سہ ماہی حرف نیم گفتہ لاہور

چند روز قبل برادر محترم کاشف علی خان شیروانی صاحب کی ادارت میں جاری ہونے والے مجلے سہ ماہی ”حرفِ نیم گفتہ“ کا پہلا شمارہ موصول ہوا۔ حرفِ نیم گفتہ کے فیس بک پیج سے ایک عرصے سے تعارف ہے اور مجلے کے اجراء سے دلی خوشی ہوئی۔ اداریے میں اس کاوش کی غرض و غایت بیان کی گئی ہے کہ اس میں دینی روایت اور استعماری مطالعے سے متعلق تحریریں پیش کی جائیں گی۔ مدیر مجلہ نے استعمار کے متعلق اس غلط فہمی کی نشاندہی کی ہے کہ یہ بھی ایک دور تھا جو لد گیا۔ اس حوالے سے وہ خاص کر اُن دانش وروں کا ذکر کرتے ہیں جو دینی روایت کو نشانہ بناتے ہیں اور دین میں تجدد کا خواب دیکھتے ہیں۔
اداریے کے بعد پہلی دو تحریرں خود مدیر اور ان کے ساتھی جناب طارق محمود ہاشمی صاحب کی غامدی فکر سے اعلانِ برات پر مشتمل ہیں۔ ہر دو اہلِ علم کا رجوع صرف ان کی غامدی فکر سے طویل مناسبت کی بناء پر ہی اہم نہیں بلکہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جن امور نے ان حضرات کو غامدی صاحب کی فکر سے متنفر کیا، وہی ہیں جن پر غامدی صاحب کے سنجیدہ ناقدین گرفت کرتے آئے ہیں (پردہ، قرات، انکارِ حدیث، نظریہ اتمامِ حجت، وغیرہ)۔ پھر طویل عرصے تک ”المورد“ سے وابستہ رہنے والے ان حضرات کا یہ کہنا کہ کوشش کے باوجود غامدی صاحب اور ان کے دیگر رفقاء ان امور پر تسلی بخش جواب نہ دے سکے، واضح کرتا ہے کہ ہر تنقید کے جواب میں غامدی صاحب کے عقیدت مندوں کا یہ فرمانا کہ غامدی صاحب اور ان کے مؤقف کو سمجھا ہی نہیں گیا محض عذر لنگ ہے (اگر برس ہا برس اس حلقہ فکر سے گہرا علمی تعلق رکھنے والے بھی فکر کو نہیں سمجھ سکے تو یقینا ًکچھ دوش تو اس فکر کو بھی دینا چاہے)۔ شیروانی صاحب نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ غامدی صاحب اپنے پیشرو متجددین سے اس طرح بھی مختلف ہیں کہ ان کے ہاں عامتہ المسلمین سے ہمدردی یا ان کی حمایت کے جذبے کی جگہ ایک طرح کی تحقیر و نفرت جڑ پکڑ گئی ہے اور مغرب میں آباد ہونے کے بعد سے موصوف کی حیثیت comprador دانشور کی سی ہو گئی ہے۔
اس کے بعد طارق محمود ہاشمی صاحب کا طویل مقالہ ہے جس میں انہوں نے سبعہ احرف کی روایت پر جاوید غامدی صاحب کے مؤقف کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے اور موضوع سے متعلق روایت کی سند اور متن پر غامدی صاحب کے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ متن پر اعتراضات کے ضمن میں علامہ سیوطیؒ کے مؤقف کو غلط طور پر پیش کرنے پر گرفت کی ہے۔ اسی طرح سند کے حوالے سے غامدی صاحب کے اس مغالطے کو رد کیا ہے کہ یہ صرف امام زہریؒ کے طریق سے ہی نقل ہوئی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ امام زہریؒ کو تدلیس سے متہم دکھانے کی غلطی واضح کی ہے۔ آخر میں امام مالک اور امام لیث بن سعد کے مابین مراسلت میں امام زہریؒ کے حوالے سے بات کا اصل تناظر بھی بیان کیا ہے کہ اس کا محل امام زہریؒ کی فقہی آراء تھیں نہ کہ ان کی مرویات۔
ایک اور مضمون میں طارق محمود ہاشمی صاحب نے ایک آن لائن اخبار میں صریح علمی سرقے کی نشاندہی کی ہے کہ صاحبِ مضمون نے اسرائیل کے وجود کے حوالے سے مضمون کا 61 فیصد حصہ ڈاکٹر فاروق احمد خان مرحوم کے 2004ء کے مضمون سے چرایا ہے۔ اس سرقے کو واضح کرنے کے بعد ہاشمی صاحب نے اسلامی ادب میں سرقے کے تجزیے کی تاریخ پر مفید علمی مواد اکٹھا کیا ہے۔
