ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم۔ فکر کے کچھ اہم گوشے

(مکاتیب کے خصوصی حوالے کے ساتھ)

جہاد وقتال سے متعلق غیر معتدل رویوں کی نشاندہی
برصغیر کی تحریکاتِ اسلامی میں جہاد سے متعلق عموماً تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، ایک مولانا مودودی کا، دوسرا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا، اور تیسرا مولانا عبدالعلیم اصلاحی کا۔

ڈاکٹر صدیقی مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور مولانا عبدالعلیم اصلاحی علیہ الرحمہ کی تعبیراتِ جہاد سے بالکل بھی متفق نہ تھے۔ ڈاکٹرصدیقی کا مؤقف تقریباً وہی تھا جو ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی ’’جہاد اور روح جہاد‘‘ اور ’’جہاد اور آیاتِ جہاد‘‘ میں بیان کیا گیا ہے، اور علامہ یوسف القرضاوی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ ’’فقہ الجہاد‘‘ میں پیش کیا ہے، چنانچہ آپ اس موضوع پر ڈاکٹر سبحانی اور علامہ قرضاوی کی کتابوں کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مولانا عبدالعلیم اصلاحی مرحوم ایک عرصے تک جماعت اسلامی ہند کے رکن اور جماعت کی مرکزی مجلس نمائندگان کے ممبر رہے، مولانا اصلاحی جہاد کے سلسلے میں بہت سخت مؤقف رکھتے تھے ، اور کئی پہلوئوں سے جہاد پر آپ کا مؤقف مولانا مودودی کے مؤقف کے مقابلے میں بہت سخت اور آگے کا تھا، آپ نے اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں جو طلبہ اور نوجوانوں کے ایک مخصوص گروہ کے درمیان ایک زمانے میں خاصی مقبول بھی ہوئیں۔ ڈاکٹر صدیقی اپنے ایک مکتوب میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی مرحوم کی جہاد سے متعلق کتاب کے سلسلے میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

’’مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے اپنی ایک تازہ کتاب بھجوائی ہے، جہاد پر۔ پوری دنیا میں کسی کافر حکومت کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان پر حملہ کرکے ان کو ہٹانا ہے۔ جہاد کے لیے امیرالمومنین کا ہونا ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ہی فیصلہ کرے، چھوٹے مسلمان گروہ ایسے حالات میں جیسے کہ آج کل ہیں، اپنے کو جہاد کے لیے آرگنائز کرسکتے ہیں، بلکہ واجب ہے کہ کریں۔ مکی دور اب irrelivant ہے۔‘‘

آگے اس مؤقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سوچنے کی دوباتیں ہیں: (1) جدید دنیا میں طاقت کے استعمال کی جو limitations ہیں، خاص طور پر چھوٹے گروہوں کے لیے، اور اس پروسس کو خفیہ طور پر ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرنے کے جو implications ہیں ان سے ہمارے یہ لکھنے والے کیوں اتنے غافل ہیں۔ (2) دین کے تقاضوں، واجبات کو کتابوں اور زیادہ تر individual historical precedents کی اپنی مخصوص تعبیر کی بنیاد پر متعین کرنا، اس کے علی الرغم کہ اس کے عملی زندگی میں کیا نتائج مرتب ہوں گے، یہ طریقہ فکر ہمیں کہاں لے جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان باتوں سے چشم پوشی کرتے رہنے نے ہمیں brink پر پہنچا دیا ہے، we must do something۔ ‘‘ (حوالہ سابق، صفحہ 290)

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی کے نام ایک اور خط میں اس مؤقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ بات کہ اُس وقت تک جہاد، قتال کرنا ہے جب تک کافر حکومت کہیں بھی ہو اور اسے نص قرآنی ’’حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للّٰہ‘‘سے مستنبط کرنا غور طلب ہے۔ جن ملکوں میں ڈیموکریسی اور آزادیِ مذہب ہے (پوری مغربی دنیا) ان پر منطبق کیجیے، تو ہماری اب تک کی تعبیر absurdمعلوم ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بادشاہ یا سردار قبیلہ نہیں، جو انکار کردے تو اس کو لڑکر ہٹادینا عام لوگوں کو دعوت یا ان کو قبولِ دعوت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ عوام کو دعوت کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ عوام دعوت قبول کرلیں تو حکومت بدلنے کا راستہ کھلا ہوا ہے، پھر لڑائی کیوں اور کس سے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں، ہماری زندگیاں اور ہمارے بہت سے interpretationلوگوں کے قبولِ اسلام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر عوام کسی ملک کے دعوت نہ قبول کریں تو پھر لڑ کر وہاں اسلامی حکومت قائم کرنی ضروری ہے، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ 290-291)

