سیاسی عدم استحکام کا عالمی تناظر

بین الاقوامی طاقتوں کا کھیل پاکستان میں کھیلا جارہا ہے

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کا کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اس کھیل کے تانے بانے بین الاقوامی طاقتوں سے ملتے نظر آتے ہیں۔ برطانیہ سمیت پوری دنیا میں اس حوالے سے ایک خاص ردعمل نظر آتا ہے۔ میڈیا اس سیاسی عدم استحکام کو مارشل لا جیسی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں جاری اس تمام معاملے میں برطانیہ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی لندن میں رہائش اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ اور ان کے بچوں کی لندن میں موجودگی بھی ہے۔ اس کے علاؤہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا مرکز بھی اب لندن ہی قرار پایا ہے۔ اس تمام صورتِ حال میں اب یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں کا کھیل پاکستان میں کھیلا جارہا ہے، اور اس کا ہدف پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرکے سوڈان کی طرز پر خانہ جنگی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور حملے محض کوئی سیاسی ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کارروائی تھی۔ شواہد منظرعام پر آنے کے بعد اب یہ کہنا آسان ہے کہ اس میں خود سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ بھی ملوث تھے جو کہ ان مقامات، ان تک رسائی اور ان کی اہمیت و حیثیت سے بخوبی واقف تھے۔ اس ضمن میں اس بات کو بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ خلفشار اُس وقت ہوا جب آرمی چیف خود پاکستان میں موجود نہیں تھے، وہ خلیجی ممالک کے دورے پر تھے۔ لہٰذا ایک اندرونی خلفشار پیدا کرکے اُن کو آرمی چیف کے منصب سے فارغ کرنا اور کسی اور جنرل کو اُن کی جگہ بغاوت کرکے یا دباؤ میں لاکر آرمی چیف لگانا اس کا مقصد تھا۔

یہ سب کیوں ہوا؟ آخر کیا ہوا کہ پوری دنیا میں فوجی آمروں کو پسند کرنے والا مغرب اور اس کا میڈیا یک طرفہ پروپیگنڈا کروا رہا ہے؟ ایک سال قبل اقتدار سے بے دخل کیے جانے والے عمران خان جو کہ خود مغرب اور امریکہ پر اپنی برطرفی کا الزام لگاتے ہیں، اچانک کیوں مغربی میڈیا اور دانش وروں کی آنکھ کا تارا بن گئے؟ کیوں برطانیہ میں بیٹھے سابق فوجی افسران کے سوشل میڈیا پر کھلم کھلا عوام کو گمراہ کرنے اور ان کو بغاوت پر اکسانے کے عمل کو برطانیہ کے قوانین کے تحت گرفت میں نہیں لایا جاسکا؟ کیوں مغرب کا میڈیا پاکستان میں اب مارشل لا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کررہا ہے؟ اور حکومتِ پاکستان کو ان عناصر کے خلاف کارروائی سے باز رکھنے کے لیے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہا ہے؟

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے تانے بانے مغرب سے ملتے ہیں۔ امریکہ اور چین کی جاری سرد جنگ جو کہ اب سیاسی اور معاشی محاذ پر لڑی جارہی ہے، کے لیے خود امریکہ اور اس کے حواری براہِ راست جنگ کے بجائے بالواسطہ جنگ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں، جس کا مقصد چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنا اور اسے پوری دنیا میں تنہائی کا شکار کرنا ہے۔ اس کے جواب میں چین نے بھی اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے دیوارِ چین کو عبور کرکے پوری دنیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے علاوہ خود مغرب کی زبانوں اور ان کے علوم پر دسترس کے ساتھ دنیا بھر میں اپنے دوست بنانے کا منصوبہ بنایا ہے، اس کے تحت پہلے مرحلے میں امریکہ اور برطانیہ کی جامعات میں اپنے نوجوانوں کو حصولِ علم کے لیے بھیجا، ان کو زبان و علوم سکھانے کے ساتھ ساتھ مغرب کے اساتذہ کو خود اپنی جامعات میں مدعو کیا، ان کے ساتھ معاہدے کیے اور اس کے متوازی پوری دنیا میں چین کی مصنوعات کو پہنچانے کے لیے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کی بنیاد بھی رکھی تاکہ کسی بھی مغربی قوت سے آزاد ہوکر چین اپنے ذرائع نقل و حمل خود بنائے اور ان تجارتی راستوں سے آزادانہ طور پر اپنی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچائے۔ اس منصوبے کے ساتھ پوری دنیا اور خاص طور پر اُن ممالک میں جو اس منصوبے کا حصہ تھے، چین نے اپنی زبان سکھانے کے مراکز ان کی جامعات میں قائم کیے۔ پاکستان میں اس منصوبے کا نام سی پیک ہے، لہٰذا اس بڑے منصوبے اور اس کے خدوخال کی وضاحت کے لیے پاکستان کی جامعات میں بھی چین نے سی پیک انسٹی ٹیوٹ قائم کیے۔ عسکری محاذ پر بھی ان ممالک کو ایک خاص حد تک عسکری طور پر امریکی ہتھیاروں اور ان کی ٹیکنالوجی کے علاؤہ چین کی ٹیکنالوجی بھی نہ صرف فراہم کی گئی بلکہ چین کے اشتراک سے اس ٹیکنالوجی کو باضابطہ طور پر منتقل کرکے ہتھیار و طیارہ سازی جیسے بڑے منصوبے بھی مکمل کیے گئے۔ معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ممالک کو چین نے بڑی تعداد میں قرضے بھی فراہم کیے۔ یہ وہ تمام خدوخال ہیں کہ جن میں چین نے عالمی بساط پر اپنی چال چلی ہے۔

