برطانوی معیشت کا بحران

برطانوی معاشرے اور ریاست پر دیرپا اثرات مرتب کرے گا

برطانیہ اس وقت کئی بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک طرف سیاسی عدم استحکام اور حکمران جماعت کی بتدریج کم ہوتی ہوئی مقبولیت ہے، تو دوسری جانب معاشی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کی جانب سے سالِ گزشتہ معاشی بحران و کساد بازاری ختم کرنے کے لیے 2024ء کے وسط کی مدت دی گئی تھی لیکن اب خود بینک آف انگلینڈ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کساد بازاری کم ضرور ہوگی لیکن معاشی بحران کے مکمل خاتمے کا اگلے سال کے اختتام تک امکان نظر نہیں آتا۔ گزشتہ سال نومبر میں مہنگائی 11 فیصد سے زائد تھی، وہ اِس ماہ یعنی مئی 2023ء میں کم ترین سطح 8.7 تک تو پہنچ گئی ہے لیکن تاحال مہنگائی بے قابو ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت نے اسٹورز کی چین کو پابند کیا ہے کہ وہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کریں۔ اشیائے خورونوش کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ رہائش کا ہے کہ جہاں شرح سود کے بڑھنے سے مکانات کے قرض کی ادائیگی کی قسط میں ایک بہت بڑا اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری جانب مکانات کے کرایوں میں بھی اُس شرح سے اضافہ ہورہا ہے جو کہ ایک اوسط آمدن رکھنے والے شخص یا خاندان کی قوتِ برداشت سے باہر ہے۔ شرح سود میں حالیہ اضافے کے بعد بینک آف انگلینڈ کی جانب سے مقرر کردہ شرح سود 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد بینکوں کی جانب سے اب یہ شرح سود 6 فیصد تک ہے جس کے باعث اوسط آمدن رکھنے والے فرد کے لیے قرض کی قسط ادا کرنا، اور اسی طرح کرایہ داروں کے لیے کرایہ ادا کرنا محال ہوتا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بینک آف انگلینڈ کی جانب سے اِس سال شرح سود میں مزید اضافے کا امکان ہے جس کے بعد یہ بوجھ مزید بڑھے گا۔ دوسری جانب افرادی قوت کی قلّت کو دور کرنے کے لیے طالب علموں کوبے دریغ ویزے دیے گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کے اہلِ خانہ کو بھی ویزے اور کام کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ اس اسکیم کا فائدہ یہ تو ہوا کہ برطانوی اعلیٰ تعلیم کی صنعت میں زبردست ترقی ہوئی اور صرف طالب علموں کی وجہ سے برطانوی معیشت میں 41.9 ارب پاؤنڈ اسٹرلنگ کا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق یہ اضافہ ایک ریکارڈ ہے۔ 2018ء میں یہ رقم 31.3 ارب پاؤنڈ تھی جو حکومتی اقدامات کے بعد 2022ء میں بڑھ کر 41.9 ارب پاؤنڈ اسٹرلنگ تک پہنچ گئی ہے۔ ان اعداد و شمار کے باوجود جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ برطانوی معیشت کی بہتری میں اس کا کلیدی کردار ہے اب وزیر داخلہ سیولا براومین نے ایک نئی اسکیم متعارف کروا دی ہے جس کے تحت جنوری 2024ء سے طالب علموں کو اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لانے پر پابندی ہوگی اور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہی اپنے اہلِ خانہ کو اپنے ساتھ برطانیہ لانے کے مجاز ہوں گے۔