عصرِ حاضر میں دین کی دعوت
جدید دنیا میں دعوتِ دین کا طریقہ کار اور منہج کیا ہوگا، اور اس سلسلے میں کون کون سے اسلوب اختیار کیے جاسکتے ہیں، یہ ایک تفصیلی بحث ہے، جس پر مختلف مصنفین اور داعیوں نے اپنے اپنے تجربات، مطالعات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف پہلوئوں سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے جماعت اسلامی کیرالا کے سابق امیر مرحوم کے سی عبداللہ صاحب کے ایک مقالہ بعنوان ’’غیرمسلموں میں براہِ راست دعوت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں دونکات پیش کیے ہیں، پہلا نکتہ اسلوبِ دعوت سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ دعوت اوراس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں سے متعلق ہے، اسلوبِ دعوت سے متعلق لکھتے ہیں:

’’عصرِ حاضر کے مزاج کو سمجھ کر ہم نے دنیوی مسائل کے حل کو بھی آخرت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنایا اور اس میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ’’میری اطاعت کرو‘‘ صرف نبی مرسل کی دعوت کی شان ہوتی ہے، ہم اس کی نقل نہیں کرسکتے۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’دعوت کیسے دی جائے‘ کا جواب صرف کتابوں میں تلاش کرنے کے بجائے مخاطب فرد اور قوم اور دنیا کو دیکھ، سمجھ کر طے کرنا چاہیے اور ماضی کے دعوتی تجربوں سے بھی سیکھنا چاہیے۔‘‘

آگے دعوتِ دین اور اس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’واقعہ یہ ہے کہ نہ تو مخالفت کی شدت اس بات کی دلیل ہے کہ دعوت ٹھیک طرح دی جارہی ہے، نہ مخالفت نہ ہونے سے لازماً یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ٹھیک طرح نہیں دی جارہی ہے۔ حق وباطل اور حکمت اور خلافِ حکمت انداز کے معیار قرآن وسنت، تاریخ اور آج کے عملی تجربے سے اخذ کیے جانے چاہئیں۔ میرے خیال میں ان میں سے کوئی بات شدتِ مخالفت کو معیارِ حق اور حکمتِ دعوت کی کسوٹی بنانے کی تائید نہیں کرتی‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ 286-287)

حقیقت پسندی کی طرف دعوت
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی مرحوم ڈاکٹر صدیقی کے دیرینہ رفیق تھے، آپ ثانوی درسگاہ رام پور کے مایہ ناز فارغین میں شمار ہوتے تھے، اور جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک مؤثر رکن تھے۔ ڈاکٹر فریدی ایک عرصے تک ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ کے مدیر رہے، اس دوران ڈاکٹر صدیقی سے وہ مختلف فکری اور نظریاتی امور و مسائل پر رائے مشورہ لیتے رہا کرتے تھے۔