پاکستان میں سیاسی حکومتوں نے اپنی تمام تر نااہلی کے باوجود جو ایک مثبت کام کیا وہ سی پیک کا منصوبہ ہے، لیکن 2014ء سے امریکی دباؤ اس منصوبے پر بڑھتا جارہا ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اس میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی سے لے کر خود افواجِ پاکستان کو بھی اس مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ میڈیا اور عدلیہ بھی اس کا حصہ بنائے گئے اور اس کے لیے باقاعدہ طور پر پاناما لیکس جیسے پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی طور پر میڈیا اور عدلیہ کو بروئے کار لاکر سیاسی جماعتوں کو کرپشن زدہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی طور پر پاکستان جو کہ چین کے نہ صرف قریب تھا بلکہ عالمِ اسلام میں اس کی ایک کلیدی حیثیت کے تحت عالمِ اسلام جوکہ مغرب کی چیرہ دستیوں کا شکار تھا، وہاں بھی سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے عالم اسلام میں کسی بھی مثبت کردار اور ایک نیا بلاک بنانے کی راہ کو بھی مسدود کردیا گیا۔

عالمی طاقتوں کی ناپسندیدگی کی اصل وجہ پاکستان کا سی پیک کو جاری رکھنا تھا، اس لیے نہ صرف نوازشریف کو نااہل کروایا گیا بلکہ اس کے بعد بھی کھل کر ایک ایسے منصوبے پر عمل درآمد کروایا گیا جس میں فوجی قیادت سے سی پیک کو رول بیک کرنے اور اس پر کام نہ کرنے کی گارنٹی بھی لی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف اور عمران خان بطور وزیراعظم اس میں استعمال ہوئے، اور اس سے بدترین مثال کیا ہوگی کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے اعلان پر بھی امریکی دباؤ پر فوجی و سیاسی قیادتیں کوئی بڑا ردعمل تک دینے میں ناکام رہیں، اور یہ سب کچھ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورئہ واشنگٹن اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ اس ملاقات میں کشمیر اور کشمیریوں کے عالمی طور پر تسلیم شدہ حقِ خودارادیت پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے نئی حکومت کے قیام کے بعد سے صورتؐ حال تبدیل ہے۔ اب دوبارہ سی پیک کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور ماضی میں کی گئی ناانصافیوں اور سی پیک پر گارنٹی کے لیے خود آرمی چیف کو چین جانا پڑا۔ اور ان کا دورئہ چین اب مغرب کو شدید ناگوار ہے۔ مغرب میں بیٹھے افراد جو کہ فوج کے سابق افسران بھی ہیں، جس قسم کا پروپیگنڈا کررہے ہیں اس پر ان کو عوام کو بغاوت پر اکسانے اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت چارج کیا جاسکتا ہے۔ مغرب میں میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کے قواعد بہت سخت ہیں جس میں کسی بھی ملک کا کوئی بھی شہری ان پر کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن ماضی میں بھی اس ضمن میں کوئی کارروائی خود عدالتوں کی جانب سے اس سرعت کے ساتھ نہیں کی گئی کہ جس طرح کی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ آڈیو، ویڈیو کے ثبوت کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، معاملہ عدالت تک تو گیا لیکن فیصلہ ان کے حق میں آگیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ برطانوی اتھارٹی جو کہ عمران فاروق قتل کیس کے ناقابلِ تردید شواہد اور قاتلوں کی پاکستان آمد تک کی خبر پاکستانی حکام کو دیتی ہے وہ کیونکر اس قتل کے مرکزی ملزم کے خلاف لندن میں کارروائی سے گریزاں رہی؟ وجہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ایسے عناصر کو اپنے پاس بطور اثاثہ رکھا جائے تاکہ وقت پر استعمال کیا جاسکے۔

