”ماہر صاحب کو موت مکہ لائی تھی“۔
”میں تو کہتا ہوں کہ مشاعرہ ہوا ہی اسی لیے تھا کہ ماہر صاحب کو جنت المعلیٰ میں جگہ مل جائے۔“
”اللہ بخشے بڑی اچھی موت پائی۔“
جی ہاں۔۔۔۔ جمعہ 12 مئی کو مغرب اور عشا کے درمیان جنت المعلیٰ کے اُس حصے میں جہاں حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کی قبر ہے، ماہر صاحب کو دفن کیا گیا۔ واپسی میں دفن کرنے والے آپس میں یہی باتیں کر رہے تھے۔
”اس سے ٹھیک پچیس گھنٹے قبل شبِ جمعہ کو ماہر صاحب اپنے میزبان راؤ محمد اختر صاحب کے یہاں سے اس مشاعرے میں جانے کی تیاری کررہے تھے جہاں سے ان کو واپس نہیں آنا تھا۔ مشاعرہ پاکستان کے اُن باشندوں نے منعقد کیا تھا جو جدہ میں مقیم تھے۔ پاکستانی بینک (بینک الجزیر)، پی آئی اے اور چند پاکستانی صاحبِ ذوق حضرات کی مشترکہ کوششوں اور تعاون سے پاکستانی سفارت خانہ جدہ کی سرپرستی میں یہ مشاعرہ ہوا۔ مشاعرہ بلاشبہ تاریخی تھا کہ ان شعرا کو جمع کرلیا گیا تھا جو پاکستان کے کسی بھی شہر میں مشکل سے ایک ساتھ جمع ہوں گے۔ اردو شاعری کے سبع سیارے جمع تھے۔ ان کے علاوہ ایک خاتون شاعرہ بھی تھیں۔ ماہر صاحب کی موت سے یہ مشاعرہ تاریخی بن گیا۔
جدہ میں پاکستان کے اچھے ہنرمند، باذوق، پڑھے لکھے لوگ جمع ہوگئے ہیں جس طرح لندن، نیویارک ہرجگہ اردو کے دلدادہ اس تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں اور مشاعرے میں واہ واہ، اور سبحان اللہ کی آوازیں گونجتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے یہ کراچی یا لاہور کا کوئی ہال ہے۔
توقع کے مطابق پاکستانی سفارت خانے کا وسیع میدان حاضرین سے بھرا تھا۔ ہاشم رضا صاحب نے جو ایک پاکستانی ادیب و شاعر ہیں جو آج کل سعودی عرب میں مقیم ہیں،بڑے ذوق اور محنت سے اس ایوان ادب کو سجایا تھا۔ ڈائس قدیم مغلیہ درباروں کی ”صدر ایوان“ کا نمونہ بنایا گیا تھا۔ ساڑھے نو بجے شب کو حاضرین جمع ہوگئے تھے۔ اس معاملے میں ہم لوگ پابندیِ وقت کا بہت لحاظ رکھتے ہیں البتہ شعرا کو ذرا تاخیر سے آنا بھی چاہیے، ذرا حاضرین کا اشتیاق بڑھے اور گردنیں اٹھا اٹھا کر لوگ ڈائس کی طرف دیکھیں، کچھ لوگ مختلف راستوں پر نظریں جمائیں، رنگ برنگ لباس والے گوشے، رنگین قمقموں کی چلمنیں.. ان کا بھی تو کچھ حق تھا۔ کسی نے کہا: وہ دیکھو جمیل الدین عالی آگئے ذرا ان کے دوہے سننا، وہ رحمٰن کیانی صاحب آئے۔ اتنے میں لوگوں کی نگاہیں ایک تنگ راستے پر مرکوز ہوگئیں، حفیظ جالندھری اسّی سالہ نوجوان، اور ان کے جلو میں بلند قامت، وجیہ و شکیل، ہنستے مسکراتے ماہرالقادری.. ان کے ساتھ اپنے رنگ میں رنگے، اپنی ادا میں مست احسان دانش.. یہ سرور بارہ بنکوی اور وہ اقبال عظیم سب آگئے۔ راؤ اختر خان نے لاؤڈاسپیکر سنبھالا کہ شاعر حضرات اسٹیج پر آجائیں۔ ایک ایک کا نام لیتے جاتے اور وہ خوشنما تکیوں سے لگ کر بیٹھتے جاتے۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ مقامی شعرا میں فلاں صاحب اور فلاں صاحب تشریف لے آئیں۔ اس ضمن میں دو ایک نام ایسے بھی لیے گئے جن کو شعر اور شاعروں سے دلچسپی ضرور ہے مگر شاعری نے کبھی انہیں اپنا محرم نہیں مانا، مگر یہ موقع غنیمت تھا کہ احسان دانش اور ماہرالقادری کی قربت اور ان سے بات چیت کا موقع مل جائے، لہٰذا انہوں نے بھی اس عزت افزائی کو قبول کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا۔ ان ہی آخرالذکر قسم کے لوگوں میں ان سطور کا راقم بھی تھا۔
پہلے مقامی شعراء آئے، یہ اور بات ہے کہ حفیظ و ماہر اور احسان دانش کی موجودگی میں ان ک تابانی یقیناً مدھم پڑ رہی تھی۔ یوں اگر یہی تنہا ہوتے تو بسا غنیمت معلوم ہوتا۔ آغاز ایک تہنیتی انداز کی نظم سے ہوا، ایک پاکستانی نوجوان شمیم اشرف نے غالب کی زمین ”دگر ہے آج، دیوار و در ہے آج“ پر چند اشعار مہمان شعرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پڑھے:
گیتی کے چاند اور ستاروں کو دیکھیے
رشکِ فلک زمیں نہیں ہوتی مگر ہے آج
اردو زبان کی بلند اختری کہ وہ عرب کی سرزمین پر نوازی جائے وہ سرزمین جہاں کا اصلی سرمایہ اسلام سے پہلے بھی زبان تھا۔ اس کی طرف بھی اشارہ تھا۔ مصرعے یاد نہیں کچھ اس طرح کے ٹکڑے یاد ہیں۔
اتنے میں اصل مجلس مشاعرہ شروع ہوئی کہ جن کی خاطر یہ مجمع اکٹھا ہوا تھا اور وہ جن کے نام پر دعوت دی گئی تھی ان شعرا کے کلام سنانے کی باری آئی۔ پہلے خاتون شاعرہ کو دعوت دی گئی تھی۔ وہ ڈائس پر نہیں بلکہ حلقہ خواتین میں بیٹھی تھیں، اپنی پُروقار عمر کے لحاظ سے سنجیدہ تحت اللفظ اشعار سنا کر واپس گئیں۔ رحمٰن کیانی صاحب پکارے گئے۔ معلوم نہیں دوسروں کے لیے تھا یا نہیں مگر میرے لیے تو ایک انداز سخن تھا، بلا کا تسلسل اور بڑی کہنہ مشق روانی۔ تنقید کرنے والوں اور فقرے کسنے والوں کو تو چھوڑئیے، کس کے کلام میں گنجائش نہیں، جمیل الدین عالی صاحب کی شاعری بلند اور آواز اس سے بھی عالی، الفاظ پر بھی قدرت اور آواز پر بھی قابو، ایک لفظ ”طوفان“ یا ”طوفانوں“ کو کسی مصرع میں باندھا تو ایسا محسوس ہوا کہ سننے والوں کے دل بندھ گئے اور اپنی آواز سے اس کو اٹھایا تو ایسا کہ بے ساختہ سب کی نظریں فضا کی طرف اٹھ گئیں کہ سچ مچ طوفان آگیا۔ سرور، اقبال عظیم سب ہی ایسے تھے کہ پورے مشاعرے کو تنہا گرما سکتے تھے۔ اس کے بعد تین بڑوں کی باری آئی۔ ماہرالقادری صاحب… سامنے مجمع سے آوازیں آنا شروع ہوئیں جمنا کا کنارہ‘ جمنا کا کنارا۔ ماہر صاحب نے کہا: نہیں یہ نہیں دوسری چیز سناؤں گا پہلے یہ سنو۔ اس کے بعد دل آویز آواز اور چھا جانے والی شخصیت سے کام لیتے ہوئے یہ اشعار سنائے:
شیرازئہ حیات پریشان ہو گیا
یہ مرحلہ بھی خیر سے آسان ہو گیا
میرے جہانِ دل کو تو ہونا ہی تھا خراب
ان کی بھی ایک نگاہ کا نقصان ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ہر شے کو ہم آواز کیا جاتا ہے
پھر کہیں نغمے کا آغاز کیا جاتا ہے
عشق بھی ایسے مراحل سے گزرتا ہے جہاں
حسن کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے
پھر اسی انداز کے چند شعر اور غزل سنا کر واہ واہ اور سبحان اللہ کی گونج میں اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔ ان کے بعد جناب احسان دانش کا نمبر تھا۔ ان کے اشعار میں ان کے بلند کردار کی جھلکیاں تھیں۔ سنجیدہ، پُراثر اور پُروقار، کہنہ مشقی لفظ لفظ سے نمایاں، زبان نوک پلک سے آراستہ، پڑھنے کا انداز بھی سادہ.. نہ ہاتھ کے اشارے نہ جسم کی حرکت مگر فن تھا کہ گونج رہا تھا۔ قافیے بقول ابوالکلام چیخ رہے تھے۔ انہوں نے جو شعر سنائے ان میں یہ شعر بھی تھا:
رہتا نہیں انسان تو ہوتے نہیں غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
کون جانتا تھا کہ ابھی چند ہی لمحوں میں اس حقیقت کی تجلی ہونے والی ہے۔ احسان صاحب نے جو حقیقت الفاظ میں بیان کی ہے ماہر صاحب جان دے کر اس میں جان ڈال دیں گے۔
ان کے بعد حفیظ جالندھری صاحب سامنے آئے اپنی شہرت کا خمار آنکھوں میں لیے۔ مجمع سے آواز آئی: ”ابھی تو میں جوان ہوں“۔ جواب مسکراہٹ سے دیا اور نعتیہ اشعار سنا کر بیٹھ گئے۔ مشاعرے کا پہلا دور ختم ہوا۔ چائے، شربت کا دور چلا۔ باہر ماہر صاحب پاس بیٹھے لوگوں سے گفتگو کرتے رہے، بار بار پانی پی رہے تھے اور پان بھی چبا لیتے تھے۔ آٹو گراف لینے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوا۔ کسی پر شعر لکھتے اور کسی پر دستخط کرتے رہے۔ اب پتا نہیں وہ کس کی کاپی تھی جس پر انہوں نے آخری دستخط کیے اور قلم کی آخری کش بنی!
