بدامنی کے روز افزوں بڑھتے واقعات
9 مئی2023ء کو کوئٹہ میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج پُرتشدد رہا۔ اس روز صوبے کے مختلف اضلاع میں مظاہرے ہوئے۔ قومی شاہراہیں بعض مقامات پر بند کردی گئی تھیں۔ کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے کارکن ایئرپورٹ روڈ پر قندھار ناکہ کے مقام پر جمع ہوئے، جہاں کوئٹہ چھائونی کا بھی داخلی دروازہ ہے۔ بدقسمتی سے اشتعال اور سخت گیری کا ماحول بنا۔ پولیس کی بڑی نفری موجود تھی۔ شاہراہ رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردی گئی۔ یہ اہم شاہراہ ہے۔ یوں پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کی فضا بنی، لاٹھی چارج ہوا، آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ تحریک انصاف کے وابستگان نے پولیس کی دو گاڑیاں آگ لگا کر جلادیں۔ اسی دوران فائرنگ سے پی ٹی آئی کا ایک 27 سالہ کارکن عمر عزیز سر میں گولی لگنے سے چل بسا۔ گولی کس نے چلائی، پتا نہ چل سکا، چند دوسرے کارکن آنسو گیس کے شیل لگنے سے زخمی ہوگئے، ایک کارکن گولی لگنے سے زخمی ہوا۔ سول اسپتال سے نعش لے جاکر اگلے دن آبائی ضلع لورالائی میں عمر عزیز کی خاموشی سے تدفین کردی گئی۔ پولیس نے پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا، متعدد رہنما و کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ کئی لوگوں نے عدالتوں سے ضمانتیں لے لیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر مبین خان بھی 16ایم پی او کے تحت کوئٹہ جیل منتقل کیے گئے۔
صوبے کے اندر پی ٹی آئی کی تنظیمیں جڑیں قائم کرچکی ہیں۔2018ء کے عام انتخابات سے قبل کئی سرکردہ افراد اس میں شامل ہوگئے، ان میں سردار یار محمد رند، جمالی خاندان کے خان محمد جمالی اور عمر جمالی سرفہرست ہیں۔ سردار ثناء اللہ زہری کے بھائی میر نعمت اللہ زہری آزاد بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے تو شامل ہوگئے، اور اب وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انتخابات میں اس جماعت کو قومی اسمبلی کی 3 اور بلوچستان اسمبلی کی 7 نشستوں پر کامیابی ملی۔ سردار یار محمد رند، خان محمد جمالی، عمر جمالی اور میر نعمت اللہ زہری قبائلی اثر رسوخ والے افراد ہیں اور اپنا حلقۂ انتخاب رکھتے ہیں۔ چنددوسرے بھی کامیاب ہوئے جو یقینی طور پر ’’غیبی تعاون‘‘ کا نتیجہ ہے۔ قاسم سوری کوئٹہ سٹی کے اہم حلقے این اے265سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے نواب زادہ لشکری رئیسانی اور محمود خان اچکزئی کو شکست دی۔ ان کی جیت واضح طور پر مشتبہ ٹھیری۔ لشکری رئیسانی نے الیکشن ٹریبونل سے رجوع کیا۔ ٹریبونل میں52ہزار ووٹوں کی بائیومیٹرک تصدیق نہ ہوسکی۔ قاسم سوری نے سپریم کورٹ سے اسٹے لے لیا۔ اسی اسٹے پر وہ اپنے استعفے تک رکن قومی اسمبلی رہے، یہاں تک کہ قومی اسمبلی توڑ دی اور عدالت کا فیصلہ آیا ہی نہیں کہ قاسم سوری کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا بھی منظور ہوگیا۔ یہ پہلو نظام عدل کے ضعف کی نشاندہی کرتا ہے۔
دراصل خرابیاں ہمہ پہلو ہیں جس سے کوئی بری الذمہ نہیں ہے۔ بلوچستان کو ہمیشہ سیاسی تجربہ گاہ بنایا گیا ہے۔ صوبے کا اصل مسئلہ طرز حکمرانی کا ہے، جسے مہروں کے سپرد کرکے خراب رکھا گیا ہے۔ صوبہ خراب طرزِ حکمرانی کا بدترین نمونہ بنا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ دستخط کنندہ ہے۔ اس مقصد کے لیے ہی اس منش کے فرد کو صوبے کی حکمرانی تفویض کی گئی ہے۔ بلوچستان کے اندر حالات درست ڈگر پر نہیں ہیں۔ اس سنگین بحران سے ملک کا نقصان ہورہا ہے۔ امن کی بہتری کے خواہ کتنے ہی قصیدے
پڑھے جائیں مگر معروضی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ عوام متنفر ہورہے ہیں۔ روز بدامنی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ 12مئی کو ضلع قلعہ سیف اللہ کے مسلم باغ میں فرنٹیئر کور کے کیمپ میں 6 مسلح افراد کا داخل ہونا اور گھنٹوں مقابلہ، اور اس کے نتیجے میں اہلکاروں کا جاں بحق ہونا تازہ نظیر ہے۔کوئٹہ میں19برس بعد34ویں نیشنل گیمز ہورہے ہیں جس میں ملک بھر سے6ہزار سے زائد کھلاڑی شریک ہیں۔ لیکن یہ کھیل دیکھنے کے لیے شائقین موجود نہیں، وجہ امن وامان کی صورت حال ہے۔ عام لوگوں کو کھیل کے میدانوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی، سیاسی جماعتیں متصادم ہیں، کل جس راہ پر تحریک انصاف تھی آج پی ڈی ایم کی13جماعتیں چل رہی ہیں۔ کل گٹھ جوڑ الگ عنوان سے تھا، آج عنوان مختلف ہے جو آئندہ آنے والے انتخابات میں بلوچستان میں ایک اور ناپسندیدہ کھیل کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے نتائج بلوچستان کے مجموعی مفاد کے برخلاف ہی سامنے آئیں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کل تک تحریک انصاف کی حامی تھی، آج اس حکومت اور پی ڈی ایم کے ساتھ کڑی ہے۔ تحریک انصاف کے حامی ہی جام کمال خان کے لیے مسائل بنانے والے، انہیں رخصت کرنے اور ان کی جگہ عبدالقدوس بزنجو کو بٹھانے والے تھے۔