(مکاتیب کے خصوصی حوالے کے ساتھ)
(چھٹی اور آخری قسط )
’’معاصر اسلامی فکر‘‘ پر مولانا مودودی کے خدشات
مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر صدیقی کی تحریر ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ سے متعلق الگ الگ تین خطوط میں اپنے کچھ احساسات اور کچھ خدشات کو بیان کیا ہے، ذیل میں ان خطوط سے متعلقہ اقتباسات درج کیے جارہے ہیں:
پہلا مکتوب (6ستمبر 1970ء): ’’اس وقت ہم خصوصاً یہاں جن نازک حالات سے گزر رہے ہیں ان میں پہلے ہی ہمارے راستے میں بے شمار کانٹے ہیں، کجا کہ آپ چند اور کانٹوں کی نشاندہی کرکے یہاں نئی بحثیں چھڑوا دیں۔ ہندوستان کی حد تک تو یہ صرف علمی بحثیں ہوں گی، لیکن ہمارے لیے یہ عملی پیچیدگیاں بن جائیں گی۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے صرف اُس وقت تعرض کرنا چاہیے جب کسی جگہ عملاً اسلامی نظام قائم ہوجائے اور ہم اس پوزیشن میں ہوں کہ ان مسائل پر جو رائے بھی قائم کریں اس کو نافذ کرنے کی طاقت ہمیں حاصل ہو۔ اس سے پہلے ان پر تفصیلی بحثیں کرنا اپنی راہ کی مشکلات کو بڑھانے کا موجب بن جائے گا۔ اس لیے بعض بحثوں سے ہم قصداً احتراز کررہے ہیں‘‘۔
دوسرا مکتوب (10نومبر1970ء): ’’آپ کا مقالہ میں نے دیکھ لیا ہے، اس میں بہت سے ایسے مسائل چھیڑ دیے گئے ہیں جنہیں اس وقت پاکستان میں چھیڑدینا ہمارے لیے مزید مشکلات کا موجب ہوجائے گا۔ اس لیے یہاں تو اس کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو ہندوستان میں اسے شائع کردیں، کیونکہ وہاں اس کی حیثیت محض علمی بحث کی سی ہوگی‘‘۔
تیسرا مکتوب (26نومبر1970ء): ’’میرا خیال یہ ہے کہ جن مسائل پر آپ نے بحث کی ضرورت ظاہر کی ہے ان کو مسائل کی شکل میں چھیڑنے اور شائع کرنے کے بجائے ان میں سے کسی ایک یا چند مسائل پر خود تحقیقی بحث کریں۔ اور دوسرے اُن رفقاء کو جو اس قسم کے تحقیقی کام کرنے کے اہل ہیں دوسرے مسائل کی طرف توجہ دلائیں، یہ ایک مثبت طریقہ ہوگا جس سے زیادہ بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے‘‘۔
معاصر اسلامی فکر اور مولانا علی میاں ندویؒ کا اعتراف
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ کا مسودہ اشاعت سے قبل وقت کے بڑے اہلِ فکر ونظر کی خدمت میں ارسال کیا تھا، یہ مسودہ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کی خدمت میں بھی ارسال کیا گیا تھا۔ مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے مسودہ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صدیقی کے نام اپنے دو خطوط میں اس مقالے کا تذکرہ کیا ہے، ان خطوط کے ذریعے نہ صرف مولانا ندوی مرحوم نے تائید نوٹ کرائی، بلکہ اس کام کی اہمیت کا کھل کر اعتراف بھی کیا، اور اس سلسلے میں کچھ حد تک عملی رہنمائی بھی فرمائی، یہ دونوں مکتوب ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
پہلا مکتوب (19اپریل 1970ء): ’’مضمون فکرانگیز اور پُرمغز ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس طریق فکر سے سو فیصدی اتفاق ہو۔ آپ نے جن مسائل کو اٹھایا ہے اور جن کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے انکار نہیں، لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ آپ قرآن مجید اور سیرتِ نبوی سے براہِ راست ان کا حل طلب کریں اور ان کے قلب و جگر میں اترنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک میرے سوچنے کے طریقے کا تعلق ہے میری عربی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن اور الارکان الاربعۃ میں وہ ذہن بہت حد تک سامنے آگیا ہے، پھر بھی میں نے آپ کی تحریر سے استفادہ کیا اور اس کے بہت سے حصوں سے اتفاق ہے‘‘۔
