سیکورٹی ادارے غافل ثابت ہوئے
ملک کی ایک بڑی دینی سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر خودکش حملہ سانحۂ عظیم ہی ہے۔ اپنے تئیں دہشت گردوں اور منصوبہ سازوں نے مرگِ ناحق کا قطعی بندوبست کررکھا تھا، مگر رب تعالیٰ نے ناپاک اور انسان کُش ارادے کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ نہ صرف سراج الحق اور اُن کے ہمراہی جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی اور دوسرے رہنما محفوظ رہے، بلکہ کارکنوں کا ہجوم بھی محفوظ رہا۔ اگرچہ 6 کارکن زخمی ہوئے جن کی حالت بھی خطرے سے باہر ہے۔ یہ افسوس ناک واقعہ19مئی 2023ء کو پیش آیا۔ سراج الحق بلوچستان کے شمال میں صوبہ خیبر پختون خوا سے متصل ضلع ژوب کے شہر میں جلسہ عام سے خطاب کے لیے روانہ تھے۔ وہ کوئٹہ سے براستہ سڑک ژوب پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے کارکن شہر کے باہر قومی شاہراہ پر نکل آئے تھے۔ استقبالی نعروں کی گونج میں امیر جماعت جلسہ گاہ کی طرف روانہ تھے۔ وہ سفید رنگ کی ویگو گاڑی میں صوبے کے دوسرے رہنمائوں کے ساتھ سوار تھے۔ استقبال کرنے والے کارکن جماعت اسلامی کی جھنڈیاں بلند کیے پیدل گاڑی کے آگے پیچھے، دائیں بائیں جارہے تھے۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر بھی کارکن سوار تھے اور ژوب کے مقامی رہنما ہمراہ جارہے تھے۔گاڑی بیچوں بیچ جارہی تھی کہ اسی اثنا کھلے علاقے ہی میں بدبخت و گمراہ شخص نے دھماکا کیا۔ سراج الحق کی گاڑی کے ساتھ ہی گہرا دھواں بلند ہوا۔ خوش قسمتی سے خودکش جیکٹ کا ڈیٹونیٹر پھٹ گیا جس کی وجہ سے بمبار موقع پر ہی چل بسا۔ بعد ازاں سراج الحق جلسہ گاہ پہنچا دیے گئے، اور یہ طے شدہ جلسہ پورے اہتمام کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
دھماکے کے بعد پروردہ حکومت کی دوڑیں لگ گئیں اور سیکورٹی کے بلند بانگ دعوے شروع کردیے گئے۔ دھماکے کے وقت کی فوٹیج سرکار کی سیکورٹی کا پول کھولتی ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے عمومی تکرار امن ہی کی کرتے ہیں۔ ان کے بعض بڑے طمطراق سے فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ کوئٹہ کے نواح میں کھانا کھانے ہوٹلوں میں نہیں جاسکتے تھے، اب فورسز کی قربانیوں کی بدولت لوگ نصف رات تک گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ہوا یوں کہ12 مئی کو ژوب سے ملحقہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں واقع فرنٹیئر کور کے کیمپ میں 6 مسلح افراد گھس گئے۔ رات بھر اور دن بھر فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ یہ چھ تو مر گئے مگر ساتھ چھ ایف سی اہلکار بھی نشانہ بنے۔ بلوچستان کے اندر شدت پسندوں کے حملوں اور کارروائیوں کی رپورٹنگ پر پابندی ہے، وگرنہ روز صوبے کے کسی نہ کسی شہر اور مقام پر بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور تنصیبات پر حملوں کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہی ہے۔ 20 مئی 2023ء کو کوئٹہ کے نواحی علاقے مارگٹ میں چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں تین ایف سی اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک حملہ آور بھی مارا گیا ہے۔ سراج الحق پر حملے نے سیکورٹی پلان اور ہائی الرٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ حملہ آور بڑی آسانی سے سراج الحق کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لیے وہ اور اس کے سہولت کار پہلے ہی ژوب پہنچ چکے ہوں گے اور بڑی تسلی سے ریکی کرچکے ہوں گے۔ حملہ آور مقامی نہ تھا۔ یقینی طور پر علاقے سے باخبر دہشت گرد سہولت کاروں نے اسے پورا منصوبہ سمجھا کر دیا ہے۔ سیکورٹی ادارے غافل ثابت ہوئے ہیں جن کی پوری مشنری عمران خان اور ان کی جماعت کو تنہا کرنے اور گھیرنے پر مامور ہے۔ سراج الحق پر خودکش دھماکے سے محض کچھ دیر قبل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی مبین خان کو جن کے پاس معدنیات کی وزارت کا قلمدان بھی ہے، ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ سے کوئٹہ پریس کلب لے جاکر تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کرایا گیا۔ مبین خان9مئی کو احتجاج کے تسلسل میں ایم پی او کے تحت جیل میں ڈالے گئے تھے، حالانکہ وہ احتجاج اور پارٹی کی سرگرمیوں میں چنداں فعال نہیں تھے۔ ظاہر ہے اب ان کی جان خلاصی ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے دیگر اراکینِ اسمبلی پر بھی کام ہورہا ہے۔9مئی کے احتجاج کے ردعمل میں ادارے اپنے حق میں مظاہروں کے اہتمام میں لگے ہیں، طرح طرح کے لوگوں سے حق میں ریلیاں نکلوائی گئی ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے مرد و خواتین پارلیمنٹیرین سے پریس کانفرنس کروائی گئی۔ خوشامدی اور موقع پرستوں نے کیا کیا نہیں کہا ہے! دراصل بلوچستان میں حکومت اور سول بیورو کریسی ربڑ اسٹیمپ بن چکی ہے۔ اب پی ڈی ایم کے ساتھ گٹھ جوڑ مزید بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ بلوچستان میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ حکومت اور نام نہاد حزبِ اختلاف سبھی حصے بٹور رہے ہیں۔ آصف علی زرداری الگ کھیل کھیل رہے ہیں۔ چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی، انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ آصف علی زرداری کے بٹھائے ہوئے لوگ ہیں۔ ڈی جی آئی بی، ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ غلام اظفر مہیسر اور سینئر ایم بی آر روش علی شیخ بھی سندھ سے ہیں۔ اس آئی جی پولیس کے ہوتے ہوئے عملاً پولیس کی مزید درگت بن گئی ہے۔ تھانوں اور ایس ایچ او سطح تک تعیناتیاں پیسے لے کر کی جاتی ہیں۔ گویا یہ سب آئندہ ہونے والے عام انتخابات پر اثرانداز ہونے کی تراکیب کا حصہ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اقتدار کی ہوس میں اردگرد سے خود کو بے خبر رکھا ہوا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی جماعتیں آواز اٹھائیں، برائیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کریں۔ طرزِ حکمرانی بری طرح پامال ہے۔ حکومتی خواتین ارکانِ اسمبلی تک بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ نوکریاں فروخت کی جاتی ہیں۔ بعض وزراء نے اپنی وزارت کے ماتحت محکمے ٹھیکے پر دے رکھے ہیں، بدلے میں انہیں ماہانہ ایک متعینہ رقم ملتی ہے۔ یہ سب کچھ اوپر کے گٹھ جوڑ سے ہورہا ہے۔ حاکم و محافظ ان برائیوں میں شراکت دار ہیں۔ نتیجتاً صوبہ بدامنی میں دھنسا جارہا ہے۔ سراج الحق ژوب جلسے اور کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں خراب طرز حکمرانی کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کہتے ہیں کہ: ’’حکومت نے لوگوں کو مسلح افراد کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ ہر ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے دوسرے پر ڈال رہا ہے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد مذمتی بیانات جاری کیے جاتے ہیں اور اس طرح دوسرے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں لوٹ مار عروج پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل تصدیق کرچکا ہے کہ بلوچستان میں بدعنوانی کی شرح 65 فیصد ہے۔ اس صوبے میں کوئی اپوزیشن نہیں، سب حکومت میں ہیں‘‘۔
سراج الحق پر حملہ کرنے والے شخص کی شناخت 29سالہ نوجوان محمد ندیم کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق ضلع مستونگ کے علاقے دشت سے تھا۔ خاندان کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر رہائش پذیر ہے۔ وابستگی دہشت گرد گروہ داعش سے بتا ئی گئی ہے۔ بہر کیف سراج الحق صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر میں ژوب سے کوئٹہ پہنچائے گئے۔