بدعنوانی کی دیمک سرکاری محکمے کو چاٹ رہی ہے
گزشتہ روز تمام اہم سندھی اخبارات میں یہ افسوس ناک خبر نمایاں انداز سے صفحۂ اوّل پر چھپی ہے جس کے مطابق خزانہ آفس جیکب آباد میں پنشن اور جی پی فنڈ کے 80 کروڑ روپے سے زائد کے کرپشن کیس میںملوث 10 ملزمان کو مزید تحقیق اور تفتیش کے لیے مرکزی دفتر کراچی میں طلب کرلیا گیا ہے۔ ان میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ اکائونٹ آفیسر، آڈیٹر، سب آڈیٹر، اکائونٹنٹ اور دوسرا عملہ شامل ہے۔ جیکب آباد ٹریژری آفس میں کرپشن کا مذکورہ منظرعام پر آنے والا کیس کوئی پہلا کیس نہیں ہے بلکہ اس سے قبل حیدرآباد، دادو، شکارپور، گھوٹکی اور سندھ کے دیگر اضلاع سے بھی تاحال اربوں روپے کی بدعنوانی کے کیس سامنے آچکے ہیں اور تحقیقات کا اعلان کیا جاچکا ہے، لیکن پھر اس تحقیق اور تفتیش کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے؟ وہ ہنوز ایک سربستہ راز اور معمّا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ فنانس ڈپارٹمنٹ اور خزانہ آفس سندھ میں آئے دن بہت بڑی بڑی بدعنوانیوں اور بدمعاملگیوں کے جو کیس رونما ہوتے اور ان کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں اس کے سربراہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ہیں۔ جی ہاں یہ ایک حقیقت اور تلخ سچ ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ سندھ خود وزیراعلیٰ سندھ ہیں جو گزشتہ کئی برس سے اس منصب پر فائز ہیں، جن کی ناک کے نیچے ان کی رضامندی سے مقرر کردہ سندھ کے خزانہ افسران اربوں روپے کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ سندھ میں ہر محکمے اور ہر ادارے میں بے حد و حساب کرپشن ہورہی ہے۔ صرف سندھ کے اضلاع کے خزانہ کے دفاتر میں ہی نہیں، حیدرآباد ٹریژری آفس میں ہونے والی کرپشن تو3 ارب 20کروڑ پر مبنی تھی جس میں حکومتِ سندھ کے وزرائے کرام کے منظورِ نظر افسران شامل تھے۔ دلچسپ اور قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ اس اسکینڈل کا مرکزی ملزم عامر ضیاء اسران 2009ء سے 2016ء تک محکمہ خزانہ سندھ میں سیکشن آفیسر اور 2016ء سے 2017ء کے دوران وزیراعلیٰ سندھ سیکریٹریٹ میں بھی رہا ہے۔ اس پر یہ الزام ہے کہ جب سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا تھا تو اس نے مبینہ طور پر ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا، درآں حالیکہ اس کے علم میں سب کچھ تھا۔ عامر ضیاء اسران کے ساتھ ساتھ اس اسکینڈل میں دیگر 83 افسران بھی ملوث ہیں لیکن تحقیقات کا کوئی نتیجہ تاحال برآمد نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق جو قبل ازیں اس حوالے سے منظرعام پر آئی تھی، گزشتہ چند برس میں سندھ کے مختلف اضلاع کے خزانہ دفاتر میں مجموعی طور پر 2 کھرب 31 ارب 45 کروڑ 23 لاکھ 47 ہزار 7 سو روپے کی بدعنوانی کی گئی، اور اتنی بڑی رقم بڑی مہارت اور دیدہ دلیری کے ساتھ اس طرح سے ٹھکانے لگادی گئی ہے کہ اب اس کی واپسی لگ بھگ ناممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق کھرب ہا روپوں پر مشتمل کرپشن سرکاری ملازمین کی پنشن کی مد میں کی گئی ہے اور بدعنوانی کی رقم دادو اور جوہی کے رہائشیوں کے بینک اکائونٹس میں 2012ء سے 2017ء کے دوران محکمہ سندھ کے ٹریژری دفاتر سے منتقل کی گئی۔ مبینہ طور پر پنشن کی رقم جعلی اکائونٹس اور اہم شخصیت کے فرنٹ مین کے اکائونٹ میں بھی منتقل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اس بدعنوانی میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جو خدشہ ہے کہ ہمیشہ پردہ نشین ہی رہیں گے اور نام نہاد تحقیقات اور انکوائری بالآخر داخلِ دفتر کردی جائے گی۔ حسبِ سابق اور حسبِ روایت بیشتر اکائونٹس ہولڈرز جن کے اکائونٹس میں رقم منتقل کی گئی انہیں اس کا علم ہی نہیں تھا کہ ان کے اکائونٹس میں بھاری بھرکم رقم منتقل ہوئی ہے۔ آفرین ہے کرپشن کرنے والوں کی چالاکی، عیاری، مکاری، ہوشیاری اور مہارت پر… تم ’’کرپشن‘‘ کرو ہوکہ کرامات کرو ہو!!