اسی طرح افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بڑے پیمانے پر ہیلتھ کیئر ویزوں کا اجراء کیا تھا جس کا مقصد ایک بڑی افرادی قوت کو برطانیہ لانا تھا جوکہ اولڈ ہائوسز اور گھروں میں مقیم بیمار و ضعیف العمر افراد کی دیکھ بھال کرسکیں۔ اس اسکیم سے بھی برطانوی معیشت کو زبردست فائدہ ہوا، کیونکہ ایک جانب اس کاروبار سے منسلک افراد کو ان ویزوں کا اجراء کیا گیا تو دوسری جانب ان افراد نے ان ویزوں کو ایک بھاری رقم کے عوض مارکیٹ میں فروخت کیا۔ اوسط ایک ویزا 14 تا 16 ہزار برطانوی پائونڈ میں فروخت کیا گیا۔ کیونکہ یہ ورک پرمٹ تھا لہٰذا اس پر لوگوں نے رجوع کیا اور ایک بڑی تعداد میں موجود طالب علموں نے اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ کر ورک پرمٹ پر منتقلی کو ترجیح دی۔ لیکن اب نئی حکومتی پالیسی کے بعد کوئی بھی طالب علم اپنی تعلیم ختم کرنے سے قبل کسی بھی ورک پرمٹ پر منتقل نہیں ہوگا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر ویزوں پر آنے والے افراد اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگاکر برطانیہ آ تو گئے ہیں لیکن ان کو ملازمت کے لیے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں۔ اس صورتِ حال سے برطانیہ میں ہائوسنگ پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ صرف ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالب علموں کے اہلِ خانہ کی تعداد 16000 سے بڑھ کر 135000 تک جا پہنچی ہے جس کا لامحالہ اسکولوں سے لے کر ہر قسم کی سہولیات پر زبردست دباؤ بڑھا ہے اور حکومت موجودہ سہولیات میں اضافے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرسکی۔ برطانوی وزیر صحت اسٹیو بارکلے نے اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے وعدے کے مطابق 2030ء تک 40 نئے اسپتالوں کا قیام اب ممکن نہیں ہے، اس اسکیم کے بجائے اب ہماری توجہ موجودہ اسپتالوں کو بہتر بنانے پر ہے۔ لندن کے قلب میں واقع پیڈنگٹن کے علاقے میں قائم قدیم سینٹ میری اسپتال بھی زبوں حالی کا شکار ہے کہ جہاں سالِ گزشتہ دو وارڈز کی چھت گر گئی اور فارمیسی میں سیوریج کے پانی کا رساؤ ہوتا رہا۔ برطانیہ میں کم تنخواہوں کی وجہ سے ڈاکٹروں، نرسوں اور ایمبولینس کے عملے کی ہڑتالوں نے بھی شعبہ صحت کو بحرانی کیفیت سے دوچار کیا ہوا ہے اور تاحال اس میں بہتری کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

اس منظرنامے میں ایک بات بہت واضح ہے کہ آئندہ سال انتخابات کا انعقاد بھی کچھ ایسے ہی حالات میں ہوگا کہ برطانوی معیشت بحران کا شکار ہوگی اور مزدور یونینز اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر ہوں گی۔ اس تمام تر صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت ِعملی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ دھڑادھڑ ویزوں کا اجراء کرکے افرادی قوت کو بلاتی ہے تاکہ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرکے معاشی ترقی کا ہدف حاصل کیا جائے، اور اب خود حکومت کے اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ بے روزگار افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے، تو پھر ایک نئی منطق کہ اعلیٰ ہنرمندوں کو برطانیہ لایا جائے تاکہ معاشی ترقی ممکن ہو۔ لیکن اس پوری صورت ِحال میں یہ ممکن نہیں، بلکہ اب اعلیٰ ترین ہنرمند افراد برطانیہ کی معاشی تنزلی کی وجہ سے برطانیہ چھوڑ کر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ برطانیہ کو خیرباد کہنے والوں میں اعلیٰ ترین تنخواہ پانے والے افراد میں شامل ڈاکٹرز، انجینئرز، اکاؤنٹنٹ، آئی ٹی ماہرین شامل ہیں۔

اس طرح اب یہ امکان فی الحال نظر نہیں آتا کہ آئندہ سال بھی برطانیہ میں کوئی معاشی ترقی یا کم از کم موجودہ کساد بازاری کا خاتمہ ہو۔ اسی طرح طالب علموں کے اہلِ خانہ کو لانے پر پابندی کی وجہ سے اب برطانوی معیشت میں طالب علموں کا حصہ مزید کم ہوگا اور وہ دیگر ممالک کا رخ کریں گے جس کے بعد برطانیہ میں معاشی دباؤ میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

برطانیہ جو کبھی خود خوابوں کی سرزمین تھا اب یہاں عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا بہت کٹھن ہے، اور اب برطانوی باشندے بھی دیگر ممالک ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ برطانیہ کا مستقبل کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن برطانیہ اپنی ایک نمائندہ معاشی حیثیت کھو چکا ہے، یہ ایک حقیقت ہے جس کا اثر نہ صرف برطانوی معاشرے بلکہ ریاست پر بھی جلد نظر آئے گا۔