9 مئی فی الواقع وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، اس دن جو کچھ ہوا، اس کی کسی سیاسی کارکن سے توقع کی جاتی ہے اور نہ ہی ماضی میں اس کی کوئی مثال تلاش کی جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان کی عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے احاطے سے گرفتاری کا ردعمل تھا اور یہ اقدام کرنے والوں کو اس سے قبل اس ردعمل کا اندازہ ہونا چاہیے تھا اور اس کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں مؤثر اقدامات بھی بروقت کیے جانے لازم تھے، جو بہرحال موجود نہیں تھے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاہور میں بنیادی طور پر احتجاج تحریک انصاف کی ماضی کی روایات کے مطابق گلبرگ کے لبرٹی چوک ہی میں طے کیا گیا تھا، تاہم جب لوگ جمع ہوگئے اور احتجاجی نعرے بازی ہورہی تھی تو کچھ لوگوں خاص طور پر تین چار خواتین کی طرف سے مظاہرین کو اکسایا گیا کہ وہ یہاں کیا بے کار نعرے بازی کررہے ہیں، انہیں چھائونی میں کور کمانڈر ہائوس کے سامنے پہنچ کر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ چنانچہ مجمع وہاں سے چھائونی کی جانب چل پڑا، اور پھر وہ سب کچھ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کور کمانڈر ہائوس شاہراہ قائداعظم (مال روڈ) جو چھائونی میں داخل ہونے کے بعد عزیز بھٹی شہید روڈ بن جاتی ہے، پر طفیل روڈ اور سرفراز رفیقی روڈ کے درمیان واقع وسیع و عریض عمارت ہے، جس کے باہر ’’جناح ہائوس‘‘ کا کتبہ آویزاں ہے۔ مشتعل افراد نے اس کے سامنے پہنچ کر احتجاجی نعرے لگانا شروع کردیئے جن میں پاک فوج کے خلاف چند مخصوص نعرے بھی شامل تھے، اور دیکھتے ہی دیکھتے چند لوگ ’’جناح ہائوس‘‘ کا گیٹ کھول کر اس کے اندر داخل ہوگئے اور توڑپھوڑ شروع کردی۔ اُن کے پیچھے مزید مظاہرین بھی اندر داخل ہوگئے اور جو کچھ ہاتھ آیا مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر قبضہ کرلیا، یا اسے تباہ و برباد کردیا، حتیٰ کہ کچن میں موجود اشیائے خور و نوش پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ گرد و نواح کے علاقے میں پولیس کی کئی گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کیا گیا اور رات گئے تک وسیع علاقے میں مظاہرین ڈنڈے لہراتے نعرے بازی کرتے رہے، کوئی انہیں روکنے والا تھا، نہ سمجھانے والا۔ اس دوران بعض مشوک لوگ اور سرکاری گاڑیاں بھی وہاں گشت کرتی دیکھی گئیں، مگر کسی نے مظاہرین کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہیں کی۔
’’جناح ہائوس‘‘ کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو بتایا جاتا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے یہ عمارت 1943ء میں ایک لاکھ 62 ہزار روپے میں خریدی تھی۔ یہ عمارت ان کی ملکیت ضرور رہی مگر کبھی ایک دن بھی انہیں اس عمارت میں قیام کا موقع نہیں ملا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد نے قائداعظم کی ہدایت پر اس عمارت کا سودا کیا۔ نامور محقق اور سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’’محمد علی، دولت، جائداد اور وصیت‘‘ میں لکھا ہے کہ قائداعظم جب کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے مسلم لیگی رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے گھر قیام کیا۔ اس دوران قائداعظم ان کے گھر کے حسنِ تعمیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں کہا کہ جب آپ لاہور تشریف لائیں تو وہاں میرے لیے کوئی مکان دیکھیں۔ انہوں نے قاضی عیسیٰ کو یہ تجویز بھی کیا کہ لالہ موہن لال کا مکان برائے فروخت ہے، اگر آپ کو پسند آئے تو میری طرف سے سودا کرلیں۔ قاضی عیسیٰ نے کہا: یہ ضروری نہیں کہ میری پسند آپ کی بھی پسند ہو۔ قائداعظم نے جواب دیا: نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، جو آپ کو پسند ہوگا وہی مجھے پسند ہوگا۔ جناح ہاؤس لاہور جہاں واقع ہے یہ جائداد لالہ شیو دیال سیٹھ کے نام تھی، جو لاہور کی اہم سماجی شخصیت تھے اور تعمیرات سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 1935 ء میں اپنی وفات سے کچھ سال پہلے یہ جائداد خواجہ نذیر احمد کو فروخت کردی جنہوں نے یہ جائداد اپنی بیگم کے نام کردی۔ ان کی بیگم نے یہ بنگلہ لالہ موہن لال بھابن کو فروخت کردیا۔ قائداعظم نے یہ بنگلہ موہن لال سے جولائی 1943 ء میں ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا تھا۔ قائداعظم نے جب یہ مکان خریدا تو اس سے پہلے ہی یہ بنگلہ برطانوی فوج نے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا جس کا ماہانہ کرایہ علامتی طور پر پانچ روپے تھا، کیوں کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت برطانوی فوج کوئی بھی جائداد حاصل کرسکتی تھی۔ جب قائداعظم نے یہ مکان خرید لیا تو فوج کی کرایہ داری کی میعاد ختم ہونے والی تھی، تاہم فوج نے پھر اسی رول کے تحت اس میعاد میں توسیع کرلی۔ قائداعظم اور برطانوی فوجی حکام کے درمیان ڈیڑھ سال خط کتابت ہوتی رہی، کیوں کہ قائداعظم نہ صرف اپنے مکان کا قبضہ واپس لینا چاہتے تھے بلکہ انہیں اس مکان میں ہونے والی تعمیراتی تبدیلیوں پربھی اعتراض تھا۔ اس پر پنجاب کے سیکریٹری داخلہ مسٹر ولیمز نے مداخلت کی اور یکے بعد دیگرے تین آئی سی ایس افسران جی ڈی کھوسلہ، ایس این ہسکر اور شیخ عبد الرحمٰن کو ثالث مقرر کیا کہ وہ فوج اور مسٹر جناح کے درمیان معاملہ حل کروائیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ قائداعظم یہ گھر فوج سے خالی نہیں کروا سکے یا پھر ان کی مرضی کے مطابق کرائے میں 700 روپے کا اضافہ ہوگیا۔ نئے معاہدے کی میعاد اپریل 1947 ء مقرر ہوئی۔ سعد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کرایہ نامہ کی میعاد ختم ہونے سے چند ہفتے قبل ہی 3 جنوری 1947 ء کو قائداعظم کو گیریژن انجینئر لاہور کی طرف سے مراسلہ موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا: لاہور کے ایریا کمانڈر کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو افسوس کے ساتھ مطلع کروں کہ لاہور میں فوجی ضروریات کے لیے عمارتوں کی شدید کمی کے باعث آپ کا مکان بطور فوجی میس کے کام آرہا ہے، آپ کو کرایہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی تاحکم ثانی واپس نہیں کیا جا سکے گا۔ اس عسکری لاچاری کے باعث آپ کی جو دل آزاری ہوئی اس کے لیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔ قائداعظم برطانوی فوج کے اس جواب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے مکان کو ہر صورت واگزار کرانا چاہتے تھے لیکن اسی دوران لاہور ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ پھر وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کی جانب سے 3 جون کا منصوبہ آگیا، جب برطانوی فوجی حکام کو پتا چلا کہ بنگلے کے مالک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نامزد ہوچکے ہیں تو یکم اگست1947 ء کو کرنل اے آر ہارس نے قائداعظم کو ایک خط لکھ کر 31 اگست تک بنگلہ خالی کرکے واپس کرنے کے فیصلے سے آگاہ کردیا۔ لیکن قائداعظم اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث بنگلے کا قبضہ واپس لینے نہیں آسکے تو 31 جنوری 1948 ء تک کرایہ نامے میں توسیع کردی گئی۔ جب لیز کی میعاد ختم ہوئی تو قائداعظم کے نمائندے سید مراتب علی نے، جو پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت سید بابر علی کے والد ہیں، بنگلہ واپس لینے کی کارروائی شروع کی۔ پاکستان کے عسکری حکام نے کسی متبادل جگہ کی دستیابی تک مکان کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کرلی، جس پر قائداعظم نے رضامندی ظاہر کردی۔ قائداعظم کے چار گھروں بمبئی، کراچی اور لاہور میں یہ واحد مکان تھا جہاں قائداعظم ایک دن بھی قیام نہیں کرسکے۔ قائداعظم جب لاہور آتے تھے تو فلیٹیز ہوٹل کے سوٹ نمبر 18 میں ٹھیرتے تھے۔ 1948 ء میں جب وہ بطور گورنر جنرل لاہور تشریف لائے تو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرے اور اپنا بنگلہ دیکھنے کچھ دیر کے لیے یہاں تشریف لائے جہاں انہوں نے اسٹڈی روم میں فوجی حکام کے ساتھ چائے پی اور پھر لان میں تھوڑی دیر چہل قدمی کی۔ جس مکان کو انہوں نے اتنی لگن سے خریدا تھا اس میں ان کا قیام صرف چند لمحوں کا ہی تھا۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد فوج نے محترمہ فاطمہ جناح اور شیریں جناح کو ایک خط بحوالہ نمبر 561/28.Q-3 بتاریخ 18 فروری 1950 لکھا جس میں انہیں 500 روپے ماہانہ کرائے کی پیشکش کی جو سابق کرایہ سے 200 روپے کم تھی۔ معاہدے کے بعد مکان کو دسویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی سرکاری رہائش قرار دے دیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظم کی بہنوں سے یہ مکان خریدنے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ جب جنرل ایوب صدر تھے تو21 مارچ 1959 ء کو بیع نامے پر دستخط ہوگئے اور 16 اپریل 1959 ء کو مکان کی رجسٹری افواجِ پاکستان کے نام ہوگئی۔ اُس وقت جناح ہاؤس کی خریداری کی رقم ساڑھے تین لاکھ روپے جناح ٹرسٹ فنڈ میں جمع کروائی گئی۔ اُس وقت سے لاہور کے کور کمانڈر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس مکان میں رہتے ہیں جو کبھی بانیِ پاکستان کی ملکیت تھا۔
