ملک میں جمہوریت ہوگی یا نہیں ہوگی‘ انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے
اس وقت ملک میں ہمہ جہت بحران ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا ہے؟ کوئی اپنی ذمہ داری اور قصور ماننے کو تیار نہیں۔ سیاسی بیانیوں کی ایک دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اور ملک کے اصل ایشوز اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت ملک میں سول سوسائٹی متحرک ہوتی ہوئی نظر آئی ہے اور اُس نے قومی سلامتی کمیٹی کے اس فیصلے ’’تمام سیاسی مسائل کو تصادم کے بجائے جمہوری اصولوں کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے‘‘ کا خیرمقدم کیا ہے، اور چیف جسٹس آف پاکستان، شہباز حکومت اور پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افہام و تفہیم اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تمام اسمبلیوںکے لیے ایک ہی تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے میں سہولت فراہم کریں تاکہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور مساوی شراکت سے آزادانہ اور منصفانہ حقِ رائے دہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے خیال میں کسی پارٹی کو کالعدم قرار دینا نہ صرف ناقابلِ عمل ہے بلکہ خلافِ جمہوریت بھی ہے، ایسی کسی کوشش کے خلاف سخت عوامی ردعمل ہوگا۔ میڈی ایٹرز کی آراء اور کاوشیں لائقِ تحسین سمجھی جارہی ہیں، ان کی تجویز ہے کہ جو تشدد میں ملوث نہیں، خاص طور پر خواتین، صحافیوں اور 18سال سے کم عمر نوجوانوں کو رہا کیا جائے۔ مشترکہ بیان پر سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر مشاہد حسین، نفیسہ شاہ ایم این اے، صدر بی این پی اختر مینگل ایم این اے، محمود خان اچکزئی صدر پی کے میپ، محسن داوڑ ایم این اے، فرحت اللہ بابر پی پی پی، اختر حسین صدر عوامی ورکرز پارٹی، فاروق طارق صدرحقوق خلق موومنٹ اور 150سے زائد اہم شخصیات کے دستخط ہیں۔ ماہرینِ اقتصادیات میں سے ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، سابق وائس چانسلر جی سی حسن شاہ، ڈاکٹر نیر، پروفیسر سرفراز اور دفاعی امور کے ماہر ایئر مارشل شہزاد چودھری، اور بار کے نمائندوں میں چیئرمین پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا، اختر حسین ممبر جوڈیشل کمیشن، عابد ساقی، صباحت رضوی اور بار ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیدار، میڈیا میںسینئر صحافی زاہد حسین، امتیاز عالم، سافما سیکرٹری جنرل حسین نقی، سہیل وڑائچ، مجیب الرحمان شامی، طلعت حسین، اظہر عباس، عاصمہ شیرازی، کاظم خان صدر سی پی این ای، جبار خٹک اور دیگر شامل ہیں۔ اس فہرست میں جتنے بھی نام شامل ہیں، یہ کس قدر غیر جانب دار ہیں اور ان کی رائے میں کتنا وزن ہے اس پر تبصرے کا حق قاری پر چھوڑ دیتے ہیں، تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ سدھائے ہوئے گھوڑے اپنے اصطبل سے دور نہیں رہ سکتے۔ بہرحال ان کی کوششوں کے ابھی تک تو نتائج نہیں ملے، امید ہے کہ چند روز میں مستقبل کا نقشہ سامنے آجائے گا اور واضح ہوجائے گا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی یا نہیں ہوگی، انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔
قومی اور ملّی یادگاروں پر حملے انتہا درجے کے غیر معمولی واقعات ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات فوج کے لیے اسی طرح کا جرم تصور کیے جارہے ہیں جس طرح امریکیوں نے نائن الیون کو جرم تصور کیا تھا اور اس کے بعد پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اب وہی امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز عمران خان کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں، لیکن اٹل فیصلہ ہوچکا ہے کہ زیرو ٹالیرنس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، کچھ بھی ہوجائے جو جو بھی جس طرح بھی نو مئی کے جرائم میں ملوث رہا ہے، اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی، امریکی لابیسٹ فرمز اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں گی۔ ان لابسٹ فرمز نے اگرچہ اپنا کام شروع کردیا ہے، اسی لیے پاکستان میں انسانی حقوق کے متعلق تشویش میں مبتلا ہونے لگے ہیں اور میڈیا میں ان کے منفی بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کانگریس کے 66 ارکان نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھا جس میں کہا گیاہے کہ وہ پاکستان میں ’’مظاہروں پر پابندی اور حکومت کے کئی نامور ناقدین کی موت‘‘ سے پریشان ہوگئے ہیں۔ اس لیے واشنگٹن انتظامیہ دبائو کے تمام حربے استعمال کرے گی تاکہ ڈرا دھمکا کر اپنا مقصد حاصل کیا جاسکے۔ لیکن کور کمانڈر کانفرنس کے فیصلوں کے بعد اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں یہ ناروا مداخلت ناقابلِ برداشت قرار پائی ہے کہ اس سے ریاست پاکستان میں تباہی پھیلانے کا غیرملکی ایجنڈا واضح ہوگیا ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے حالیہ واقعات میں ملک کی دفاعی تنصیبات اور املاک پر حملے کے لیے نوجوانوں اور شہریوں کو اکسایا گیا۔ جن ’’پابندیوں، اموات اور من مانی حراست‘‘ کا امریکی کانگریس کے ارکان نے دعویٰ کیا ہے، ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ امریکی یا تو حقیقی صورتِ حال سے بالکل بے خبر ہیں یا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے پاکستان میں اپنے حامی سیاسی عنصر کی حمایت میں پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ پاکستان میں ماضی میں بھی سیاسی طورپر پُرتشدد واقعات ہوتے رہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شرپسندوں نے دفاعی تنصیبات اور شہدائے وطن کی یادگاروں پر حملے کیے اور توڑ پھوڑ کی۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کچھ طاقت ور افراد جو بااثر اداروں سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے انفرادی اور ادارہ جاتی مفادات کی خاطر ملک کی سیاسی لیڈرشپ کو گود لے کر انہیں عوام پر مسلط کردیتے ہیں چاہے ان میں کوئی قابلیت ہو یا نہ ہو۔ یہ سارا کھیل جو عوام کے نام پر کھیلا جاتا ہے اس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، لیکن ان نامزد افراد کی نااہلیوں اور نالائقیوں کا سارا بوجھ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ برسوں سے جاری اس گھنائونے کھیل کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے میثاقِ جمہوریت اسی لیے کیا۔ لیکن یہ کوئی بڑا سیاسی اور سماجی معاہدہ نہیں ہے، پوری قوم کو پارلیمنٹ کے ذریعے میثاقِ پاکستان کرنا ہوگا، اس میثاق میں پارلیمنٹ کے ساتھ فوج اور عدلیہ بھی شامل ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 6 سمیت جو کچھ بھی آئین میں لکھا ہے اس پر حرف بہ حرف عمل کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ کنگ پارٹی بنانے اور اس کے ذریعے نااہل سیاسی قیادت مسلط کرنے کا کھیل بند کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات کا تجزیہ بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں ریویوکے بارے میں اسٹاف لیول معاہدے کے امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہورہے ہیں۔ اب اس پروگرام کو اسی صورت بچایا جا سکتا ہے کہ اس کی میعاد میں توسیع کردی جائے۔ پروگرام کی میعاد30 جون کو ختم ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کو اب معاہدے کا اعلان کرنا ہوگا یا پاکستانی حکام سے اس پروگرام کی میعاد میں توسیع کے لیے بات چیت کرنا ہوگی، اور توسیع کے دوران پروگرام کا دسواں اور گیارہواں ریویو مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوتی تو پاکستان کے نامکمل پروگراموں کی تعداد میں مزید ایک پروگرام کا اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے کہہ رہا ہے کہ وہ نویں ریویو کو مکمل کرنے کا باضابطہ اعلان کرے، اس کے بعد ہی بات چیت آگے بڑھ سکے گی۔ اگر آئی ایم ایف اپنی تمام تر شرائط منوانے اور پاکستان کی طرف سے پیشگی اقدامات کے باوجود معاہدے پر آمادہ نہیں ہورہا تو اس سے یہی عندیہ مل رہا ہے کہ وہ پاکستان سے مزید کچھ کرنے کا تقاضا رکھتا ہے، یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت معاہدہ کرنے سے کنی کترا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے تمام تقاضے پورے کرنے کے باوجود اگر آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے تو پاکستان کو بھی اس سے دوٹوک بات کرتے ہوئے مزید مطالبات اور شرائط ماننے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک جس طرح پاکستان کی بے لوث اور غیرمشروط معاونت کررہے ہیں اس تناظر میں تو پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے۔