اب یہی کام پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے حوالے سے کیا جارہا ہے۔ ان تمام افراد کے پروپیگنڈے کا مقصد عمران خان کی محبت سے زیادہ پاکستان اور پاکستان کی افواج کو ہدف بنانا ہے۔ گوکہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کی پوری مہم کے ماسٹر مائنڈ خود امریکہ میں بیٹھ کر یہ کام سر انجام دیتے رہے، اور انہوں نے سرمائے سے لے کر سوشل میڈیا کمپنیوں اور ان کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے ایک ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جیسا کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی مہم کے لیے کیا گیا۔ ان دونوں مہمات میں عوام کو سبز باغ دکھائے گئے اور اس کا انجام اس کے بالکل برعکس نکلا۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم کا بنیادی نکتہ مہاجرین کی آبادکاری کو روکنا تھا، لیکن اب یورپی یونین سے اخراج کے بعد جو ناقابلِ تلافی نقصان برطانوی معیشت کو ہوا ہے اس کو اور افراد کی قلت کو پورا کرنے کے لیے تین گنا سے زائد غیر ملکیوں کو برطانیہ بلایا گیا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی انتخابی مہم میں ڈیم بناؤ سے لے کر چینی باشندوں کی پاکستان میں آباد کاری، سی پیک سے جڑے منصوبوں میں کرپشن، سیاست دانوں کی چوری اور پاک فوج سے بے پناہ محبت جیسے نعرے بروئے کار لائے گئے تھے اور ان کو سوشل میڈیا پر ایک خاص مہم کے تحت پھیلایا گیا۔ آپ کو تحریک انصاف کی2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جھیل والا ڈاکٹر اور اس کی ویڈیو تو یاد ہی ہوگی کہ جس نے امریکہ سے اپنا جھیل والا گھر بیچ کر پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا تاہم وہ تاحال پاکستان نہیں آسکا۔

آج بھی سوشل میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ہی مخصوص بیانیے کو پھیلایا جارہا ہے اور پاکستان میں اچانک فوجی آمریت، فوجی عدالتوں کے قیام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اچھالا جارہا ہے۔ اس ضمن میں خود عمران خان اپنی اقتدار سے علیحدگی کو امریکہ کی سازش قرار دیتے تھے، لیکن وہ بھی اب اس پر بات کرتے نظر نہیں آتے اور نہ ہی مغربی میڈیا اس پر اُن سے سوال کرتا ہے۔ 21 مئی 2023ء بروز اتوار Fareed Zakaria GPS میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عمران خان نے امریکی سازش کے حوالے سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ مغرب اور خاص طور پر برطانیہ میں عمران خان کی میڈیا اور ارکانِ پارلیمنٹ تک رسائی کے لیے ان کا سابقہ سسرال بروئے کار آرہا ہے۔ اسی وجہ سے برطانوی و مغربی میڈیا پر یک طرفہ پروپیگنڈا، اور خاص طور پر ریاست کے اہم اداروں کے خلاف سنگین نوعیت کا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر جاری ہے۔

پاکستان میں آرمی چیف کی عدم موجودگی میں سوڈان جیسے حالات پیدا کرکے عدم استحکام کو مزید گہرا کرنے، سی پیک کو پھر سے رول بیک کرنے اور اندرونی خلفشار کو مزید بڑھانے کی سازش ایک سطح پر تو ناکام ہوئی، لیکن اب دوسرے یعنی میڈیا کے محاذ پر اس کو روکنے، اس کا جواب دینے میں خاطر خواہ کامیابی تاحال نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان اور بیرونِ ملک پاکستانی بھی میڈیا میں اپنا کردار ادا تو کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے قومی شعور کی جس سطح پر ہم موجود ہیں وہاں سے کوئی مثبت تبدیلی کسی سیاسی استحکام اور قومی سوچ کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم نے ماضی سے اگر کچھ سبق سیکھ لیا ہوتا تو ہم دائروں کے سفر سے نکل آتے، لیکن تاحال ہم وہیں ہیں کہ جہاں سے آغازِ سفر ہوا تھا۔ ہجوم کو قوم بنانے میں میڈیا کا کردار مسلمہ ہے، لیکن ہم اس کا استعمال محض اپنی خواہشات کی پیروی کے سوا نہ کرسکے، اور یہی اب برگ و بار لارہا ہے۔