی پورٹریٹس سے ڈھک دیا گیا تھا۔ اس ساری صورتِ حال پر سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا۔ انہوں نے بھارت کے شہر بنگلورو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جی ٹوئنٹی کے لیے کشمیر کو سیکورٹی کے نام پر گوانتا ناموبے بنادیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین آج جس طرح مسئلہ کشمیر پر دخیل ہورہا ہے اور جس طرح کی زبان استعمال کررہا ہے یہ پہلے صرف پاکستان کی ہی طرف سے سنائی دیتی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے چین کو پاکستان کا ہمنوا بنادیا۔

سیکورٹی کے نام پر کشمیر دہائیوں سے ایک چھائونی کا منظر پیش کرتا رہا ہے مگر کانفرنس کے موقع پر مزید حفاظتی انتظامات نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ جھیل ڈل پر فوج کی مسلسل پیٹرولنگ جاری رہی اور فضا سے ڈرون مسلسل نگرانی کرتے رہے۔ میرین کمانڈوز کی تعیناتی ایک اضافی عمل تھا۔ جا بجا چیک پوائنٹس قائم تھے جہاں راہ گیروں کی شناخت پریڈ کی جاتی رہی۔ سیکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور صاف طور پر کہا گیا کہ ان کی رہائی جی ٹوئنٹی کے بعد عمل میں آئے گی، کیونکہ بھارت کو اس موقع پر عوامی مظاہروں کا خدشہ بھی تھا۔ حریت کانفرنس اور دوسری تنظیمیں اس موقع پر کشمیریوں سے عام ہڑتال کی اپیل کرچکی تھیں۔ عوامی مظاہروں کو روکنے کے لیے فوج کے خصوصی دستے بھی تعینات کیے گئے تھے۔ منتظمین نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ اس موقع پر بہت زیادہ سیکورٹی خدشات ہیں۔ سیکورٹی خدشے کے پیش نظر ہی باہر سے آنے والے وفود کا ڈچی گام نیشنل پارک کا دورہ منسوخ کیا گیا۔

بھارت کے اخبار ’’دکن ہیرالڈ‘‘ نے جی ٹوئنٹی کے کشمیر سیشن کے حوالے سے بھارت بھوشن نامی صحافی کی رپورٹ ’’سری نگر میں جی ٹوئنٹی کانفرنس بھارت کے لیے سفارتی دھچکا‘‘ کے عنوان سے شائع کی، جس میں کہا گیا کہ کئی ملکوں کے بائیکاٹ اور شرکت کا درجہ گھٹانے نے اس کانفرنس کو بے مقصد اور کٹی ہوئی پتنگ بنادیا ہے۔ کشمیر کی اس انداز سے تصویر دکھاکر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیاحت کو فروغ دیں گے؟ اخبار نے جی ٹوئنٹی کے موقع پر سیکورٹی کے نام پر بھارت کے اقدامات کی تفصیل بھی بیان کی تھی۔ پاکستان کی طرف اس فیصلے کی کھلی مخالفت کو ایک بڑی حمایت اُس وقت حاصل ہوئی جب اقوام متحدہ کے رپورٹر برائے اقلیتی امور فرنینڈ ڈی ورینیز نے اس فیصلے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے اور لکھا کہ یہ اپنے قبضے کو جواز دینے کی بھونڈی کوشش ہے۔ بھارت اس قدم سے اپنے غیر قانونی فیصلوں پر مہرِتصدیق ثبت کروانا چاہتا ہے۔ بین الاقوامی برداری ایسے میں بھارت کے اقدامات پر مہر ثبت نہ کرے جب کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کے اس بیان پر بھارت کی تلملاہٹ دیدنی تھی اور جنیوا میں بھارت کے مستقل نمائندے نے اس کے جواب میں اقوام متحدہ کے نمائندے کو کہا ’’تم کون ہو؟ کشمیر ہمارا ہے‘‘۔

دکن ہیرالڈ کے علاوہ الجزیرہ اور کئی دوسرے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کی حقیقت بہت کھل کر بیان کی۔ عالمی شہرت یافتہ سیاسی مبصرین بھی اس قدم کو کھلی تنقید کا ہدف بنارہے تھے۔ امریکہ کے معروف دانشور اور ڈائریکٹر سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ایٹ ولسن سینٹر مائیکل کوگلمین نے الجزیرہ کو بتایا کہ جی ٹوئنٹی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کشمیر میں امن ہے، اب کشمیر خطرناک چیلنج کے بجائے ایک پُرکشش موقع و امکان ہے۔ بھارت ’’سب اچھا ہے، سب نارمل ہے‘‘ دکھانا چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بین الاقوامی ماہرِ سیاسیات پروفیسر اشوک سوئین نے ٹویٹر پر کہا کہ ’’کشمیر میں جی ٹوئنٹی کے انعقاد کے اثرات بھی وہی ہوں گے جو پانچ اگست کے فیصلے کے تھے۔ اس سے بھارت کی پوزیشن مضبوط نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل کشمیر کے مسئلے کو مزید انٹرنیشنلائز کرے گا۔ یہ فیصلہ صرف مودی کے سپرمیسسٹ ووٹ کو ہی خوش کرے گا۔‘‘

اس طرح بھارت نے جن مقاصد کے تحت کشمیر کو جی ٹوئنٹی کی ایک سرگرمی کے لیے چنا تھا وہ اس کے گلے پڑ گئی۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک بھی اتنے بھولے اور سادہ نہیں کہ انہیں اندازہ نہ ہوا ہو کہ وہ جس جھیل ڈل کی سیر سے لطف اندوز ہورہے ہیں اسے پُرامن بنانے اور سب اچھا دکھانے کے پیچھے کتنا جبر وتشدد، مصنوعی پن اور وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ جی ٹوئنٹی کانفرنس کے موقع پر آزادکشمیر میں بھی روایتی انداز میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی اس موقع پرآزادکشمیر میں رہے، انہوں نے کئی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے اس فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ بھارت جی ٹوئنٹی کی صدارت کو کشمیر پر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