مشاعرے کا دوسرا دور بھی پہلے دور کی طرح خاتون سے شروع ہوا اور ماہر صاحب کی باری آئی۔ اس مرتبہ بھی ماہر صاحب اپنے پورے ہوش و حواس، جوش و جولانی کے ساتھ اٹھے اور کراچی نامہ سنایا اور کلفٹن کی سیر کرائی۔ بسوں اور گدھوں کی سواری کا ذکر کیا۔ نقشہ الفاظ میں کھینچ کر دکھایا۔ نئی نسل کے نوجوانوں کے چھپر جیسے بالوں کی ہپی نما ہیئت اور برقع سے بے نیاز خواتین پر بظاہر طنز اور دراصل درد و رنج کا اظہار کیا۔ الفاظ کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی اور معانی کی آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ اور پھر احسان دانش آئے اور وہی حیاتِ دو روزہ کا انجام:
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگادی جائے
کون جانتا تھا کہ ابھی چند منٹوں کے بعد ایک تصویر، بڑی دلآویز اور محبوب تصویر اس چوکھٹے میں لگنے والی ہے، اور نہ اس کو پتا ہے اور نہ کسی کو معلوم۔
حفیظ صاحب آئے مسکراتے، اٹھلاتے”جوانی کے ترانے گا رہا تھا جوانی کے ترانے گا رہا ہوں“ سنانے لگے جس کا ایک شعر یہ بھی تھا:
ہوئی جاتی ہے کیوں بے تاب منزل
مسلسل چل رہا ہوں آ رہا ہوں
اس کے بعد ایک شعر شاعرانہ شوخی اور اردو غزل کے روایتی کردا رمولوی، ر ملا (زاہد، واعظ) پر پھبتی کسنے والا پڑھا:
بہشت میں بھی ملا ہے عذاب شدید
یہاں بھی مولوی صاحب ہیں میرے ہمسائے
مولوی صاحب کا لفظ ادا کرتے وقت ماہر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ ماہر صاحب اپنی جگہ سے ایک ہمک کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور مائیک اپنی طرف سیدھا کرکے بولے ”حفیظ صاحب غلط مقام پر آگئے“ (مطلب یہ تھا کہ بہشت میں مولوی صاحب تو اپنی جگہ پر آئے، حفیظ صاحب غلط مقام پر آگئے کہ ان کو یہ ‘عذاب شدید‘ معلوم ہورہا ہے) یہ کہہ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ حفیظ صاحب نے پھر یہ شعر دہرایا اور پوری طرح پیچھے مڑ کر ماہر صاحب کی طرف اشارہ کیا اور اس کے بعد کا کوئی شعر شروع کیا ہی تھا کہ ماہر صاحب کا سر پیچھے کی طرف ڈھلک گیا۔ احسان دانش، عبداللہ عباس اور مینائی صاحب نے فوراً سہارا دیا اور تکیہ لگا دیا- تجربہ کاروں نے کہا پیر اونچے کرو۔ پیر کے نیچے دو تکیے لگا دئیے گئے۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے آکر قلب کی مالش کی۔ ادھر ماہر صاحب کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جو کسی موٹے آدمی کے سوتے وقت خراٹے بھرنے کی ہوتی ہے لیکن مشکل سے پندرہ بیس سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ آواز بند ہوگئی، آنکھیں بند تھیں، لب سے لب ملے ہوئے تھے۔ کسی نے نبض دیکھی، کسی نے پلک اٹھا کر دیکھا۔ تجربہ کاروں نے اسی وقت آہ سرد بھری۔ نہ جاننے والے کو آس لگی رہی۔ اسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا یہ مریض نہیں لاش ہے۔