ڈاکٹرفریدی مرحوم کے نام ایک مکتوب میں بدلتے ملکی وعالمی منظرنامے کے تناظر میں جماعت اسلامی ہند کی پالیسی وپروگرام میں ترجیحات کے تعین کے مسئلے پر دوٹوک الفاظ میں لکھتے ہیں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اگر تحریک نے بھی اپنے اولویات ( priorities) درست نہ کیں اور اہم تر کاموں کو مرکز توجہ نہ بنایا تو بالکل ناقابل اعتناء اور Irrelevent ہوکر رہ جائے گی‘‘۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جذباتی اپروچ اور جذباتی اپیل والے اسلوب کے سخت ناقد تھے، چنانچہ ڈاکٹر فریدی کے نام ایک مکتوب میں جذباتی اپیل کے بعض مروجہ طریقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور موجود کے سچے اعتراف والی اپروچ اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بعض جذباتی اپیل کے طریقے اس صدی کے شروع سے ایسے استعمال کیے جارہے ہیں کہ جن کا شروع میں فائدہ تھا، مگر اب منفی اثر ہوتا ہے، وہ آپ کی تحریر میں اب بھی پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنی بڑائی اور بہتری، دوسروں سے زیادہ صالح، لائق، ہوش مند، دردمند ہونے کا احساس، اس کی توثیق اور اس احساسِ برتری کو مزید راسخ کرکے اس کی بنیاد پر اپیل: لہٰذا تم ہی انسانیت کو بربادی سے بچاسکتے ہو، مہربانی کرکے آگے بڑھو… عملاً اس طرح سے آگے تو کوئی نہیں بڑھتا، البتہ نفس موٹا ہوتا ہے، احساسِ برتری کی افیون عملی دنیا کی ذلت، کمزوری، لاچاری، خودکردار کی کمزوری اور اخلاقی زوال سے چشم پوشی میں مددگار ہوتی ہے اور بس۔

اس کے بجائے حقیقتِ واقع کی بنیاد پر مسلمانوں کو ان کی موجودہ صورت حال، مادی اور اخلاقی پستی کا خطرناک سطح تک پہنچ جانا دکھلانے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھانے کی کہ اسلام کی دعوت اور خود اسلامی زندگی گزارنے والوں کے لیے اس حالت کو بدلنا ضروری ہے۔

دوسروں کی مظلومیت، کرپشن، اخلاقی زوال وغیرہ پر بھی بعض اوقات تبصرہ اس طرح آتا ہے کہ پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ اپنوں میں بھی یہ مرض عام ہے، اس سے بھی بالواسطہ صرف مسلمانوں کی اَنا کی تشفی ہوتی ہے، قوتِ عمل میں اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (حوالہ سابق، صفحہ: 278-279)

علم وتحقیق کے کام میں معروضیت
علمی اور تحقیقی کاموں میں بھی ڈاکٹر صدیقی معروضیت، حقیقت پسندی اور موجود کے صحیح صحیح اعتراف پر زور دیا کرتے تھے، ڈاکٹر طاہر بیگ صاحب سابق اسسٹنٹ پروفیسر ملائشیا یونیورسٹی نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمت میں مسلمان ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون کے موضوع پر ایک مقالہ بغرض اصلاح ارسال کیا تھا، ڈاکٹر صدیقی اس مقالے پر قدرے تفصیلی نوٹس چڑھانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

’’آخر میں میرا اجمالی تاثر یہ ہے کہ یہ پورا مقالہ ایک ایسی جذباتی ریسرچ کی عکاسی کرتا ہے (اور اس موضوع پر شائع شدہ دوسرے مقالے اور کتابیں بھی اس میں شریک ہیں) جو انیسویں صدی کے آخر ، بیسویں صدی کے ابتدائی نصف کی اسلامی اور Pan Islamic تحریکوں کی پیداوار تھا، جس کے قدم حقائق و واقعات میں کم، خواہشات اور تمناؤں میں زیادہ راسخ تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف دنیا کی بلکہ اسلامی حلقوں کی حالت کافی بدل چکی ہے، اور گزشتہ رجحانات وخیالات پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 241-242)

ہندوستانی مصنف حفظ الرب صاحب کی کتاب ’’نظام سرمایہ داری اور اسلامی معاشیات‘‘ کے حوالے سے مصنف کے نام ڈاکٹر صدیقی کے مکتوب میں بھی یہ اپروچ بہت واضح طور پر نظر آتی ہے، کئی پہلوئوں پر توجہ دلانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