دوسرا مکتوب(17 مئی 1970ء): ’’آپ کا مقالہ ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ یہ ایک پُرمغز اور فکرانگیز مقالہ ہے۔ آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اور ان کو نظرانداز کرنے کی اس عالمِ اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرے میں اِس دور میں ملی ہے، اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصے میں آئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کون غور کرے؟ یا وہ لوگ ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں، اور جو اہل ہیں ان کو ترکی کے پچھلے دور کے علماء کی طرح اپنی دوسری مصروفیتوں سے فرصت نہیں۔ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ کا قیام اسی سلسلے کی ایک ناچیز کوشش تھی، مگر اس کو ابھی تک کوئی موزوں آدمی نہ ملا۔ ہمارے صاحبِ ثروت طبقے کو نہ اس کی سمجھ ہے نہ توفیق کہ جو نوجوان فاضل اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور قدیم وجدید پر ان کی ایک حد تک نظر ہے ان کو معاشی حیثیت سے بے فکر اور اس کام کے لیے فارغ کردیں۔ میں پہلے بھی اس کام کے لیے زیادہ موزوں نہ تھا اور اب تو نظر کی کمزوری نے بالکل ہی معذور کردیا ہے۔ اگر کبھی امنگ پیدا ہوتی ہے تو ’’تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے‘‘ کا مصرع پڑھ کر خاموش ہوجاتا ہوں۔ آپ ان سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر خود ہی جواب دینے کی کوشش کریں اور اپنی فکر و مطالعہ پوری احتیاط وتوازن کے ساتھ پیش کریں تو شاید یہ بات دوسروں کے لیے تحریک بن جائے اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ بہرحال میں نے اس تحریر سے استفادہ کیا اور اب شکریے کے ساتھ آپ کو واپس کررہا ہوں۔‘‘ (حوالہ سابق، صفحہ 59)
معاصر اسلامی فکر، مولانا عبدالماجد دریابادی کا احساس:
مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ معاصر اسلامی فکر میں مذکور امور ومسائل سے متعلق اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’یہ سارے مسائل ہیں واقعی نازک، اور جب تک خود مخاطبین کی ہی ذہنیت بدل نہ جائے پوری کامیابی کی توقع بھی نہیں‘‘۔ (حوالہ سابق)
معاصر اسلامی فکر پر نظرثانی کا کام
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا یہ مقالہ پہلی بار مجموعہ خطوط ’’اسلام، معاشیات اور ادب‘‘ میں ضمیمہ کے طور پر شائع ہوا۔ اس کے بعد ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمیں شائع ہوا، اور پھر ترجمان القرآن کے شکریے کے ساتھ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ نے اس مقالے کو ’’عصرِ حاضر میں اسلامی فکر۔ چند توجہ طلب مسائل‘‘ کے عنوان سے اپنے یہاں اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ ’’ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا شمار عالم اسلام کے نامور اصحابِ علم اور ماہرینِ معاشیات میں ہوتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں انہوں نے نہایت بالغ نظری کے ساتھ ان مباحث کی نشاندہی کی ہے جو دین وشریعت کی تعبیر وتشریح اور امتِ مسلمہ کو درپیش فکری چیلنجوں کے حوالے سے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں زیربحث ہیں‘‘۔ (جولائی 2002ء، صفحہ20)
2006ء میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی گزارش پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس مقالے پر نظرثانی فرمائی، مولانا امین عثمانی کی خواہش تھی کہ مقالے کو چونکہ ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ڈاکٹر صدیقی نے دنیا بھر کے اسفار بھی کیے ہیں اور دنیا بھر کے مفکرین کے ساتھ تعامل بھی رہا ہے، چنانچہ ان کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس پر نظرثانی کردی جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی مرحوم نے اس مقالے میں حواشی کے تحت متعدد اہم اضافی نوٹس درج کرائے، اور متعدد جگہوں پر اپنی رائے میں تبدیلی بھی ظاہر کی ہے۔ اس طرح یہ مقالہ پہلی بار کتابی صورت میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے شائع ہوا۔ اس کے مقدمہ میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:
’’2006ء کے اواخر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس میں اٹھائے گئے سوالات پر مزید غور و بحث کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مجھ سے فرمائش کی کہ اس حقیقت کے پیش نظر کہ مقالہ لکھے کافی وقت گزرا اور اس عرصے میں دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی، اس میں اضافہ کروں تاکہ اسے اہلِ فکرونظر کے سامنے تبادلۂ خیالات کے لیے پیش کیا جائے۔ میں نے یہ اضافے متنِ مقالہ میں کرنے کے بجائے حاشیے میں کیے ہیں تاکہ ایک تاریخی امانت میں کسی تصرف کے بغیر تازہ افکار سامنے رکھ سکوں۔ واضح رہے کہ یہ مقالہ، یا اس پر تازہ اضافے، کسی معروضی بحث کا نتیجہ نہیں۔ یہ ایک طالب علم کے مطالعے، مشاہدات اور تاثرات کا نتیجہ ہیں جو تبادلۂ آراء کی غرض سے پیش کیے جارہے ہیں۔ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا۔‘‘ (مقدمہ)
معاصر اسلامی فکر کا دوسرا ایڈیشن
2016ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، نئی دہلی سے شائع کیا گیا، یہ وہی ایڈیشن ہے جو 2006ء میں فقہ اکیڈمی سے شائع ہوا تھا، البتہ اس ایڈیشن میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم کے مختصر مقدمہ بعنوان ’’اشارہ‘‘ کا اضافہ ہے۔ مولانا عثمانی مرحوم مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’مایہ ناز مفکر محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے حکمت و دانائی سے احیاء و تجدید کے مضامین کو سامنے رکھتے ہوئے معاصر فکرِ اسلامی کے ان نئے سوالات کو اپنا موضوعِ سخن بنایا جن کا تعلق عملاً مستقبل میں کام کرنے اور مستقبل کی فکری منصوبہ بندی سے تھا۔ ان کا یہ فکر انگیز مضمون ہند و پاک کے جرائد میں کافی پہلے شائع ہوا، ایک مدت کے بعد اندازہ ہوا کہ ان بیش قیمت موتیوں کو دوبارہ منظرعام پر لانا مناسب ہوگا، چنانچہ صاحبِ مقالہ سے گزارش کی گئی کہ وہ اس میں ضروری اضافات فرمادیں۔ انھوں نے علمی دیانت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری حاشیوں کا اضافہ کیا اور ان حواشی میں اہم اشارات درج کیے، حالانکہ یہ اشارات بجائے خود مستقل مضامین کے نکات ہیں۔‘‘ (صفحہ6)
مولانا امین عثمانی مرحوم کی خواہش تھی کہ 2016ء کے ایڈیشن میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم کی جانب سے نظرثانی کا کام ہوجائے، جس کی جانب ایک ہلکا سا اشارہ مذکورہ اقتباس میں بھی موجود ہے، اس سلسلے میں مولانا امین عثمانی مرحوم نے 19 اپریل2016ء کو ڈاکٹر صدیقی کے نام ایک مکتوب بھی ارسال کیا تھا، یہ مکتوب کچھ اس طرح تھا:
’’معظمی ومحترمی! السلام علیکم۔ میں خود حاضر ہوکر ایک بات کہنا چاہ رہا تھا لیکن ای میل کے ذریعے ہی گزارش کرتا ہوں کہ آپ کی ایک قیمتی تحریر ’معاصر اسلامی فکر‘ جو ہم نے شائع کی تھی، اس کے نسخے ہمارے یہاں کافی پہلے ختم ہوچکے اور دوبارہ وہ اب تک چھپ نہیں سکی۔ برادر ابوالاعلیٰ صاحب چاہتے ہیں کہ اسے شائع کریں، البتہ ساتھ میں ہماری بھی اور ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ اگر روزانہ تھوڑا تھوڑا سا وقت آپ دے دیں اور اس میں ضروری اضافات کرادیں تو ایک بہت قیمتی چیز اہلِ علم کے ہاتھوں تک جلد سے جلد پہنچ جائے گی۔ اگر روزانہ پندرہ منٹ بھی آپ کا قیمتی وقت مل جائے تو ابوالاعلیٰ صاحب آپ کے پاس بیٹھ کر ضروری نکات بشکل اضافات نوٹ کرلیں گے اور پھر آپ کو دکھا بھی دیں گے۔ والسلام، امین عثمانی‘‘۔
