عفودرگزر

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔
(احمد، ترمذی، دارمی)

عفو سے مراد ہے معاف کردینا، اور درگزر سے مراد ہے نظرانداز کردینا۔ پس عفو و درگزر جو تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں، سے مراد ہے کسی کے قصور اور خطائیں معاف کردینا، اُس سے زیادتیوں اور ظلم و ستم کا بدلہ نہ لینا اور ان چیزوں کو معاف اور نظرانداز کردینا۔ غلطی کسی دوست یا عزیز سے ہوئی ہو یا زیادتی کسی دشمن سے ہوئی ہو، وہ شخص معافی مانگے یا نہ مانگے، اُسے بغیر بدلہ لیے یا معاوضہ حاصل کیے معاف کردینا اور اُس کی حرکتوں کو نظرانداز کرنا عفو و درگزر ہے۔ خاص طور پر بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے معاف کردینا بڑے حوصلے کا اور بڑا مشکل کام ہے۔

عفو و درگزر دراصل رب کائنات کی بہت بڑی صفت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں جابجا اپنی اس صفت پر زور دیتے ہوئے اپنے آپ کو غفورالرحیم، تواب الرحیم، غفور، غافر، غفار، حلیم جیسے ناموں سے پکارا ہے۔ اگر اللہ میں یہ صفت نہ ہوتی اور وہ انسانوں کو اُن کے ظلم کے سبب پکڑنے لگتا تو زمین پر ایک جاندار بھی نہ زندہ چھوڑتا (القرآن 61:16)۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بے حساب بڑے بڑے گناہ (خواہ وہ پہاڑوں سے بھی بڑے ہوں اور ریت کے ذروں سے بھی زیادہ ہوں) معاف کردیتا ہے بشرطیکہ وہ خلوصِ دل سے توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ اس بات کو قرآن میں بار بار اجاگر کیا گیا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاف کردینے کی صفت انسان کو بھی عطا کی ہے، خاص طور پر اپنے نیک بندوں کو جیسے انبیائے کرام اور صالحین۔ اللہ کے یہ بندے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ بھلائی سے لیتے ہیں، لوگوں کو اُن کے قصور معاف کردیتے ہیں، اور جب جاہل ان سے تمسخر کرتے ہیں تو اُن کو سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں، اور جب کسی کی خطاؤں پرغصہ آتا ہے تو غصہ پی جاتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں۔ اللہ نے ایسے بندوں کو جنت عطا کیے جانے کا وعدہ فرمایا ہے اور ایسے بندوں کے ثواب کا ذمہ اپنے ذمے لیا ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ بہت بڑے معاف کرنے والے تھے۔ مشرکینِ مکہ آپ ؐاور آپؐ پر ایمان لانے والے مسلمانوں پر تیرہ سال تک مکہ میں ظلم کرتے رہے۔ آپؐ کے رستوں پر کاٹنے بچھائے گئے۔ آپؐ کا سوشل بائیکاٹ (معاشرتی مقاطعہ) کیا گیا۔ کھانے پینے کی چیزیں آپؐ اور آپؐ کے خاندان تک پہنچنے سے روکی گئیں ۔ آپؐ کو مجنون اور شاعر کہا گیا۔ آپؐ پر پتھر برسائے گئے اور آپؐ کے پیروؤں کو دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ پھر آپؐ کو اور آپؐ کے صحابہ کو ہمیشہ کے لیے اپنا شہر اور اپنے گھربار چھوڑ کر مدینہ میں پناہ لینا پڑی۔ مدینہ میں بھی آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو آرام سے نہ رہنے دیا گیا بلکہ مدینہ پر بار بار حملے کیے گئے۔ ان سب مظالم اور زیادتیوں کے باوجود آپؐ نے جب مکہ فتح کیا تو اپنے بڑے بڑے دشمنوں جیسے ابوسفیان، اس کی بیوی ہند ، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابو جہل ، وحشی و غیرہ کو بھی معاف کر دیا اور سب اہلِ مکہ کو بھی۔
اب ہم اس موضوع پر آیاتِ قرآن اور احادیث ِنبوی ؐپیش کرتے ہیں۔
آیاتِ قرآن
1: اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تمہیں نہیں پکڑے گا، لیکن وہ ایسی قسموں پر تمہیں ضرور پکڑے گا جو تم دل کے ارادے سے کھاتے ہو۔ اور اللہ معاف کرنے والا اور بہت بردبار ہے۔ (البقرہ 225:2)