’’آپ کا یہ دعویٰ کہ صرف سود کے خاتمے اور زکوٰۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے۔ افسوس کہ آپ نے دورجدید میں ان مسائل پر اسلامی معاشیات دانوں کی تحریریں بھی نہیں دیکھی ہیں کہ معتدل رائے قائم کرسکیں۔ موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوٰۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے۔ رہے ہندوستانی مسلمان، اور مسلمان ممالک کے مسلمان… تو ان کا اصل مسئلہ پسماندگی ہے۔ ان کے کرنے کا پہلا کام ہنر سیکھنا، محنت کرنا، ایجاد و اختراع، ترقی اور معاشی قوت کا حصول، اور بالآخر دنیا میں اپنی موجودہ کمزوری، لاچاری اور کسمپرسی کی حالت جو اُن کو بھیک مانگنے اور دوسروں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کرتی رہتی ہے، سے نکل کر عزتِ نفس کے ساتھ خودکفیل بلکہ دوسروں کو دینے والے بننے کی کوشش کرنا ہے‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 139-140)

خواتین سے متعلق صحیح علمی اپروچ
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے خطوط میں ایک خط مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے نام بھی ملتا ہے۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ایک عرصے تک ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ رہے، ’اسلام کا نظریہ جنس‘ سلطان اصلاحی مرحوم کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا سلطان اصلاحی کے نام اپنے ایک مکتوب میں ڈاکٹر صدیقی اس کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے متعدد اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جس میں ایک اہم مسئلہ خواتین سے متعلق مؤقف اور اپروچ کا بھی ہے، لکھتے ہیں:

’’کتاب کا لہجہ بدلنا ضروری ہے۔ ہمارے مصنفین نے ابھی تک جو ادب اسلام اور عورت کے عنوان سے پیش کیا ہے اس سے پڑھنے والا یہ تاثر قائم کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دنیا مردوں کے لیے بنائی ہے۔ رہیں عورتیں، تو وہ بھی مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مگر کتاب اللہ صاف کہتی ہے کہ تکلیفِ شرعی مرد کی طرح عورت کے لیے بھی ہے۔ قیامت میں وہ اکیلی مستقل بالذات جواب دہ ہوگی اور وہ خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً میں مرد کی طرح برابر کی مخاطب ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آپ کی تحریر اس تاثر کو کم نہیں کرتی بلکہ اسی مزاج میں بہتی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب مرد ہیں۔ رہی مسلمان عورت، تو اس کا ذکر اس طور پر تو آتا ہے کہ اس سے کس طرح مسلمان مرد لطف اندوز ہو، مگر اس کے آگے اس سے تخاطب مفقود ہے، کیوں؟ اللہ تعالیٰ نے تو ’’وانتم لباس لہن‘‘ کہہ کر بات پوری کی ہے۔

صفحہ 74 پر ایک آدھ جگہ انسان کا لفظ استعمال ہوا، مگر یہاں بھی سیاق سے انسان کے معنی مرد ہی کے بنتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ آپ مسلمان عورت سے مخاطب ہوتے اور بتاتے کہ وہ اس مودۃ اور رحمۃ کو کیسے حاصل کرسکتی ہے اور کیسے دے سکتی ہے، جس کا قرآن کی سورہ 30 آیت 21 میں ذکر ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پچھلی صدی یا اس صدی کے شروع تک مسلما ن علماء جب کتاب لکھتے تھے تو غیرشعوری مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ اسے پڑھنے والے صرف مرد ہوں گے۔ مسلمان عورتیں یا تو ناخواندہ ہوتی تھیں یا علمی کتب ان کی دسترس سے باہر تھیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں یہ صورت حال نہیں رہی۔ مزید برآں اب آپ کی کتاب مغرب کی وہ خواتین بھی پڑھیں گی جن کو اپنی اس رائے کے حق میں دلیل چاہیے کہ اسلام عورت کو برابر کے انسان کا درجہ نہیں دیتا‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 157-158)