لیکن اُس وقت تک ڈاکٹر صدیقی مرحوم صحت کے اعتبار سے خاصے کمزور ہوگئے تھے، استحضار بھی پہلے جیسا نہیں تھا، کچھ وقت دہلی میں رہتے تھے اور زیادہ وقت بچوں کے ساتھ امریکہ میں گزرتا تھا، چنانچہ یہ ایڈیشن بغیر کسی اضافے کے جوں کا توں شائع کردیا گیا۔
آئندہ سطور میں ’معاصر اسلامی فکر‘ میں موجود کچھ اہم نکات کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
نفاذِ اسلام اور عوامی تائید کا حصول
اسلامی تبدیلی ایک ہمہ گیر تبدیلی کا نام ہے، ذہنی اور فکری تبدیلی کا پہلو اس کا محض ایک حصہ ہے۔ معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور نظم وانصرام کے پہلو اس تبدیلی کے اہم ترین عناصر میں شمار کیے جاسکتے ہیں، عوامی تائید اور قیادت کی منتقلی اس تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن محض عوامی تائید کا حصول اور قیادت کی منتقلی سے بات پوری نہیں ہوتی ہے، اس تناظر میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے درج ذیل پیراگراف پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، پہلا پیراگراف 1970ء کے متن کا ہے، جبکہ دوسرا پیراگراف 2006ء کے ایڈیشن سے ہے، اس پیراگراف میں گزشتہ مؤقف پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ 1970ء کی عبارت یہ ہے:
’’آج مسلمان دانشوروں میں ایک معتدبہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے، اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابلِ عمل سمجھتا ہے، اور دورِ جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کرکے ان کی قیادت شک وریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین ودنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانشوروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے اور اس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے، نہ اس بگڑے ہوئے ’’مذہبی مزاج‘‘ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علماء اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے، مگر معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور امورِ مملکت کے نظم وانصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔‘‘(صفحہ13۔15)
اس متن پر2006ء کا تنقیدی حاشیہ درج ذیل ہے:
’’نفاذ اسلام کے داعیہ اور اس سلسلے میں عوامی تائید کے حصول کے تعلق سے متن میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے گزشتہ بیس برسوں کی تاریخ کی روشنی میں پڑھ کر آج منہ بدمزہ ہوجاتا ہے۔ خواہی نہ خواہی، دورِ جدید میں شریعت کو ’نافذ کرنے کے عزم‘ کی مثال طالبان قرار پاتے ہیں، مگر اس مثال کو اسلامی قبول کرنے سے عقلِ عام اور فطرتِ سلیم اِبا کرتی ہے۔ آنکھیں بند کرکے چند حدود کے نفاذ کو اسلامی نظام کا قیام نہیں کہا جاسکتا۔ رہیں وہ کوششیں جو پاکستان، ایران اور سوڈان میں کی جاتی رہیں، تو وہ سیاست، دکھاوے اور لیپاپوتی کے کثیف غلافوں میں ملفوف ہونے کے سبب ابھی طبع مسلم پر کوئی ایجابی تاثر چھوڑنے میں ناکام ہیں۔ متنِ مقالہ میں قیادت کی تبدیلی پر بڑا زور ہے، جیسے کہ یہی فتحِ مبین کی کنجی ہو۔ آج یہ بھولے پن کی بات (Naive) معلوم ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کا انحصار مسلم معاشرے کے کسی گوشے میں موجود نئے لیڈروں کی قیادت وسیادت بروئے کار آنے میں نہیں۔ اس کے لیے فردِ مسلم کی سرچشمۂ ہدایت سے راست وابستگی، اسی سے کسب شعور (Inspiration) اور دورِ جدید کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ اسلامی زندگی کے ایک ایسے تصور (Vision) کی ضرورت ہے جس میں مقاصد کو ذرائع پر اور اصل دین کو شرائع پر فوقیت حاصل ہو۔‘‘(صفحہ 15)
سنت کے حوالے سے مطلوبہ مؤقف