استعمار اور جدیدیت پر تنقید کے تناظر میں مغربی مفکرین سے بھی استفادہ ممکن بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے جرمن فلسفی ہانز گیورگ غادامیر (Hans-Georg Gadamer)کی کتاب ”صدق و منھج“ کے مقدمے کا اردو ترجمہ مجلے میں شامل ہے۔ یہ ترجمہ نادر عقیل انصاری صاحب نے کیا ہے۔ کتاب کا موضوع تفہیم یا سمجھنے کے عمل اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل (meta-hermeneutics) ہیں۔
اسی طرح فیلسیا اسمتھ کی ایمے سیزیئر (Aimé Césaire) سے ملاقات کی روداد کے ترجمے کو قارئین کے سامنے ایک تاثراتی تحریر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سیزیئر استعمار کے خلاف مزاحمت کا استعارہ تھے۔ مترجم نے تعارفی نوٹ میں ان کی فکر کا خلاصہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: ”سیزیئر لکھتا ہے کہ استعمار نے نہ صرف مستعمَر اقوام کو تہذیب و تمدن سے تہی دامن کیا بلکہ اس استعماری عمل کے دوران خود مستعمِر کی بھی انسانیت اور تہذیب اس سے جاتی رہی۔“
شمارے میں ایک مضمون شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا بھی شامل ہے جس کا عنوان ہے ”اکبر الٰہ آبادی، نوآبادیاتی نظام اور عہدِ حاضر“۔ فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی کا ایک بڑا طنزیہ مزاحیہ شاعر ہونا تو ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں لیکن ان کی شاعری کی عصری معنویت کا مکمل ادراک نہیں کیا گیا۔ لکھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ملک سے باہر گئے بغیر مغربی تعلیم اور تہذیب کی علامات اور ان کے مضمرات کو جانا اور اس پر اپنے مخصوص اسلوب میں نقد بھی کیا۔ پھر وہ اکبر کی شاعری سے متعدد مثالیں دے کر اپنی بات ثابت کرتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ یہ زیادتی اور نا انصافی ہے کہ اکبر کو ترقی، سائنس، تعلیم، اور صنعت کا مخالف جانا جائے، اکبر ان کے مخالف نہ تھے، انہوں نے تو بس یہ نشاندہی کی کہ یہ چیزیں نو آبادیاتی نظام کا آلہ بن کر رہ گئی ہیں۔
آخر میں نادر عقیل انصاری صاحب کی ایک اور تحریر شامل ہے جس میں انہوں نے امام خطابیؒ کی کتاب ”اعجاز القرآن“ کی ایک مختصر فصل کا ترجمہ مع مفصل حواشی پیش کیا ہے۔ اس فصل میں اعجازِ قرآن کے تاثیر فی النفوس کے پہلو کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ قرآنی اعجاز کا آفاقی پہلو ہے۔ استعمار زدہ علمیت کے اس دور میں اعجاز قرآن کے مباحث اور کتاب الله کے احکام و نصائح کو ایک خاص دور اور جغرافیائی خطے تک محدود کرنے کی نامبارک سعی کے برخلاف قرآن مجید کو دلوں کو جِلا بخشنے کی قوت کا اعجاز القرآن کے فن کی قدیم ترین کتب میں سے ایک کے حوالے سے بیان کرنا معنی خیز بھی ہے اور مجلے کے مقصد سے ہم آہنگ بھی۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کوشش بارآور ہو اور استعمار و استعمار زدہ دانش وروں کی حقیقت کا ادراک عام ہو، تاکہ استعمار کی بساط لپیٹنے کے لیے ایک تحریک بپا ہوسکے۔