9 مئی کے واقعات سے قبل بہت کم لوگوں کو بانیِ پاکستان سے اس عمارت کے تعلق کا علم تھا، اس کے باہر ’’جناح ہائوس‘‘ کا کتبہ ضرور آویزاں تھا مگر اس عمارت کی حیثیت لوگوں کے نزدیک کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہی کے طور پر تھی۔ عمارت کے اندر بانی پاکستان سے تعلق سے موجود نوادرات کے متعلق بھی عوام کو 9 مئی کے بعد ہی معلومات دستیاب ہوسکیں کیونکہ اس سے قبل تو سیکورٹی حصار کے سبب کوئی عام آدمی اس کے اندر جانا تو بہت دور کی بات ہے، قریب کھڑے ہوکر نظارہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ 9 مئی کے واقعات یقیناً ناقابلِ تصور، ناقابلِ یقین اور ناقابلِ قبول ہیں مگر یہ اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئے ہیں جن کے تسلی بخش جوابات کے بغیر ذہنوں میں موجود خلجان دور نہیں کیا جا سکتا۔
’’جناح ہائوس‘‘ کوئی معمولی عمارت نہیں تھی، یہ لاہور کے مسلح محافظ یعنی کور کمانڈر کی رہائش گاہ تھی جس کے تحفظ کے لیے عام حالات میں ایسے غیر معمولی انتظامات ہوتے ہیں کہ ’’پرندہ پر نہیں مار سکتا‘‘ کا محاورہ صادق آتا ہے، سوال یہ ہے کہ جب مظاہرین وہاں پہنچے تو اس کے محافظ کہاں غائب ہوگئے؟ انہوں نے اپنے وجود کا احساس کیوں نہیں دلایا؟ لوگ اتنی آسانی سے شہر کی اہم ترین اور محفوظ ترین سمجھی جانے والی عمارت میں کیسے داخل ہوگئے؟ فرض کرلیا جائے کہ معمول کے سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ انہوں نے مزاحمت نہ کرنے ہی میں عافیت سمجھی، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ مظاہرین جب لبرٹی چوک سے روانہ ہوئے تو وہاں موجود قومی سلامتی سے متعلق افراد نے لازماً اپنے اعلیٰ حکام کو مطلع کردیا ہو گا کہ مظاہرین کے عزائم کیا ہیں، ان کے طفیل روڈ پر واقع ’’جناح ہائوس‘‘ تک پہنچنے میں لازماً اتنا وقت لگا ہو گا کہ اس اہم فوجی مرکز کی حفاظت کا انتظام کیا جا سکتا تھا، جو نہیں کیا گیا، آخر کیوں؟ گلبرگ سے چھائونی میں داخلے کے راستے پر موجود ناکہ پرفوجی جوان مظاہرین کو روک نہیں سکتے تھے تب بھی اگر مناسب منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو حسب ِمعمول چیکنگ کے بہانے بڑی تعداد میں گاڑیوں کو چیک پوسٹ پر روک کر مجمع کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ ضرور ڈالی جا سکتی تھی اور مزید وقت حاصل کیا جا سکتا تھا، مگر ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہجوم کے راستے میں تھانہ سرور روڈ میں پولیس کی اچھی خاصی نفری موجود تھی، اس کی طرف سے بھی ہجوم کو جو بہت بڑا نہیں تھا، روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ معمول کے حالات میں بھی پولیس لاٹھی، آنسو گیس اور واٹر کینن کا اندھا دھند استعمال کرتی دیکھی جاتی ہے مگر یہاں ایسا کوئی اقدام بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ احتجاج کی روک تھام کے لیے متعین کی گئی پولیس کی نفری نے بھی خاموش تماشائی کی حیثیت ہی سے سب کچھ دیکھتے چلے جانا مناسب کیوں سمجھا؟ رینجرز اہلکاروں کا معمولی مظاہروں کو روکنے کے لیے استعمال اب معمول بن چکا ہے، حتیٰ کہ عمران خان کی عدالتِ عالیہ کے اندر سے گرفتاری کے لیے رینجرز کا استعمال ضروری سمجھا گیا مگر ’’جناح ہائوس‘‘ کے چنڈ منٹوں کے فاصلے پر رینجرز ہیڈ کوارٹرز کی موجودگی کے باوجود انہیں حرکت میں کیوں نہیں لایا گیا…؟ خود مسلح افواج کے دستے گرد و نواح میں گھومتے دیکھے گئے، آخر انہیں اپنے کمانڈر کی رہائش گاہ اور بانی پاکستان کے نام سے منسوب ’’جناح ہائوس‘‘ کے دفاع کے لیے طلب کرنے میں کیا قباحت تھی؟ یہ اور ایسے بہت سے دیگر سوالات تقاضا کرتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کی صاف، شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے اعلیٰ عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