چھپی ہوئی بھوک

ـ6 ماہ سے زاید عمر کے بچوں کو متوازی غذا دیں

”لیکن سر! ہم تو دودھ بھی پلا رہے ہیں، اور جو یہ کھانا چاہے ہم لاکر دیتے ہیں، نگٹس، بروسٹ، پیزا… اب اس کے باوجود یہ بچہ کیوں ایسا ہے؟ دیکھنے میں تو صحت مند ہے، مگر بہت جلدی تھک جاتا ہے۔“

”سر! یہ بار بار بیمار کیوں پڑ جاتی ہے؟ ہر چیز کھلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ بڑی چوزی ہے، صرف اپنی پسند کی چیز کھاتی ہے، بار بار انفیکشن ہوجاتا ہے اسے۔“

روز اسی طرح کی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔

ایک سات سال کی بچی ابھی تک فیڈر پیتی ہے۔ تین چار سال تک تو عام سی بات ہے۔ کچھ نہیں کھاتی، دودھ کی بوتل بھر کر پکڑا دو، بس کام ختم۔

بہت سارے بچے صرف روٹی کھاتے ہیں، کچھ صرف سادے چاول، انڈہ، گوشت، سبزی، پھل۔ کچھ کھاتے ہی نہیں تو کیسے کھلائیں؟

والدین کے خیال میں صرف وزن بڑھنا ضروری ہے، چاہے وہ دودھ پلا پلا کر ہی کیوں نہ بڑھے۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ وزن کے ساتھ لمبائی، ہڈیاں، جسم کا مدافعتی نظام، دماغ کی صحت وغیرہ وغیرہ بھی شروع کے برسوں میں اتنے ہی زیادہ ضروری ہیں جتنا وزن بڑھنا۔،
بچے کے لیے ابتدائی دنوں میں ماں کا دودھ بہت ضروری ہے، اور ماں کے دودھ کے بہتر ہونے کے لیے ماں کی غذا کا متوازن اور بہتر ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نومولود بچے کی ماں کو پانچ دوائیں اور کوئی ایک سپلیمنٹ لکھ کر اپنی جان چھڑوا لی جائے۔ بطور ڈاکٹر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو سمجھائیں اور روایتی غذائی اجناس میں اس کو بہترین کا استعمال بتائیں۔ نئی ماں پر بلاجواز کھانے کے معاملے پر پابندیاں نہ لگائیں اور جہاں ضروری ہو وہاں اس کے خاندان والوں کو بھی سمجھائیں۔

اب بات کرتے ہیں 6 ماہ سے بڑے بچوں کی، جن کو ماں کے دودھ کے علاوہ بنیادی غذا استعمال کروانا ضروری ہے۔

ہم شروع میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ بچے کو میٹھی غذائیں دے کر اُسے میٹھے کا عادی بنادیتے ہیں، اور پھر وہ عام بنیادی غذا کے بجائے صرف میٹھا کھانا پسند کرتا ہے۔ مثلاً روز یہ ہوتا ہے کہ پانچ سات منٹ کے لیکچر کے بعد، جو ”غذا کون سی اور کیسے شروع کریں“ پر ہوتا ہے، ماں فوری سوال کرتی ہے ”اس کو سوجی کھلا سکتی ہوں؟ کسٹرڈ کھلاؤں تو کوئی مسئلہ تو نہیں؟“

چاول دنیا میں سب سے زیادہ کھائے جاتے ہیں، اگر ہم چاول سے شروع کریں اور اس میں کچھ دنوں بعد دال بھی ملا دیں تو اس طرح ہم دال کے ذریعے اس بچے کو پروٹین، وٹامنز اور منرلز مہیا کرنا شروع کردیں گے۔

جب بچہ ہفتے بھر میں دال چاول/ کھچڑی کا عادی ہوجائے تو اس میں ہر کچھ دنوں بعد ایک سبزی ابال کر ڈالنا شروع کردیں۔ اب بچے کی غذا میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، منرلز، وٹامنز اور زنک شامل ہوگئے، اور اگر ہرے پتوں والی سبزیاں ابال کر ملا دی جائیں تو آئرن کی بھی اچھی مقدار ملنا شروع ہوجائے گی۔ بچہ تھوڑا اور بڑا ہوجائے یعنی 7-8 ماہ کا، تو اِس میں مرغی کی یخنی اور بوٹی بھی اچھی طرح گھوٹ کر شامل کی جاسکتی ہے۔ اب پروٹین، زنک وغیرہ کو جانوروں سے بھی حاصل کررہے ہیں جو پہلے صرف پودوں سے حاصل کررہے تھے۔

