وفاقی سالانہ میزانیہ 9 جون کو پیش ہورہا ہے۔ آئندہ مالی سال 24-2023ء کے لیے بجٹ اسٹریٹجی پیپر کا خاکہ تیار کرلیا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے حکومت کے پاس کھینچ تان کر کوئی پانچ ہزار ارب میسر ہوتے ہیں، دفاع سمیت دیگر سبسڈیز سے متعلق اخراجات کے لیے حکومت قرض لینے پر مجبور رہتی ہے۔ ملک میں سیاسی غیریقینی اور آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کے باعث اگلے بجٹ کا شیڈول متاثر ہورہا ہے۔ اگر قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 3 جون کو نہ ہوسکا تو بجٹ کی تاریخ بھی تبدیل کرنا پڑے گی، جبکہ بجٹ اسٹریٹجی پیپر 16 اپریل تک کابینہ سے منظور ہونا چاہیے تھا، اس کے باوجود وزارتِ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ نئے مالی سال کا بجٹ 9 جون کو پیش کیا جائے گا۔ بجٹ کی ابتدائی تیاری اگرچہ فروری، مارچ میں ہی شروع کردی جاتی ہے لیکن اسے حتمی شکل تمام ذرائع آمدن اور اخراجات کی تفصیلات اکٹھی کرلینے کے بعد دی جاتی ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی معاشی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق جولائی2022ء تا مارچ 2023ء مالی آپریشن کی تفصیلات یہ ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 3.58 کھرب روپے قرض ادا کیا گیا اور پاکستان کی آمدن 3.4 کھرب روپے رہی۔ حکومتی اخراجات بشمول دفاع، تنخواہ، ترقی اور سبسڈیز قرض کی رقم سے ادا ہوئے۔ حکومت کو پہلے 9 ماہ میں 3.07 کھرب روپے کا خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا۔ جولائی 2022ء تا مارچ 2023ء ملک کی مجموعی آمدن سے 6.39 کھرب حاصل ہوئے، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2.95 کھرب روپے ادا کیے گئے جس کے بعد مرکز کے پاس 3.44 کھرب رہ گئے۔ جولائی 2022ء تا مارچ 2023ء قرضوں کی ادائیگی پر 3.58 کھرب روپے خرچ کیے گئے، قرض اور سود کی ادائیگی اور صوبوں کا حصہ دینے کے بعد مرکز خسارے میں چلا گیا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کے ذریعے حکومت نے 362 ارب روپے اکٹھے کیے، داخلی قرضوں کی ادائیگی پر3.1 کھرب اور غیرملکی قرضوں پر 0.47 کھرب روپے خرچ ہوئے۔ جولائی 2022ء تا مارچ 2023ء دفاع پر ایک کھرب روپے خرچ ہوئے۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ابھی تک التوا کا شکار ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ التوا کی وجہ بین الاقوامی اور پاکستان کی سیاسی صورتِ حال ہے، پاکستان کو 1998ء جیسے اَن دیکھے دبائوکا سامنا ہے۔ اُس وقت ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی ایسے ہی دبائوکا سامنا تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایسے مطالبات پر عمل درآمد کی توقع کی جا رہی ہے جو مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہیں، اور یہ مطالبات خالصتاً سیاسی ہیں۔ یہ مطالبات امریکہ کی طرف سے مختلف سطح پر ملاقاتوں میں کیے جارہے تھے۔ اب چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتے معاشی تعلقات بھی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ ہیں۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام میں معاہدہ نہ ہونے کی دوسری وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ قرض جاری کیا گیا تو حکومت اسے الیکشن میں استعمال کرلے گی۔ آئی ایم ایف ضمانت چاہتا ہے کہ قرض کی رقم سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ ہو۔ اور آئی ایم ایف متوقع نگراں حکومت کے معاہدے پر کاربند رہنے کی بھی ضمانت چاہتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال بھی اسٹاف لیول معاہدے میں ایک رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف بجٹ میں ایسے اہداف چاہتا ہے جن سے انحراف نہ ہوسکے۔ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی شعبے کا مختص فنڈ بجٹ منظور ہونے پر دوسری طرف منتقل نہ کیا جائے۔ پاکستان کے لیے قرض کے معاملے پر بین الاقوامی جریدے بلوم برگ نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ترجمان سے رابطہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پالیسی معاملات پر یقین دہانی چاہتے ہیں، پاکستان نے پیٹرول سبسڈی نہ دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے، پاکستان کے ساتھ قرض کے معاملے پر بات چیت جاری ہے، پاکستان کی جانب سے بات چیت میں تعطل کا کوئی اشارہ نہیں آیا۔ بلوم برگ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ آئی ایم ایف بیل آئوٹ کے بغیر پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔
آئندہ بجٹ میں سالانہ 15 کروڑ آمدن والوں پر سُپر ٹیکس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 15کروڑ آمدن والوں پر ایک فیصد سُپر ٹیکس عائد رہے گا، جبکہ 20 کروڑ آمدن پر 2 فیصد، 25 کروڑ سالانہ آمدن پر 3 فیصد، 30 کروڑ آمدن پر 5 فیصد اور 30 کروڑ سے زائد آمدن پر 10 فیصد سُپر ٹیکس عائد ہوگا۔ گاڑیوں، مشروبات، کیمیکل، فرٹیلائزر، اسٹیل اور سیمنٹ سیکٹر پر سُپر ٹیکس عائد ہوگا۔
آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کے اہداف، بجٹ خسارہ اور حکومتی اخراجات سے متعلق تمام تجاویز پر وزارتِ خزانہ نے حتمی رپورٹ تیار کرلی ہے، کسی حد تک نوک پلک سنوارنے کی مزید گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ دفاعی اخراجات، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں پر وزیراعظم کو بریفنگ دی جاچکی ہے۔ بجٹ میں ایف بی آر ریونیو کا ابتدائی تخمینہ 9.2 ٹریلین، قرضوں کی ادائیگی کے لیے 8 ٹریلین لگایا گیا ہے۔ سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی رواں ہفتے بجٹ سفارشات پر آخری جائزہ رپورٹ مرتب کرے گی جس کے لیے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس دستیاب وسائل اگر دیکھے جائیں تو اندازہ ہے کہ موجودہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ .29 فیصد ہوسکتا ہے، اسی کی روشنی میں نئے مالی سال 2023-24ء کے لیے بجٹ اہداف کو حتمی شکل دی جائے گی، وفاقی ترقیاتی پروگرام کی مد میں 7 سو ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام کی رقم ایک ہزار ارب روپے تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس طرح اگلے مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 6 سو ارب سے زیادہ رکھنے کی تجویز ہے۔
وسائل کے تمام ’’سی ٹی اسکین ٹیسٹ‘‘ اگرچہ حکومت کے سامنے ہیں، اس کے باوجود حکومت اس بجٹ کو سیاسی اور انتخابی بجٹ بھی بنانا چاہتی ہے، تاہم ملک کے معاشی اشاریے اس حد تک گر چکے ہیں کہ خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حجم،شرح نمو اور فی کس آمدنی میں رواں مالی سال کے دوران نمایاں کمی ریکارڈ پر آئی ہے۔ معیشت کا حجم گزشتہ برس کے 375 ارب 44 کروڑ سے کم ہوکر 341 ارب 55 کروڑ روپے اور اوسط فی کس آمدنی 1766 ڈالر سے گر کر 1568 ڈالر سالانہ رہ گئی ہے جو محتاط اندازے کے مطابق 39200روپے ماہانہ بنتی ہے۔ شدید ترین مہنگائی میں عام آدمی کے معاشی مسائل بڑھنے سے قومی بچتوں میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ فی کس آمدنی میں کمی کا رجحان بدستور رہنے سے ملک کا بینکنگ کاروبار سکڑ رہا ہے جس سے وہ بچت اسکیموں کی ترغیب دینے کی پہلے جیسی پوزیشن میں نہیں۔ کسی بھی ملک کی صنعت و تجارت زیادہ تر متوسط طبقے پر انحصار کرتی ہے جس کا حجم کُل آبادی کا عموماً آدھے سے زیادہ ہوتا ہے۔ آج ملکی صورتِ حال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اس طبقے کی قوتِ خرید بمشکل روزمرہ اشیائے ضروریہ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافے سے لوئر مڈل کلاس غربت کی طرف مائل ہے، جبکہ گزشتہ برس کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ شرح 33 فیصد تھی جو بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے، اس کے باوجود حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ تاجر برادری کو درپیش مشکلات سے وہ بخوبی آگاہ ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے وفد نے حال ہی میں وزیر خزانہ سے ایف بی آر میں ملاقات کی ہے۔ وفد نے معیشت کی بہتری اور برآمدات بڑھانے کی حکومتی کوششوں میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ایف پی سی سی آئی کی تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط پر آئندہ بجٹ میں پراپرٹی سیکٹر میں ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جب کہ یہی تجویز پاکستان بزنس کونسل نے بھی دی ہے، اسی وجہ سے اب فیصلہ ہوا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے پر ٹیکس لگایا جائے۔ آئندہ بجٹ میں پراپرٹی سیکٹر میں فائلز کے لین دین پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے جس کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پلاٹوں کا لین دین کرنے والے ایجنٹس کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور رجسٹرڈ پراپرٹی ایجنٹس پر فائلوں کے لین دین پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ بجٹ میں پلاٹوں کی خرید و فروخت کرنے والے نان فائلرز کے لیے ٹیکسوں کی شرح دگنی کی جائے گی۔ اس وقت فائلرز کے لیے پلاٹ کی خرید و فروخت پر 2 فیصد ودہولڈنگ اور 2 فیصد گین ٹیکس عائد ہے، جبکہ نان فائلرز کے لیے یہی ٹیکس بالترتیب 7 فیصد اور 4 فیصد ہے۔ بجٹ میں پلاٹ کی خرید و فروخت پر فائلرز اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس بھی بڑھانے کی تجویز ہے۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پلاٹوں میں فائلوں کی خرید و فروخت پر ٹیکس میکنزم نہ ہونے کے باعث ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔
تعمیراتی حلقوں کی تجویز پر حکومت نے تعمیراتی شعبے میں ریلیف پر غور شروع کردیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترسیلات بڑھانے اور الائیڈ انڈسٹری کے لیے مراعات کی تجاویز دی گئی ہیں۔ ترسیلات بڑھانے کے لیے اوورسیز کے لیے بجٹ میں مراعات دیے جانے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں اوورسیز کو مراعات سے بینکنگ چینل سے ترسیلات بڑھیں گی۔اوورسیز کے لیے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر مراعات کی تجویز ہے۔ اوورسیز کے لیے گھروں، فلیٹس، کمرشل ایریا میں سرمایہ کاری کے لیے مراعات کی تجاویز ہیں۔ انڈسٹری سے منسلک کاروبار کے فروغ کے لیے ریگولیٹری، ایڈیشنل ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ اسٹیل، سیمنٹ، ٹائل و دیگر الائیڈ انڈسٹری چلانے کے لیے ٹیکسوں میں کمی کی تجویز ہے۔ اسٹیل، ٹائل کی امپورٹ پر 15 فیصد آرڈی اور 15 فیصد اے آر ڈی میں کمی کی تجویز ہے۔ اسٹیل، ٹائل کی امپورٹ پر اس وقت 30 فیصد تک آرڈی اور اے آرڈی عائد ہے۔
بہرحال وزارتِ خزانہ میں اس وقت تجاویز کو حتمی شکل دی جارہی ہے، امکان ہے کہ بجٹ میں معاشی ترقی کے نئے منصوبوں کی مدد سے اگلے سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف تین فیصد سے زیادہ رکھنے کی تجویز دی جائے گی۔ پاکستانی روپے پر انتہا درجے کے دبائو کے ماحول میں بھی معاشی تجزیہ
کاروں کی رائے ہے کہ اسے ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کرنے کے لیے اس کی قدر میں کمی روکنے کی مصنوعی کوشش نہ کی جائے۔ حکومت یقین دلارہی ہے کہ ہمیں گھانا اور سری لنکا جیسی صورتِ حال کا سامنا نہیں ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ حکومت بجٹ تیار کرچکی ہے اوربجٹ کے لیے آمدن اور محصولات پر نظرثانی شدہ اور اگلے سال کے اہداف طے کرلیے گئے ہیں، اور تمام بجٹ تخمینہ جات پر بھی بریفنگ دی جاچکی ہے۔ زراعت کے شعبے کے لیے یوریا کھاد کی قیمتیں کم کی جاسکتی ہیں، پنشن ریفارمز کی سفارشات کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پاکستان بزنس کونسل نے آمدن پر سپر ٹیکس برقرار رکھنے کی مخالفت کردی۔پاکستان بزنس کونسل کے مطابق حکومتی آمدن بڑھانے کے لیے نئے ٹیکس دہندگان کو نیٹ میں لایا جائے، کاروباری طبقہ پہلے ہی منافع پر ٹیکس دے رہا ہے، سپر ٹیکس ایک بار لگایا گیا تھا جسے برقرار رکھنے کا جواز نہیں۔ اس کونسل نے رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا۔ رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر سے 747 ارب روپے ٹیکس وصولی کی گنجائش ہے۔ کونسل نے اسمگلنگ پر قابو پانے، کاروباری لاگت میں کمی اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کی سفارشات پیش کی ہیں اور تجویز دی ہے کہ سب کو یکساں مواقع دیے جائیں-