’’سنت‘‘ کے حوالے سے جدید اسلامی لٹریچر میں کئی نئی بحثیں موجود ہیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے بھی اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے، ڈاکٹر صدیقی اوّل تو ذخیرۂ حدیث پر مزید بحث وتحقیق پر زور دیتے ہیں، ڈاکٹر صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک اسلامی کے بڑے رہنماؤں کا یہی مؤقف تھا، تیسرا نکتہ یہ کہ جدید دنیا کے مسائل کے تناظر میں بحث وتحقیق کا یہ کام بہت ضروری ہوگیا ہے، اور آخری اوربہت ہی اہم نکتہ سنت میں مصالح اور مقاصد کے اعتبار پر تحقیق کا کام ہے، چنانچہ’’سنت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’اصولی طور پر اس ذخیرے سے استفادے میں ماضی کی بحث وتحقیق کو حرفِ آخر سمجھنے کے بجائے مزید تحقیق وتدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت ودرایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔ چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً و معناً رسو ل کریمؐ کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرے کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلکِ اعتدال ہے جو تحریکِ اسلامی کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیر غور مسائل میں اس مؤقف کو عملاً برت کر دکھانے اورانتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنفید کا ہے۔ یہ کام بھی از حد تشنہ ہے۔
روایت ودرایت کے اعتبار سے احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل میں ہے جن میں دورِ جدید میں اسلامی مؤقف کی ازسرنو تعیین اس لیے ضروری ہوگئی ہے کہ متعلقہ احوال وظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرے میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہوگیا ہے کہ سنت ان مقاصد ومصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاجِ شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے، جن کا اعتبار نبیؐ نے اپنے زمانے کی دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر وتنظیم میں کیا تھا، یا خود ان متعین قواعد وضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔‘‘ (صفحہ:23-24)
2006ء کے ایڈیشن میں اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’گزشتہ تین دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں اس فقرے کی آخری چار سطروں کی طرف ازسرنو دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سنت کی تشخیص، فہم اور تطبیق کا مسئلہ مسلکی تصلب، بسا اوقات تعصب، کا شکار رہا جس کے سبب اس پر عالمانہ بحث وتحقیق کا حق ادا نہ ہوسکا۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ دستوری، سیاسی اور سماجی مسائل میں اپنے اپنے فہم کے مطابق ’سنت‘ کی تطبیق نے گزشتہ دنوں جو شکلیں اختیار کیں ان پر اکثر اسلامیانِ عالم کا منہ بدمزہ ہے۔ مسئلے کی ازسرنو تنقیح اور تحقیق ناگزیر ہے۔
سنت کے فہم کے لیے، خاص طور پر اگر اس کا تعلق دستوری، سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے ہو، پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جس مسئلے سے زیرغور سنت کا تعلق ہے اس میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے زمینی حقائق کیا تھے، لوگوں کی عادات کیا تھیں، ان کے درمیان عرف کیا تھا، نبیؐ نے جو حکم دیا اس کے نتیجے میں صورتِ واقعہ میںکیا تبدیلی درکار تھی۔ نبیؐ کے اس تصرف (Intervention) کا مقصود کیا تھا۔ اگلا قدم یہ ہے کہ ہم اسی مسئلے سے متعلق اپنے زمانے کے ارضی حقائق (Ground Realities) کو سمجھیں، آج کے عادات واعراف کو نوٹ کریں، پھر دیکھیں کہ اس مقصودِ نبوی کی تکمیل کے لیے صورتِ واقعہ میں کیا تبدیلی درکار ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لیے کیا پالیسی اختیار کرنا مناسب ہے۔