اس طرح آپ ہر چند روز بعد ایک نئی غذا کو شامل کرسکتے ہیں جس میں پھل بھی یقیناً شامل کیے جانے چاہئیں، جو کہ وٹامنز اور منرلز کی ایک اچھی مثال ہیں۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ بچے سبزی نہیں کھاتے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ذرا بڑے بچوں کے لیے تمام سبزیوں کو ابال کر پیسٹ بنالیا جائے، اسے محفوظ کرلیں، اور ہر سالن میں ڈال دیں۔

یہ تو عام باتیں ہیں جو آپ سے کرنی تھیں۔ آج کی خاص بات ایک اور ہے جس کو Hidden Hunger (چھپی ہوئی بھوک) کہتے ہیں۔

پریشان نہ ہوں کوئی خفیہ بات نہیں، دراصل یہ چھپی ہوئی بھوک وہ ہے جو ہمارے اندر کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

بظاہر آپ کا بچہ اچھے وزن کا ہے مگر صرف دودھ پر گزارا کرتا ہے، ایسے میں اُس میں آئرن کی کمی ہو جاتی ہے، جلدی تھک جاتا ہے، کام میں دل نہیں لگتا، بار بار بیمار ہو رہا ہے۔

پرابلم یہ آیا اس میں کہ آئرن کم ہے، خون کے سرخ ذرات نہیں بن رہے۔ خون کی کمی، اس کی وجہ سے آکسیجن کی کمی اور جسم میں کمزوری۔

یہ صرف ایک آئرن کی وجہ سے نہیں، بلکہ وہ بچہ کھانے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ اب وہ نہ سبزیاں کھاتا ہے، نہ ہی گوشت اور پھل وغیرہ، جس کی وجہ سے وٹامنز کی کمی، منرلز کی کمی، زنک کی کمی، آیوڈین والی غذا نہیں لی تو اس کی بھی کمی ہوگئی… صرف زیادہ دودھ پینے سےبچہ بہت ساری بنیادی غذاؤں سے دور ہوگیا۔ اور بچے کے اندر جب وٹامنز کی کمی ہوئی تو بینائی کے مسائل، جسم کی بڑھوتری کے مسائل، زنک کی کمی سے جسم کے مدافعتی نظام میں کمزوری، انفیکشن، دماغی صلاحیتوں میں کمی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی، خراب جلد، وٹامن ڈی کی کمی، کمزور ہڈیاں، نمکیات کے توازن کا مسئلہ جس کی وجہ سے تھکن سے لے کر دل کی دھڑکن کے مسائل پیدا ہوگئے۔

یعنی بچہ جب کچھ کھانے کے قابل ہوا اور اس کو بنیادی طور پر درست غذا نہیں ملی تو بات کہاں تک چلی گئی!

ہمارے جسم کو بچپن سے بہتر کام کرنے کے لیے ماں کے دودھ کے بعد( اور یہ بات واضح رہے ماں کا وہ دودھ بہتر ہے جو ماں کے متوازن غذا کے استعمال کے بعد بچے کو ملتا ہے ) وہ تمام غذائی اجزا ملنے چاہئیں جو جسم کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیتوں، مدافعاتی نظام کی مضبوطی وغیرہ کے لیے ضروری ہیں۔

اس لیے بچوں کو شروع ہی سے جہاں آپ چاول، روٹی کھلاتے ہیں، وہیں ان کی غذا میں انڈہ، مرغی، گوشت، مچھلی، تمام سبزیاں اور پھل شامل رکھیں۔ کھجور کا استعمال آئرن کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے، اسی طرح دہی کا استعمال جسم میں ان قدرتی بیکٹیریا کے فروغ کا باعث ہے جو ہمارے جسم دوست بیکٹیریا کے طور پر کام کرتے ہیں۔اسی طرح قدرتی دھوپ جہاں وٹامن ڈی مہیا کرتی ہے وہیں امید کی بھی نشانی ہے۔

چھپی ہوئی بھوک کا مطلب ہے آپ کے جسم میں اُن غذائی اجزاء کی کمی جن کے باعث بظاہر آپ کا جسم تو ٹھیک لگتا ہے مگر اندر سے کمزور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ اپنا وہ بہتر رول ادا نہیں کرپاتے جو کہ کرنا چاہیے۔ جلد بیمار پڑتے ہیں، انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے، بینائی متاثر ہوتی ہے، قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

بچوں کے لیے اچھا کھانا وہی ہے جس میں تمام سبزیاں، دالیں، پھل، انڈہ، مرغی، مچھلی، اناج، بہتر چکنائی، پروٹین، دہی، دودھ، پنیر، ڈرائی فروٹ، وغیرہ وغیرہ شامل ہوں۔