مغربی معاشرت پر تنقید میں توازن
امریکہ، یورپ اور مغربی تہذیب ومعاشرت پر تنقید اردو مصنفین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، اس موضوع پر قلم اٹھانے والے اکثر افراد یا تو ثانوی حوالوں پر اعتماد کرتے ہیں، یا پھر سنی سنائی باتوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بنا لیتے ہیں، چنانچہ یہ تنقیدیں اپنے اندر کئی قسم کی کمزوریاں رکھتی ہیں، ان تحریروں میں حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہوتا، معروضیت نہیں پائی جاتی، اکیڈمک معیارات پر پوری نہیں اترتیں، اور پھر ان سے ایک قسم کا منفی رجحان پروان چڑھتا ہے جو بہرحال کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتا۔ مولانا سلطان اصلاحی مرحوم کے نام مذکور بالا مکتوب کے آخر میں ڈاکٹر صدیقی امریکہ اور مغربی دنیا کے طرز معاشرت پر تنقید کے سلسلے میں توازن اور معروضیت اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آپ کا پورا باب اوّل غیرمتوازن ہے۔ اس باب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اسلام کی تعلیمات متعلقہ جنس کے بیان کے لیے مغرب اور امریکہ کی بے راہ روی سے آغاز کیوں ضروری ہے؟ جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا اس سے امریکہ کی زندگی کا یک طرفہ غیرمتوازن نقشہ سامنے آتا ہے جس سے اُن لوگوں کی نظر میں تحریر کا وقار گرتا ہے جو توازن کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح کی تحریروں کا مقصد گزشتہ دنوں زوال کا شکار مسلمانوں کی اَنا کی تسکین رہا ہے۔ اس سے وہ اپنی خرابیاں اور کمزوریاں بھول جاتے ہیں اور جن کے قدموں کے نیچے پامال ہورہے ہیں ان کو گمراہ اور تباہی کے گڑھے کی طرف تیزی سے بڑھنے والا یقین کرکے تھوڑی تسلی ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی تحریروں کا کوئی ایجابی عمل موضوعِ زیربحث میں سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 159)

فکرِ اسلامی کی ازسرنو تشریح کی ضرورت
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مولانا مودودیؒ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تحریر ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ کے حوالے سے بدلتے ہوئے حالات میں فکرِ اسلامی سے متعلق مختلف امور ومسائل کی ازسرنو تعبیر وتشریح پر بھی زور دیتے ہیں:

’’ڈیڑھ دو سال پہلے آپ کی خدمت میں ’’معاصر اسلامی فکرکے چند توجہ طلب پہلو‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ بھیجا تھا، جس کے ذریعے آپ کے سامنے یہ احساس پیش کرنا مقصود تھا کہ عصرِ حاضر میں اسلامی زندگی کی تشریح و تعبیر کے ذیل میں بہت سے امور پر تحریک کا مؤقف ازسرنو تعیین و تشریح کا طالب ہے، جب تک یہ کام نہیں انجام پاتا جدید انسان ہماری قیادت پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ کم سے کم اسے یہ اطمینان تو ہو کہ ہم نے ان امور کے سلسلے میں غوروفکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور رائے بدلنے کی پوری گنجائش ہے! صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری پچھلی بہت سی باتوں پر اب اپنوں کو بھروسہ نہیں رہا۔ خاص طور پر جن لوگوں کو علم حاصل کرنے اور خود سوچنے سمجھنے کا موقع ملا وہ مسائل کے اس پورے باب میں دوسری رائے رکھتے ہیں جس باب کا ذکر میں نے مقالے میں کیا ہے۔ دوسروں کو مطمئن کرنے یا اپنی طرف بلانے میں جب ان مسائل سے متعلق وہ مخصوص آراء پیش نظر رہتی ہیں جو تحریکی حلقوں کی طرف منسوب ہوچکی ہیں تو خود یہ بات تحریک کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ اس بات کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی اور اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ جب سے مغربی ممالک میں اسلامی تحریک کا کام بڑھا ہے اس طرح کے مسائل کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور اب ضرورت اوپر اوپر سے صرف بعض عملی مسائل پر اظہار رائے میں لچک اختیار کرنے کی نہیں بلکہ اصولی طور پر ان مسائل کے حل کے طریقے، انفرادی آزادی کی حدود، اجتہاد واختلاف کی گنجائش اور قرآن کریم اور سنتِ ثابتہ کے متعلقہ نصوص کی تعبیرنو کی ہے‘‘۔ (اسلام، معاشیات اور ادب)
(جاری ہے)