2 :ایک میٹھا بول اور معاف کر دینا اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے ایذا رسانی ہو، اور اللہ بے نیاز اور بردبار ( در گزر اور نرمی کرنے والا) ہے۔ (البقرہ:263:2)
3 :(متقی وہ ہیں ) جو خوش حالی میں اور تنگی میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، جو غصے کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (اٰل عمران 134:3)
4:اگر تم کھلم کھلا نیکی کرو یا چھپا کر کرو یا برائی سے درگزر کرو تو بے شک اللہ بھی بڑا در گزر کرنے والا ( یعنی معاف کرنے والا ) اور قدرت والا ہے۔ (النساء 4: 149)
5 :اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے، مگر جو شخص بدلہ معاف کر دے تو وہ اس کے لیے (اس کے گناہوں کا) کفارہ ہوگا ۔ (المائدہ 45:5)
6 :اے نبیؐ ! عفو و در گزرا اختیار کرو اور نیکی کا حکم دو، اور جاہلوں سے کنارہ کشی کرو۔(الاعراف 7: 199)
7:اور وہ (یعنی یوسف کے بھائی) بولے: اللہ کی قسم! اللہ نے یقیناً تجھے ہم پر فضیلت دی ہے، اور بے شک ہم ہی خطا کار تھے ۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کچھ ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے۔ وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔(یوسف 92-91:12)
8:اور جو لوگ تم میں صاحب ِفضل ہیں اور وسعت ( رزق میں کشادگی ) رکھتے ہیں، وہ اس بات کی قسم ہرگز نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو اللہ کی راہ میں کچھ نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ معاف کرنے والااور مہربان ہے۔ (النور 22:24)
9: اور وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔ (الشوریٰ37:42)
10 :اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پس جو معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (الشوریٰ 40:42)
11: اور جو کوئی اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا بدلہ لیتا ہے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (الشوریٰ43:41:42)
12: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ پس اُن سے ہوشیار رہو ۔ اور اگر تم معاف کر دو اور در گزر کرو اور بخش دو، تو بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ (التغابن 14:64) (باقی صفحہ 33پر)
احادیث نبویؐ:
1 :حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: حضرت موسیٰؑ بن عمران نے عرض کیا: اے پروردگار! تیرے بندوں میں سے تیرے ہاں عزیز ترکون ہے؟ فرمایا: وہ شخص جو قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دیتا ہے۔ (بیہقی )
2 :ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے معاف کردینے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ (مسلم)
3: عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس کے ساتھ ہمیشہ رشتہ جوڑے رکھو جو اسے تم سے کاٹتا ہے، اسے دو جس نے تمہیں مایوس کیا ہو، اور اس کو معاف کرو جس نے تم پر ظلم کیا ہو۔ (بیہقی)
4:ابوکباہا عامر سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: خیرات کی وجہ سے دولت کم نہیں ہوتی، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوئی ظلم شخص معاف نہیں کرتا مگر اللہ روزِ حشر اس کی عزت میں اضافہ کرے گا، اور کوئی شخص اپنے لیے گداگری کا دروازہ نہیں کھولتا مگر وہ اپنے لیے خود ہی غربت کا دروازہ کھولتا ہے- (ترمذی)
5:حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسولؐ اللہ ! میں اپنے غلام یا خادم کا قصور کتنی بار معاف کروں؟ آپؐ خاموش رہے۔ اُس نے پھر عرض کی ، آپؐ خاموش رہے۔ اُس نے تیسری بار عرض کی تو آپؐ نے فرمایا : ہر روز ستّر بار معاف کرو۔ (ترندی)