علاوہ ازیں گزشتہ برس ہی مٹیاری موٹر وے کرپشن اسکینڈل میں 6 ارب 14کروڑ روپے سے بھی زائد کی کرپشن میں سندھ بینک کے بڑے افسران، ڈپٹی کمشنر مٹیاری عدنان رشید، ڈپٹی کمشنر نوشہروفیروز تاشفین عالم اور ایک مزید ضلع کے ڈی سی ملوث قرار دیئے گئے۔ ڈی سی نوشہرو فیروز بآسانی بیرونِ ملک فرار ہوگئے تھے۔ حال ہی میں منظرعام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈی سی مٹیاری عدنان رشید نے سیلاب متاثرین کے لیے آنے والی رقم میں سے بھی ساڑھے 4 کروڑ روپے اور ڈی سی نوشہروفیروز تاشفین عالم نے ساڑھے 3 کروڑ روپے ہڑپ کرلیے تھے۔ سندھ کے ہر سرکاری محکمے میں کرپشن ہورہی ہے، ہر سطح پر ہورہی ہے اور بہت بڑے پیمانے پر ہورہی ہے، لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں اور کھربوں میں ہورہی ہے، بے حد اور بے حساب ہورہی ہے، اور جس بڑے پیمانے پر بغیر کسی روک ٹوک کے بدعنوانی کی جارہی ہے اس سے سمجھنے والے بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کھرا کہاں تک جاتا ہے۔ اگر سندھ کی بااثر ترین شخصیات کی آشیرباد یا سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ امر ہے کہ کرپٹ عناصر یوں بے خوف و خطر اور دیدہ دلیری کے ساتھ اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے کی جسارت کرسکیں، اور اگر کرلیں تو پھر گرفتاری اور سزا سے بھی بچ رہیں۔
صوبہ سندھ وسائل سے مالامال ہے۔ کئی قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک زرعی صوبہ بھی ہے، لیکن اس کے باوجود بجائے خوشحال ترین ہونے کے یہ بدحال ترین صوبہ ہے اور اہلِ سندھ انتہائی پُر مصائب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، صوبے کے عوام کی اکثریت غربت اور بدحالی میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے، اس پر مستزاد بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے پہاڑ سروں پر معلق مسائل ہیں۔ مذکورہ سارے مسائل کی تمام تر ذمہ داری گزشتہ 15 برس سے صوبے پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اس سے قبل حکومت کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر بے حساب ہونے والی کرپشن تو صرف اور صرف پی پی پی کی حکومت کی نااہلی، بدعنوانی اور بدحکومتی کا براہِ راست شاخسانہ ہے۔ پی پی کی حکومت میں ہر کرپٹ فرد، بدعنوان ملازم اور افسر کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ آج سندھ کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں، روڈ راستے بدامنی کی وجہ سے سرِشام ہی ڈاکوئوں اور لٹیروں کے زیر نگیں ہوجاتے ہیں، سندھ میں کاروباری طبقہ بھی ناقص حکومتی پالیسیوں اور شدید بدامنی سے بے حد نالاں ہے۔ اگر کرپشن کے موضوع پر لکھا جائے تو اس پر اتنا زیادہ مواد اور ثبوت موجود ہیں کہ ایک لرزہ خیز طویل مقالہ بھی بآسانی لکھا جاسکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ معلوم ہے!! ہونا ہوا نا کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ سب کو سب پتا ہے… عوام کو بھی اور خواص کو بھی۔ غریب کو بھی اور امیر کو بھی۔ محکمہ تعلیم، پولیس اور پھر حکومتی ٹھیکوں میں سب سے زیادہ کرپشن ہوجاتی ہے۔ اہلِ سندھ غریب سے غریب ترین اور حکمران، نوکر شاہی اور بدعنوان عناصر امیر ترین ہوتے جارہے ہیں، لیکن آخر کب تک!! ایک دن تو یوم حساب برپا ہوکر رہے گا اِن شاء اللہ۔