صدر رجب طیب اردوان، ترک وزارتِ عظمیٰ کی یکے بعد دیگرے تین مدتیں جیتنے کے بعد صدارتی دوڑ بھی تیسری بار جیت گئے۔ کھیلوں کی اصطلاح میں اسے Hat-Trickکہا جاتا ہے۔ اُن کی انصاف و ترقی پارٹی (ترک مخفف ”آق“) نے 2002ء کے انتخابات میں 550 رکنی گرینڈ نیشنل اسمبلی (تُرک مخفف TBMM)کی 363 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس سے پہلے 1994ء سے 1997ء تک جناب اردوان استنبول کے رئیسِ شہر(Mayor) رہ چکے تھے۔ اس دوران مشرقی ترکیہ کے شہر سِعِرد (Siirt) کے جلسے میں انھوں نے انقلابی شاعر محمد ضیا تخلص گوکلب (Gökalp)کے چند اشعار پڑھے۔ ملک کے اٹارنی جنرل نے اس نظم کو اشتعال انگیز اور سیکیولر روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ کردیا۔ عدالت میں جناب اردوان نے مؤقف اختیار کیاکہ حکومت جس نظم کو اشتعال انگیز قرار دے رہی ہے وہ ترک طلبہ کے سرکاری نصاب کا حصہ ہے، لیکن جج صاحب نے یہ دلیل رد کرتے ہوئے جناب اردوان کو دس مہینے کی سزا اور میئر کے عہدے سے برطرفی کے ساتھ ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی۔
جب 2002ء میں ان کی جماعت نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا اُس وقت جناب اردوان پر پابندی عائد تھی، چنانچہ ان کے دستِ راست عبداللہ گل نے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی۔ دوسری طرف نااہلی کے خلاف اردوان کی درخواست سماعت کے لیے منظور ہوگئی۔ اسی دوران سعرد شہر کے انتخابات الیکشن کمیشن نے کالعدم کردیے۔ جب دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا تو جناب اردوان پر پابندی ختم ہوچکی تھی اور وہ ضمنی انتخاب جیت کر پارلیمان کے رکن بن گئے۔ وزیراعظم عبداللہ گل نے استعفیٰ دے دیا اور طیب اردوان ترکیہ کے وزیراعظم منتخب کرلیے گئے۔
پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں آق نے 341 نشستیں جیت کر اپنی برتری برقرار رکھی، اور پھر 2011ء کے انتخابات میں آق 327 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور جناب اردوان تیسری مدت کے لیے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
ترکیہ میں پہلے براہِ راست صدارتی انتخابات 10 اگست 2014ء کو ہوئے۔ آق نے جناب اردوان کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور حزبِ اختلاف کی جانب سے او آئی سی (OIC) کے سابق سیکریٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو میدان میں اترے۔ طیب اردوان نے 51.79 فیصد ووٹ لے کر فتح اپنے نام کرلی۔ ریفرنڈم میں صدارتی نظام کی توثیق کے بعد جون 2018ء میں پھر میدان سجا۔ اس بار صدر رجب طیب اردوان کا مقابلہ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے محرم انس سے ہوا۔ منچلوں نے اس پر رجب بمقابلہ محرم کی گرہ لگائی۔ جناب اردوان نے 52.59فیصد ووٹ لے کر معرکہ دوسری بار جیت لیا۔
اِس سال 14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں جناب اردوان 49.52فیصد ووٹ لے کر تیسری بار سرفہرست رہے، اُن کے قریب ترین حریف کمال کلیجدار اوغلو کو 44.88فیصد ملے، جبکہ آزاد امیدوار سینان اوغن 5.17 فیصد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کے لیے پچاس فیصد سے کم ازکم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے، چنانچہ 28 مئی کو صدر اردوان اور کلیجدار اوغلو کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوا جسے run-offکہا جاتا ہے۔
14 مئی کے انتخابات میں جہاں اردوان نے سب سے زیادہ ووٹ لیے وہیں اُن کی جماعت اور اتحادیوں نے پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرلی، جس کی وجہ سے حکمراں آق پارٹی بلند حوصلے کے ساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔ براہِ راست مقابلے کے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سنان اوغن بادشاہ گر بن کر ابھرے، جنھوں نے پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر ان کی گہری نظر ہے، اور وہ کمال کلیجدار کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن شامی پناہ گزینوں کے معاملے میں وہ خاصا سخت رویہ رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ 37 لاکھ افراد نہ صرف قومی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ ان کے یہاں بس جانے سے ترکیہ کی شناخت بھی متاثر ہورہی ہے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے جناب اردوان کو صاف صاف کہہ دیا کہ شامی پناہ گزینوں کی واپسی ان کے لیے بے حد اہم ہے اور وہ اُسی امیدوار کی حمایت کریں گے جو شامیوں کی فوری اور غیر مشروط واپسی کا وعدہ کرے گا۔
اس معاملے میں صدر اردوان کا مؤقف بھی بہت دوٹوک ہے، ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ سنان اوغن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ عثمانی روایات کو سیاست پر قربان نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک شام میں حالات سازگار نہ ہوں پناہ گزینوں کو سرحد پار دھکیلنا انسانیت نہیں، اور وہ انتخاب جیتنے کے لیے اپنے مبنی برانصاف مؤقف سے دست بردار نہیں ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں کمال کلیجدار شامیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے حق میں ہیں، لیکن دہشت گردی کے معاملے میں وہ جناب سنان اوغن کے خدشات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان کی پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ترک مخفف HDP)کو ایک وزارت دی جائے گی۔ بعض ترکوں کا خیال ہے کہ HDP دہشت گرد کرد تنظیم PKKکا سیاسی دھڑٖا ہے۔
