مقبوضہ پونچھ… بھارت کا برمودہ ٹرائی اینگل

بھارتی حکومت طاقت کے ذریعے مصنوعی امن دکھلا کر دنیا کو دھوکا دے رہی ہے

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پونچھ اور راجوری کے حالات میں بھارتی حکومت کی معمولی سی بے تدبیری اس ریجن میں حالات کو خراب کرسکتی ہے۔ بی بی سی نے یہ بات راجوری کے رہائشی اور معروف صحافی ظفر چودھری کے حوالے سے کی ہے۔ ظفر چودھری اُن اخبارنویسوں میں شامل ہیں جو جنرل پرویزمشرف اور من موہن سنگھ دور کے پیس پروسیس کو قریب سے دیکھ چکے ہیں اور اس کا باریک بینی سے تجزیہ ہی نہیں مشاہدہ بھی کرچکے ہیں۔

ظفر چودھری کا کہنا تھا کہ راجوری اور پونچھ لائن آف کنٹرول کے قریب ہیں، آزادکشمیر کے لوگوں کو سری نگر کے حالات پر غصہ ہے۔ راجوری اور پونچھ کے اضلاع میں ہندوؤں کی بڑی تعداد بھی مقیم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور حملہ کرکے چلا جائے گا لیکن سیکورٹی فورسز کا ردعمل سیکڑوں شہریوں کی گرفتاری کی صورت میں نکلے گا۔ اگر عوام دوست پالیسی نہ اپنائی گئی تو راجوری اور پونچھ میں بھی مسلح شدت پسندی کی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ میں ظفر چودھری کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ عراق، شام اور افغانستان میں لوگوں کو انگیج کیے بغیر دہشت گردی کو ہرایا نہیں جاسکا۔ اگر امریکہ جیسی سپر طاقت طالبان سے مذاکرات کرسکتی ہے تو ظاہر ہے جموں و کشمیر میں کم ازکم مقامی سیاست کو بحال کرکے لوگوں کا اسٹیک پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پونچھ میں فوجیوں پر حملوں کے دو واقعات میں چار فوجی مارے جا چکے ہیں اور دو پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، جس کے بعد بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس علاقے کا ہنگامی دورہ کیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس نے قبول کی تھی۔ اس سے پہلے گزشتہ ماہ بھمبر گلی میں ایک فوجی بس پر حملہ ہوا تھا جس میں پانچ فوجی مارے گئے تھے اور ایک شدید زخمی ہوا تھا۔ حملے میں فوجی گاڑی جل کر راکھ ہوگئی تھی اور حملہ آور دھند کا فائدہ اُٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ مقبوضہ پونچھ میں بھارتی فوج کنٹرول لائن کے قریب ہندو آبادی کو مسلح کررہی ہے جس سے مسلمان آبادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پونچھ کے جنگل بھارتی فوج کے لیے بلیک ہول ثابت ہونے لگے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارت نے یہ اعلان کیا تھا کہ اب کشمیر میں سیکورٹی کی صورتِ حال پر قابو پالیا ہے اور کشمیر کے لوگ بھی حالات سے سمجھوتا کرچکے ہیں۔ یہ امن کس قیمت پر قائم کیا گیا تھا؟ پوری دنیا کو اس کا اندازہ تھا۔ ایک کشمیری باشندے پر تیس فوجی بٹھا کر اور ہر گھر کے باہر فوجی پہرہ لگا کر امن قائم کرکے دنیا کو یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ کشمیریوں نے بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کو قبول کرلیا ہے اور وہ نئی صورتِ حال سے خوش اور مطمئن ہیں۔ یہ قبرستان جیسی خاموشی تھی جو لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس کر اور انہیں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی زد میں لاکر قائم کی گئی تھی، اور اس امن کو قائم کرنے کے لیے کشمیریوں کو ایک طویل لاک ڈائون کا شکار کیا گیا تھا۔ ان سے انٹرنیٹ جیسے جدید ذرائع ابلاغ کی سہولت چھین کر انہیں پتھر کے دور میں پہنچاکر امن قائم کیا گیا تھا۔ اب اسی تاثر کو تقویت دینے کے لیے G-20 ملکوں کی کانفرنس کے کچھ سیشن مقبوضہ علاقے میں منعقد کیے جارہے ہیں۔ اس ماحول میں پونچھ اور راجوری کے پہاڑی علاقوں میں جس انداز کی عسکری کارروائیاں شروع ہورہی ہیں ان میں گوریلا طرزِ جنگ کی جھلک نمایاں ہے۔ فوجیوں کو ہنی ٹریپ لگاکر پہلے گھنے جنگلات کی طرف کھینچا جاتا ہے، جب وہ قریب آتے ہیں تو ان پر حملہ کیا جاتا ہے۔ راجوری اور پونچھ کے علاقے 1965ء کی جنگ کے بعد سے بھارتی فوج کے شدید دبائو میں ہیں، جب اس علاقے کے مسلمانوں کو پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے الزام میں بے پناہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا تھا، اسی دوران شام کو پونچھ کے ڈاک بنگلے پر پاکستان کا پرچم بھی لہرا دیا گیا تھا، مگر صبح حالات بدل گئے تھے۔ یہی جمائو اور دبائو تھا کہ ان علاقوں کے عوام پوری طرح وادی کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوسکے۔ اب یوں لگتا ہے کہ بھارتی فوج ان علاقوں پر اپنا دبائو اس قدر بڑھا رہی ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ان علاقوں کے عوام کے پاس اُٹھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ بھارتی فوج معمولی سی عسکری کارروائیوں کو دبانے میں بے تدبیری کرتی ہے اور وادی کی طرح خانہ تلاشیوں کے نام پر عوام کی عزتِ نفس مجروح کرتی ہے تو اس علاقے کے عوام بھی ایک نئے روپ میں سامنے آسکتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں ظفر چودھری نے بھی دبے لفظوں میں اس کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت بھی حال ہی میں یہ بات دہرا چکے ہیں کہ سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ کشمیر میں سیاسی اور جمہوری عمل کو بحال کرنا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات وسیع سیکورٹی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اے ایس دولت نے کہا تھا کہ اب کشمیر کے مقامی لوگ اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