ظاہر ہے کہ اس پورے عمل، سنتِ نبوی کی روایت اور درایت کے معیاروں پر تشخیص، ساتویں صدی میں اہلِ عرب کے حالات کی تحقیق، حکم نبوی کے مقصود کی تعیین، پھر عصرِ حاضر کے احوال کو سمجھنا اور ان حالات میں مقاصدِ شریعت کی تحصیل کے لیے موزوں پالیسی تک پہنچنا… اس کام میں قدم قدم پر آراء مختلف ہوں گی۔ اس اختلافِ آراء سے اسلام کے بتائے ہوئے شورائی طریقے سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔ اس کے لیے اختلافی مسائل میں اظہارِ خیال اور تبادلۂ آراء کی وہ فضا بحال کرنا ہوگی جو اسلام کے دورِ زرّیں میں پائی جاتی تھی مگر اب بوجوہ مفقود ہے۔ رواداری اور علمی بحث ومناقشے میں مختلف یہاں تک کہ متضاد آراء کو سننے اور دلیل کا جواب اینٹ پتھر کے بجائے دلیل سے دینے کی روایت کو پھر سے زندہ کرنا ضروری ہے۔‘‘
اسلامی حدود اور تعزیرات پر ایک اضافی نوٹ:
حدود وتعزیرات کے سلسلے میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم جدید سوالات کو پیش کرتے ہیں، اور پھر اس باب میں بھی مقاصدِ شریعت کی روشنی میں غوروفکر پر زور دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’متن میں اٹھائی گئی بحثیں اب کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ خاص طور پر آزادیِ ضمیر اور اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے یا ناپسندی کی صورت میں مذہب چھوڑنے کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں مسلمان موجود ہیں۔ شاذ ونادر کو چھوڑ کر ان تمام ملکوں میں انہیں اپنے مذہبی آداب ورسوم کے ساتھ رہنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ مغربی ممالک سے مسلسل نئے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو آزادیاں مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ممالک میں عزیز رکھتے ہوں ان سے مسلم اکثریت والے ممالک کے غیر مسلموں کو محروم رکھا جائے! عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ دہرے معیار نہ اختیار کیے جائیں۔ جہاں تک دوسرے حدود کا سوال ہے، ان کے نفاذ کو ’شبہات‘ کی بنا پر معطل یا مؤخر کرسکنے پر اتفاق ہے۔ نفسیات، جینیات(Genetics) اور جرم وسزا سے تعلق رکھنے والے دوسرے علوم کے اضافات اورانکشافات نے نئے شبہات کو جنم دیا ہے جن سے صرف اس بنا پر صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم فقہی لٹریچر میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ سزائیں مقصود نہیں ہوا کرتیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اس باب میں مقاصدِ شریعت کی روشنی میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔‘‘ (صفحہ31۔32)
عائلی قوانین میں اصلاح
گزشتہ ایک صدی میں اسلامی عائلی قوانین کی اصلاح اور اس پر بحث وتحقیق کا کافی کچھ کام ہوا ہے۔ عرب ممالک میں خاص طور پر اس موضوع پر مختلف پہلوئوں سے کام کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے عائلی قوانین میں اصلاح کو بھی معاصر فکرِ اسلامی کو درپیش ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے، خاص طور پر غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کے تناظر میں اس مسئلے پر خصوصی غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعددِ ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی، طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا، حقِ خلع کی تجدید، مطلقہ کے حقوق، ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ، صغیرہ کے نکاح، ولایت اجبار اور خیار بلوغ کے مسائل، نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہے۔‘‘ (صفحہ38۔39)
