ـ34 ارب روپے خرچ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کی آبادی کو درست شمار کیا جائے
مردم شماری کراچی میں ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ مردم شماری کے نتیجے میں ہی ایک قیمتی ڈیٹا سامنے آتا ہے جسے وسائل کی تقسیم، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دیگر اہم پالیسی فیصلوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم جب مردم شماری میں خامی اور دھاندلی ہو اور شہر کے لوگوں کو کم گنا جائے تو اس کے سنگین نتائج ہوتے ہیں جن کو کراچی کے لوگ ایک عرصے سے بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ مردم شماری کی آخری تاریخ میں مزید 15 دن کی توسیع کی گئی تھی، لیکن تاریخ میں توسیع کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ کوئی خاص عملی کام نہیں ہوا اور روزانہ کی بنیاد پر کچھ آبادی آہستہ آہستہ بڑھانے کا عمل جاری رہا۔ عارضی اعداد و شمار کے مطابق میگا سٹی کی آبادی 18.95ملین ہے، یعنی 2017ء کی مردم شماری کے بعد اس میں صرف 2.85 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی کی حقیقی آبادی 35 ملین کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔
جماعت اسلامی کراچی تمام ایشوز کی طرح اس معاملے میں بھی متحرک ہے، اس کے امیر کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک کراچی کی گنتی پوری نہیں ہوتی مردم شماری کی مدت میں توسیع کی جائے، کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اسے پورا گنا جائے۔ ان کا اس ضمن میں بار بار کہنا ہے کہ ”نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بھی کراچی میں ایک کروڑ سے زائد افراد دوسرے صوبوں کے ہیں جو یہاں رہتے ہیں، اگر مردم شماری میں ماضی کی طرح جعل سازی یا دھاندلی کی گئی اور کراچی کا حق مارا گیا تو اہلِ کراچی کے حق کے لیے ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کریں گے، کراچی کی گنتی پوری کروانے کے لیے آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے، کراچی کی درست مردم شماری پر کسی بھی طرف سے، کسی بھی قسم کی سودے بازی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی کراچی کی گنتی پوری کرنے کے ہمارے مطالبے کو لسانیت کا رنگ نہ دے، کراچی کی آبادی کے درست شمار ہونے سے پیپلز پارٹی کو سندھ میں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ حکومت، کے الیکٹرک اور نیپرا کا ایک شیطانی اتحاد ہے جو اہلِ کراچی کے خلاف بنا ہوا ہے، جون میں کے الیکٹرک کا لائسنس ختم ہورہا ہے اور یہ کمپنی دوبارہ لائسنس کی تجدید چاہتی ہے، اگر ایسا کیا گیا تو یہ اہلِ کراچی کے ساتھ بڑا ظلم اور زیادتی ہوگی۔“
حافظ نعیم الرحمٰن نے مردم شماری سے متعلق ایک پریس کانفرنس کی جس میں نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکریٹری جنرل منعم ظفر خان، نائب امیر راجا عارف سلطان وغیرہ بھی موجود تھے۔ ان کہنا تھا کہ ”ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مل کر کراچی کی درست مردم شماری پر پھر دھوکا دہی کررہی ہیں۔ خانہ شماری میں دھاندلی اور جعل سازی میں سندھ حکومت براہِ راست ملوث ہے۔ کراچی میں 38ہزار ہائی رائز بلڈنگز ہیں جہاں خانہ شماری کے لیے عملہ گیا ہی نہیں۔ گزشتہ 15دنوں میں کراچی میں محض 10لاکھ لوگوں کو شمار کیا گیا۔ ڈیجیٹل مردم شماری پر 34 ارب روپے خرچ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کی آبادی کو درست شمار کیا جائے اور یہاں رہائش پذیر ایک ایک فرد کو خواہ وہ سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی اور اردو سمیت کوئی بھی زبان بولتا ہو اور اس کا تعلق ملک کے کسی بھی حصے سے ہو، اسے کراچی کی آبادی میں ہی شمار کیا جائے۔“ انہوں نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کے وزراء اور خود وزیراعلیٰ سندھ کراچی کی آبادی کی بات کیوں نہیں کرتے؟ ایم کیو ایم کہہ رہی ہے کہ ان کی کوشش سے 40 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، ایم کیو ایم اہلِ کراچی کو جواب دے کہ نواز لیگ کے دور 2017ء میں کی گئی مردم شماری کی 2018ء میں منظوری کیوں دی گئی؟ پیپلز پارٹی کے وزراء کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے جائز اور قانونی حقوق اور مسائل کے حل کی تحریک اور جدوجہد کو لسانیت کا رنگ دیتے ہیں، آج بڑی باتیں کررہے ہیں کراچی کی.. لیکن ایک وقت ایسا تھا جب کراچی میں یہ اپنے جھنڈے تک نہیں لگا سکتے تھے، اور پھر بے نظیر الطاف بھائی کا نعرہ بھی سب کو یاد ہے لیکن جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی لسانیت اور عصبیت کے نعرے اور نفرت کی سیاست کو مسترد کیا تھا اور ہم آج بھی اس کے خلاف ہیں۔ جماعت اسلامی جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام کے بھی خلاف ہے جس نے پورے سندھ کے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔“ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”ہم نے اسلام آباد میں وفاقی ادارئہ شماریات کے طلب کردہ اجلاس میں واضح اور دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ہمارا مطالبہ تاریخ میں توسیع نہیں بلکہ کراچی کی گنتی پوری کرنے کا ہے اور ہم آج بھی یہ کہتے ہیں کہ کراچی کی گنتی ہر صورت میں پوری کی جائے، کیونکہ کراچی کی درست گنتی پر ہی کراچی کے مستقبل کا انحصار ہے اور اسی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کراچی کی نمائندگی اور ملازمتوں و وسائل کی تقسیم ہوگی۔ جب ہماری آبادی ہی درست شمار نہیں ہوگی تو ہمیں ہمارا جائز اور قانونی حق کس طرح ملے گا!“
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ شہر میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ایک سنگین مسئلہ ہے، میٹرک کے امتحانات ہورہے ہیں اور لاکھوں طلبہ و طالبات روزانہ امتحانی مراکز میں بجلی کی بندش کے باعث شدید ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار ہورہے ہیں، وفاقی حکومت
اور نیپرا کے الیکٹرک کو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا پابند بنانے کے بجائے اسے نوازنے کا کام کررہے ہیں، موجودہ اور ماضی کی ہر حکومت اور ہر پارٹی نے کے الیکٹرک کی پشت پناہی کی ہے جس کی وجہ سے ایک نجی کمپنی مافیا کی شکل اختیار کر گئی ہے، کوئی پارٹی اس کے خلاف آواز اُٹھانے پر تیار نہیں، صرف جماعت اسلامی نے اہلِ کراچی سے کے الیکٹرک کی لوٹ مار اور ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے، ہم نے سڑکوں پر بھی احتجاج کیا ہے اور ہم عدالتوں میں بھی گئے ہیں، کے الیکٹرک کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔“ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”جماعت اسلامی نے میڈیا ورکرز کے مسائل کے حل اور صحافی برادری کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اُٹھائی ہے اور ہم آج بھی صحافیوں کے ساتھ ہیں، صحافیوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق دینے کے بجائے ان کو ملازمتوں سے بے دخل کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کے حق کے لیے بھی آواز اُٹھائیں گے۔“