میئر کراچی کا انتخابی معرکہ!

صوبائی حکومت کی ایما پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کی گرفتاری

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے مذاق بنادیا ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے یہ کھیل تاحال جاری ہے۔ پہلے بلدیاتی الیکشن نہ کرانا اور پھر بار بار ملتوی کرنا… اور جماعت اسلامی اور اہلِ کراچی کے سخت دبائو پر جب الیکشن ہوجاتا ہے تو اس کے نتائج کو تبدیل کرنا… 7 مئی کے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں تو 15جنوری اور اس کے بعد کی جانے والی دھاندلی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب ہم نے دیکھا، اور ابھی یہ تماشا ختم نہیں ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں افراتفری ہے، پی ٹی آئی حکومت کے نشانے پر ہے اور کراچی میں بھی اس کے منتخب ارکان کو خریدنے اور دبائو میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کسی طرح جماعت اسلامی کا میئر نہ بنے، اور اس کے لیے پیپلز پارٹی تمام حدیں پھلانگ چکی ہے، لیکن جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ان سارے مراحل میں استقامت کے ساتھ اہلِ کراچی کا مقدمہ لڑرہی ہے اوراس نے پیپلز پارٹی کو جہاں ہر ہر موقع پر بے نقاب کیا ہے وہاں اپنی جدوجہد سے پسپا بھی کیا ہے۔

اب کراچی سمیت سندھ کے30 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں کی تقریبِ حلف برداری ہوچکی ہے۔ کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں میں سے 239 یو سی چیئرمین، وائس چیئرمین اور وارڈ ممبرز کی حلف برداری ہوئی۔ حلف برداری کی تقاریب کے لیے مختلف مقامات مخصوص کیے گئے تھے، الیکشن کمیشن نے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر مقرر کیا تھا جنہوں نے بلدیاتی نمائندوں سے حلف لیا۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے کامیاب امیدواروں نے حلف اٹھایا۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے خوف اور پستی کو دیکھا جائے، اُس نے ریاست کی طاقت استعمال کرکے پی ٹی آئی کے 6 ارکان کو حراست میں بھی لیا۔ اس گرفتاری پر جماعت اسلامی نے شدید احتجاج کیا اور جماعت اسلامی کی پبلک ایڈ کمیٹی نے گرفتار تین نمائندوں کو رہائی دلوائی، رہا ہونے والوں میں صدر یوسی 6 کے وسیم شیرازی، صدر یوسی 8 کے سلمان خان اور صدر یوسی 4 کے وائس چیئرمین رحمان آفریدی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے اس کے منتخب نمائندوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، پی ٹی آئی کے ووٹ کم کرکے پیپلز پارٹی اپنا میئر منتخب کروانا چاہتی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت پی ٹی آئی کے تمام گرفتار بلدیاتی نمائندوں کو حلف کے لیے پیش کرے۔ ایک پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین ذیشان زیب نے کراچی میں میئر کا انتخاب روکنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اس پر عدالت نے الیکشن کمیشن اور دیگر کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ یہ گرفتاریاں پولیس نے صوبائی حکومت کی ایما پر کیں، گرفتاریاں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کی موجودگی میں ہوئیں۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے غیر قانونی گرفتاریوں پر شدید احتجاج کیا اور اطلاعات کے مطابق چنیسر ٹاؤن یوسی 5 کے منتخب چیئرمین شاہد انصاری اور وائس چیئرمین رائو وسیم کو جو حلف لینے گئے، حلف اٹھانے سے قبل ہی پولیس گرفتار کرکے لے گئی تھی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاری پر جماعت اسلامی کے نمائندوں کی ریٹرننگ افسر سے تکرار بھی ہوئی تھی۔ اسی طرح صدر ٹاؤن کی یوسی 4 سے تحریک انصاف کے نومنتخب وائس چیئرمین عبدالرحمٰن کو حلف لینے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ مجموعی طور پر 9 مئی کے واقعات کے الزام میں پی ٹی آئی کے 5 کامیاب امیدواروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ رہنما تحریک انصاف ارسلان تاج کے مطابق ہمارے ضلع جنوبی صدر ٹاؤن یوسی چھ کے وسیم شیرازی کو بھی حلف برداری کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ یوسی 8 کے چیئرمین سلمان خان کو حلف برداری کی تقریب میں پولیس نے تعاقب کرکے گرفتار کیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین رفیق آفریدی اور علی رضا سمیت دیگر بلدیاتی نمائندے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ واضح رہے کہ اب تک حلف کے لیے آنے والے پی ٹی آئی کے6 منتخب نمائندوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ نارتھ ناظم آباد یوسی عمر دراز خان سے ایک چیئرمین پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہے۔ رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر کا کہنا تھا کہ آج ایک یوسی چیئرمین اور دو وائس چیئرمین کو گرفتار کیا گیا، کورنگی یوسی پانچ کے چیئرمین امجد کو پہلے ہی گرفتار کرکے سکھر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو گرفتاریوں پر خط لکھیں گے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کے ایم ڈی سی میں نارتھ ناظم آباد ٹائون کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی تقریب حلف برداری میں بطور یوسی چیئرمین الفلاح یوسی 8 اپنا حلف اُٹھایا۔ انہوں نے قومی زبان اردو کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے انگریزی میں حلف اُٹھانے سے انکار کیا اور کہا کہ قومی زبان اُردو کو عزت دیجیے۔ تاہم اسسٹنٹ کمشنر حاذم بھنگوار نے فرمائش کی کہ انگلش میں ہی حلف لے لیں صرف 2منٹ لگیں گے، لیکن حافظ نعیم نے کہا کہ آپ انگریزی میں بولیں ہم اُردو میں بولیں گے۔ اس موقع پر امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومتی اختیارات،وسائل اور سرکاری مشنری کا غلط اور ناجائز استعمال کرکے بلدیاتی انتخابات کے موجودہ مرحلے میں بھی بدترین فسطائیت کا مظاہرہ کررہی ہے، میئر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے جماعت اسلامی کی حمایت اور ساتھ دینے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے نمبر کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کو گرفتار کرکے حلف لینے سے روک رہی ہے۔ دھونس، دھمکی، سیاسی و انتقامی کارروائیوں، گرفتاریوں اور لالچ کے ذریعے وفاداریاں خریدنا اور تبدیل کروانا آئین اور جمہوریت کے ساتھ سنگین مذاق ہے، بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے، ہماری سیٹیں بھی سب سے زیادہ ہیں لیکن بدترین دھاندلی اور فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری جیتی ہوئی سیٹوں پر قبضہ کیا گیا، اس کے باوجود ہم شہر کراچی کے وسیع تر مفاد میں اتفاقِ رائے سے حکومت بنانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کرتے ہوئے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور فسطائیت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے“۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ چنیسر یوسی 5 کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کو عین تقریبِ حلف برداری کے موقع پر گرفتار کیا گیا تاکہ وہ حلف نہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح نارتھ ناظم آباد یوسی 10کا چیئرمین بھی حلف نہ اٹھا سکا کیونکہ اسے پہلے ہی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا، ہم پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کی گرفتاریوں اور پیپلز پارٹی کی فسطائیت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے آخری مراحل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنایا جائے، ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر اور پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے انتقامی اور غیر جمہوری رویّے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے اس مرحلے کو موخر کیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ملک میں کیا کوئی ہے جو دیکھے کہ پیپلز پارٹی جمہوری عمل کے ساتھ کیسا سلوک کررہی ہے! پیپلز پارٹی جمہوریت کی بات کرتی