2006ء میں اس پر لگائے گئے اضافی نوٹ میں ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے حوالے سے چلنے والی سیاست اور مسلم قیادت کی سردمہری پر بہت ہی معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، نیز بدلتے ہوئے حالات میں ان مسائل پر بھی مقاصدِ شریعت کی رعایت کرتے ہوئے ایک متوازن رائے تک پہنچنے پر زور دیتے ہیں:
’’مسلم پرسنل لاز کا مسئلہ ہنوز سیاست اور سیادت کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان بربادی کا شکار ہے۔ متنِ مقالہ میں مذکور حساس اختلافی مسائل پر نئے غور وفکر کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ تکنیکی ترقی، عام خوش حالی، معلومات کی فراوانی، خواندگی اور تعلیم میں اضافے وغیرہ نے انسانی سماج میں عورت اور مرد کے باہمی تعلق اور خاندان کی تنظیم پر جو اثرات ڈالے ہیں ان کو سمجھ کر اس باب میں مقاصدِ شریعت کی تحصیل اور ایک نئے توازن کی بحالی کی کوشش کی جائے۔‘‘
مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک
غیرمسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کا سیاسی مؤقف کیا ہونا چاہیے اور ان ممالک کی سیاست میں مسلم اقلیتوں کا کیا کردار ہونا چاہیے، اس پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی تحریروں میں بہت زور دیا ہے، ’معاصر اسلامی فکر‘ میں بھی اس پر توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیتِ الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ مؤقف نظرثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی، تشکیلِ حکومت اور انتظامِ ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی، معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثرانداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیتِ الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث ومذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔‘‘ (صفحہ41)
یہ کچھ اہم فکری مباحث ہیں جو ڈاکٹر صدیقی مرحوم کی تحریر ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ سے بطور نمونہ پیش کیے گئے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ پوری تحریر بہت ہی سنجیدہ غوروفکر کی طالب ہے۔ فکرِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بہت ہی مفید ہوگا۔
’معاصر اسلامی فکر‘ کے موجودہ ایڈیشن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ:
1970ء کے زمانے میں جبکہ برصغیر کی اسلامی تحریکات ابھی بالکل ابتدائی نوعیت کے مباحث میں الجھی ہوئی تھیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم دنیا بھر کے افکار کا نہ صرف مطالعہ کررہے تھے، بلکہ تحریکِ اسلامی کو درپیش فکری وعملی چیلنجز پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔
2006ء کے ایڈیشن میں موجود حواشی کا مطالعہ اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ اسلامی مفکرین کے یہاں فکری ارتقاء کس طرح رونما ہوتا ہے، اور ان کے لیے اپنی چیزوں پر تنقیدی نظر رکھنا کس قدر ضروری ہوتا ہے، اور اس کے مثبت اور ایجابی نتائج کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے، اس لحاظ سے مولانا مودودیؒ کے افکار کا بھی مطالعہ کیا جانا چا ہیے۔
2006ء کے ایڈیشن میں موجود حواشی میں ایک خاص بات جس کا بار بار تذکرہ ملتا ہے، اور مذکورہ بالا مقامات پر بھی جس کو دیکھا جاسکتا ہے، وہ ہے مقاصدِ شریعت کی رعایت، مقاصدِ شریعت کی روشنی میں غوروفکر، مقاصدِ شریعت کی تحصیل کی کوشش۔ اس پہلو سے بھی معاصر فکر اسلامی کا مطالعہ خاصا مفید ہوگا۔
خاص اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے ’معاصر اسلامی فکر‘ میں جن فکری امور و مسائل کی نشاندہی کی ہے، آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی برصغیر کی اسلامی تحریکات کے یہاں ان کے سلسلے میں کوئی واضح اور قابلِ ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