جناب اردوان اور ان کے حریف کمال کلیجدار اوغلو سے تفصیلی ملاقات کے بعد 21 مئی کو جناب سنان اوغن نے Run-off مرحلے میں صدر اردوان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ انقرہ سے جاری ہونے والے اپنے سمعی و بصری بیان میں جناب اوغن نے کہا کہ ”دونوں امیدواروں سے ہماری ملاقاتیں سیاسی رواداری اور باہمی شائستگی کے ساتھ ہوئیں۔ مذاکرات و مشاورت اور نچلی سطح سے پیغامات کے نتیجے میں ہم نے صدر کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر اردوان کی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس مرحلے پر ایوانِ صدر اور پارلیمان کے درمیان تصام کے بجائے انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سنان اوغن کی حمایت کے بعد صدر اردوان کی کامیابی تقریباً یقینی ہوگئی اور ان کے حامیوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوا۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب اردوان کو اخلاقی برتری حاصل تھی کہ انھوں نے اپنے حریف سے 25 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے اور اس حق تولّیت (mandate)کی بنا پر بھی جناب اوغن کے بہت سے حامیوں نے جناب اردوان کو ووٹ دیا۔
فلسطینیوں، چینی اویغوروں اور برما کے اراکانی مسلمانوں کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ناموسِ رسالتؐ پر جناب اردوان نے جو دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے موصوف ترکیہ سے باہر بھی خاصے مقبول ہیں، دوسرے مرحلے کے انتخاب سے پہلے یورپی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یورپین مسلم فورم (EMF) نے عام انتخابات میں صدر اردوان کی حمایت کا اعلان کیا۔ انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے استنبول میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے سربراہ عبدالوحید نیازوف نے کہا کہ یورپ 17 کروڑ مسلمانوں کا وطن ہے۔ ہمارے لیے ترکیہ اطمینان و اعتماد اور خوشگوار ترقی کا استعارہ ہے۔ اردوان کی ولولہ انگیز قیادت یورپی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک ملّت قیادت کے لیے جس کو بھی منتخب کرے، وہ ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن EMF ترک عوام سے جناب اردوان کو ووٹ دینے کی درخواست کررہی ہے۔
ضابطے کے مطابق بیرونِ ملک مقیم ترکوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا گیا اور دنیا بھر کے ترک سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ بیرونِ ملک ووٹنگ 25 مئی تک جاری رہی۔ ملک واپس آنے اور بیرونِ وطن روانہ ہونے والے ترک باشندوں کے لیے ہوائی اڈوں کے کسٹم گیٹ پر بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے ترک سفارت خانے کے علاوہ حیدرآباد اور ممبئی کے قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ پاکستان میں مقیم 1200 ترک باشندوں کے لیے اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ووٹ ڈالنے کا انتظام کیا گیا۔ ترک الیکشن کمیشن (ترک مخفف YSK) کے مطابق بیرونِ ملک مقیم 19 لاکھ سے زیادہ ترکوں نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ عام انتخابات میں بیرونِ ملک سے آنے والے بیلٹ کی تعداد 16 لاکھ 91 ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ جناب اردوان کو بیرونِ ملک رہنے والے 59 فیصد ترکوں نے اپنے ووٹوں سے نوازا۔
اتوار 28 مئی کو شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی جب گنتی کا آغاز ہوا تو جناب اردوان نے برتری حاصل کرلی جو آخر تک برقرار رہی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 99.85فیصد گنتی مکمل ہونے پر جناب رجب طیب اردوان نے 2 کروڑ 77 لاکھ 25 ہزار 131 ووٹ لیے جو کُل ووٹو ں کا 52.16 فیصد ہے۔ ان کے حریف جناب کمال کلیجدار اوغلو کے حق میں 2 کروڑ 54 لاکھ 32 ہزار 251 یا 47.84فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 84.22فیصد رہا (حوالہ صباح نیوز)۔ ترکیہ میں پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 86.98 فیصد تھا جس میں جناب اوغلو نے 2کروڑ 45 لاکھ 94 ہزار 932 اور صدر اردوان نے 2 کروڑ 71 لاکھ 33 ہزار 838 ووٹ لیے تھے، یعنی ترک صدر کو اپنے حریف پر 25 لاکھ 38 ہزار 905 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں یہ برتری کم ہوکر 22لاکھ 92 ہزار 180رہ گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمایت کے دوٹوک اعلان کے باوجود پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کے تمام حامیوں نے جناب اردوان کو ووٹ نہیں دیے۔
بحیثیتِ مجموعی جناب اردوان کی کارکردگی بے حد اچھی رہی۔ انھوں نے 2018ء کے انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لیے تھے اور اِس بار انھیں 52.16فیصد ووٹ ملے۔ یعنی مقبولیت میں خفیف سی کمی تو ہے لیکن بدترین معاشی حالات اور امریکی پابندیوں کے تناظر میں معاملہ ایسا بھی خراب نہیں۔ پہلے مرحلے کی طرح run-off میں بھی جناب اردوان کو استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر بڑے شہروں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔
…………..
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