ہے لیکن پورے سیاسی و جمہوری عمل کو یرغمال بناکر رکھا ہوا ہے تاکہ وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام اور سوچ کو مسلط کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، اس طرح کی غلط فہمی ہمیشہ اُن لوگوں کو رہتی ہے جو بیساکھیوں کا سہارا لے کر آتے ہیں اور جب یہ بیساکھیاں ہٹ جاتی ہیں تو وہ زمین بوس ہوجاتے ہیں، پیپلز پارٹی سمجھ لے اسے جس کی بھی حمایت حاصل ہو کراچی کے عوام اُس کے ساتھ نہیں، اس لیے پیپلز پارٹی اپنے تمام تر فاشزم، پیسے کے استعمال اور حکومتی جبر و تشدد کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی تاریخ غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے، 1970ء میں بھی اس نے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور ملک ٹوٹ گیا لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی روش اور طرزعمل تبدیل نہیں کیا۔ 1977ء میں پھر عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ کچھ عرصے قبل سینیٹ کے انتخابات میں نوٹوں سے بھرے بریف کیس بلوچستان بھیجے گئے تاکہ من پسند نتائج حاصل کرسکے، اور پیپلز پارٹی یہی کچھ آج بھی کررہی ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے الیکشن کمیشن کے رویّے اور جانب داری کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ 15جنوری کے بعد الیکشن کمیشن عملاً پیپلز پارٹی کی بی نہیں بلکہ اے ٹیم بن گیا ہے، اس نے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو پورا موقع دیا کہ الیکشن کے عمل پر قبضہ کرے اور بدترین دھاندلی اور نتائج تبدیل کرکے ہماری جیتی ہوئی سیٹوں کو ہتھیا لے، پیپلز پارٹی آج بلدیاتی انتخابات کے اس مرحلے کو فوری مکمل کرانا چاہتی ہے تاکہ وہ موجودہ سیاسی صورت حال سے فائدہ اُٹھائے اور من پسند نتائج حاصل کرسکے، جبکہ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس نے 2009ء سے 2015ء کے درمیان بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے، اور جو انتخابات 2020ء میں ہونے تھے وہ جنوری 2023ء میں ممکن ہوسکے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی حکومتی اختیارات، وسائل اور سرکاری مشنری کا غلط اور ناجائز استعمال کر کے بلدیاتی انتخابات کے موجودہ مرحلے میں بھی بدترین فسطائیت کا مظاہرہ کررہی ہے، میئر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے جماعت اسلامی کی حمایت اور ساتھ دینے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی دھونس، دھمکی، سیاسی و انتقامی کارروائیوں، گرفتاریوں اور لالچ کے ذریعےجماعت اسلامی کے نمبر کم کرنے کی پوری کوشش میں ہے، وہ اس کے لیے وفاداریاں خریدنے کی مہم پر بھی ہے۔ اس صورت حال میں مقتدر قوتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر شہر کراچی کے لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین پیپلز پارٹی پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے اسی طرح کرتی رہی تو ردعمل بھی بڑا آئے گا اور موجودہ حالات میں یہ کسی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ پیپلز پارٹی جتنی بھی طاقت اور فسطائیت کا مظاہرہ کرلے اگر پی ٹی آئی کے کارکن شہر کراچی کے وسیع تر مفاد کے لیے استقامت اور حوصلے کے ساتھ کھڑے رہے تو پیپلز پارٹی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، اور جماعت اسلامی نے اپنی جدوجہد اور استقامت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرکے دکھایا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے منتخب لوگ اس مرحلے پر کمزوری دکھاتے ہیں یا حلف برداری میں حصہ نہیں لیتے یا نہیں آتے تو کراچی کے عوام ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں سب کچھ دیکھ رہے ہیں، اس لیے انہیں بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ عوام کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس وقت شہر کراچی کے وسیع تر مفاد میں اتفاقِ رائے سے جماعت اسلامی کی حکومت بننا ہی شہر کے مفاد میں ہے اور یہ عوام کی آواز بھی ہے۔