اب مشاعرے کی بات چھوڑئیے، وہ تو حسرت کدہ بن گیا، سبھوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ راؤ اختر صاحب جو خصوصی میزبان تھے اور مقامی قوانین سے واقف ہیں انتظام میں لگ گئے۔ لاش سرد خانے میں رکھی گئی۔ یہ صبح ساڑھے تین بجے کا عمل ہوگا۔ پاکستانی وقت میں ڈیڑھ گھنٹے کا اضافہ کرلیجیے، صبح کے پانچ بجے ہوں گے۔ سب سے پہلے پاکستان رابطہ کیا گیا کہ لاش کہاں دفن کی جائے؟ اجازت ملنے پر یہ طے ہوا کہ مکہ مکرمہ میں دفن کیا جائے گا۔ مدرسہ صولتیہ کے ناظم مولانا مسعود سلیم نے اپنی خاندانی روایات اور اپنے والد بزرگ مولانا محمد سلیم ؒ سے تعلقات کو پورے جوش و خروش سے نبھایا۔ لاش مکہ لائی گئی، مولانا مسعود سلیم نے اپنے انتظام خاص میں اپنے فردِ خاندان کی طرح اہتمام سے، سنت کے مطابق اپنی نگرانی میں غسل دلوایا، کفنایا۔ تدفین کے وقت سفیر پاکستان فضل مقیم خاں صاحب اور ان کے ساتھ حفیظ جالندھری صاحب بھی آگئے تھے۔ مغرب کی نماز سے پہلے حرم شریف میں جنازہ لایا گیا۔ مدرسے کے طلبہ، اساتذہ اور جدہ سے آئے ہوئے احباب نے مرحوم ماہرالقادری کی طرف سے طواف کیا۔ نماز مغرب کے بعد حسبِ معمول اعلان ہوا الصلوٰۃ علی المیت الحاضر ۔ جمعہ کا روز تھا اس لیے ہزاروں لوگ روز کے آنے والوں کے علاوہ موجود تھے۔ مجمع اگر پچیس ہزار کا کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا اور اگر اس سے زیادہ کا کوئی اندازہ کرے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ وہاں سے جنازہ کاندھوں پر جنت المعلیٰ کے اُس حصے میں لے جایا گیا جو حضرت خدیجہ ام المومنین کے احاطے سے متصل ہے اور جہاں حاجی امداداللہ علیہ الرحمتہ مدفون ہیں۔ یہاں عام طور سے اموات حجاج کو جگہ نہیں ملتی، یہ مولانا شمیم ( مولانا مسعود سلیم،ناظم مدرسہ صولتیہ) کی کوشش تھی کہ وہاں جگہ مل گئی )۔ مرحوم کی آخری خدمات کا بار مشاعرہ کمیٹی پر نہیں ڈالا گیا بلکہ مولانا شمیم صاحب نے اپنی طرف سے پورا کیا۔
ماہر صاحب کو نہلا کر جب کفن پہنا کر تخت پر لٹایا گیا تو ہر شخص نے دیکھا کہ موت کی بھیانک تصویر نہ تھی، نہ آنکھیں پھٹی تھیں، نہ جبڑا جبڑے سے الگ تھا۔ پلکیں بند، لب ملے ہوئے۔ ایک آرام دہ نیند کی کیفیت چہرے سے نمایا ںتھی، چہرے سے معصومیت اور مانوسیت ٹپک رہی تھی۔ شاید اسی کانام نورانیت ہے۔
اب مرثیہ کہنے والے مرثیہ کہیں، تاریخیں نکالنے والے تاریخی مادے نکالیں، مقا لات لکھیں، خاص نمبر نکالیں۔جانے والا چلا گیا، اپنے رب سے راضی ہو گیا۔ ہنستا مسکراتا، اپنی جگہ، اچھی جگہ، اچھے دن، اچھے لوگوں کے ساتھ سلایا گیا۔ مولانا محمد علی جوہر کی تدفین بیت المقدس کے جوارمیں ہوئی تھی، اس پر مصر کے مشہور شاعر احمد شوقی نے اپنے مرثیے میں ایک ایسا شعر کہا تھا جو آج ماہر القادری پر بجنسہٖ صادق آرہا ہے۔
ترجمہ : خدا کے جوارِ رحمت میں سو جاؤ، تمہارے لیے کوئی اجنبیت نہیں
اس گھر کے سائے میں تم ہو جس گھر کے تم ایک فرد تھے