را کے سابق سربراہ کا یہ اعتراف اس لحاظ سے چشم کشا ہے کہ مسٹر دولت کشمیر کی زمینی صورتِ حال کو بہت قریب سے جانتے ہیں، وہ کشمیر پر کئی کتابیں بھی لکھ چکے ہیں اور کشمیر میں سیاست دانوں، بیوروکریٹس، حتیٰ کہ حریت کانفرنس کے راہنمائوں سے بھی اچھے مراسم رکھتے ہیں۔ اے ایس دولت کی طرف سے پاکستان سے مذاکرات کی بات اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر کی گئی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ بھارت کی موجودہ حکومت ٹارزن بن کر کشمیر کے حالات کا حل صرف طاقت کے استعمال میں دیکھ رہی ہے اور دنیا کو بھی دھوکا دینے کے لیے مصنوعی امن کو حالات کی بہتری کی دلیل کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ G-20 اجلاس کا سری نگر میں انعقاد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

دوسری طرف زمینی حقیقت یہ ہے کہ وادی کشمیر کے عوام تو پہلے ہی بھارت سے ناراض اور نالاں ہیں اور ایک ذہنی اور عملی فاصلہ بنائے ہوئے ہیں، اور اب پونچھ اور راجوری کے حالات بھی بھارت کے کنٹرول سے باہر ہونے لگے ہیں۔ یہ علاقے ماضی میں وادی کی سیاسی تحریکوں سے الگ تھلگ دکھائی دیتے تھے۔ پونچھ اور راجوری سمیت دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی بے چینی کی اصل وجہ بجرنگ دل اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کے زیراثر ہندوئوں کی مسلح تربیت اور ان میں اسلحہ کی تقسیم ہے۔ اس سے مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہونے لگے ہیں اور کئی شکوک و شبہات بھی سر اُٹھانے لگے ہیں، کیونکہ یہی وہ علاقے ہیں 1947ء میں جہاں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا، حالانکہ اس کے برعکس مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں کسی ایک غیر مسلم کو گزند نہیں پہنچی تھی اور مسلمانوں نے غیر مسلموں کے دفاع کا کام خود سنبھالا تھا۔ مقبوضہ جموں اور پونچھ کے ان علاقوں میں فوج کی سرپرستی میں محض ایک مذہب کے لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے تو شکوک پیدا ہونا فطری ہے۔