برطانوی حکومت کا بحران اور غیر قانونی تارکینِ وطن کا تنازع

برطانیہ کے وسط مدتی بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اس شکست کی بنیادی وجوہات میں معاشی بحران اور حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کی پاس داری نہ کرنا شامل تھا۔ 2019ء کے انتخابات میں حکمران جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ برطانیہ پر جاری مہاجرین کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے، لیکن تاحال اس سمت میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔ حکومتِ برطانیہ نے پہلے غیر قانونی تارکینِ وطن کو نئی قانون سازی کے ذریعے روکنے اور غیر قانونی طور پر سمندری راستے سے آنے والوں کو ملک بدر کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے مطابق سمندری راستے سے آنے والوں کو افریقی ملک روانڈا بھیجا جائے گا اور وہ وہیں کیمپ میں مقیم رہیں گے، ان کی روانگی اور وہاں رہائش و خوراک کا انتظام برطانوی حکومت کرے گی۔ لیکن روانڈا کی پہلی فلائٹ سے قبل ہی یورپی عدالت نے اس کو بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی چرچ آف انگلینڈ نے بھی اس قانون کی شدید مخالفت کی تھی۔ اب دوبارہ ترمیم کے بعد گوکہ اس کو دوبارہ قانون بنایا جارہا ہے لیکن اس کے حوالے سے اب بھی یہی تحفظات سر اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس بل پر پارلیمان کے ایوانِ بالا (جس میں چرچ کے نمائندے بھی شامل ہیں) میں شدید بحث و تنقید کی گئی، اس تنقید میں سب سے بلند آواز آرچ بشپ آف کنٹنبری جسٹن ولبائی کی تھی۔ انہوں بطور نمائندہ چرچ آف انگلینڈ اس بل کو غیر اخلاقی قرار دے دیا۔ اس سے قبل بھی چرچ آف انگلینڈ اس بل کے ضمن میں یہ کہہ چکا ہے کہ ریاست برطانیہ کے وسائل خدا کے عطا کردہ ہیں لہٰذا ان پر تمام انسانیت کا یکساں حق ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو کہ برطانیہ کے طول و عرض میں بلند ہورہی ہیں۔

اس وقت ریاست برطانیہ کے عوام میں غلامی اور دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت برطانیہ لانے کے حوالے سے غم و غصے کی ایک شدید لہر ہے۔ امریکہ سے شروع ہونے والی تحریک جو نسلی امتیاز کے خلاف اٹھائی گئی تھی اب مغرب میں ایک توانا آواز ہے، اور بار بار برطانوی عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ دنیا بھر سے لوٹی گئی دولت جو کہ برطانوی حکومت لوٹ کر لائی تھی ان ممالک کو واپس کی جائے۔ اسی حوالے سے غلاموں کی تجارت، انسانوں کو غلام بنانے اور اپنے ممالک میں لاکر ان سے کام کروانے والوں کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ اس ضمن میں خود برطانوی بادشاہ چارلس نے تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تحقیقات تاحال جاری ہیں۔ اس پر چند رپورٹس برطانوی اخبارات میں شائع ہوئیں جن میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ براہِ راست شاہی خاندان بھی غلاموں کی تجارت میں شامل رہا ہے یا ان کے زیر استعمال تجارتی جہاز غلاموں کی تجارت میں استعمال ہوئے۔ تاہم ابھی اس پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔

اب جبکہ برطانوی حکومت نے خود اعلان کیا ہے کہ مہاجرین کی آمد کو ہر سطح پر روکنے کے اقدامات کیے جائیں گے، اور اس کی بنیادی وجہ آبادی کا دباؤ کم اور تعلیم، صحت اور رہائش کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اس حوالے سے 2019ء کے کنزرویٹو پارٹی کے منشور میں بھی یہ بات کی گئی تھی، لیکن حکمران جماعت کے منشور اور عمل میں مکمل تضاد موجود ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے قبل مہاجرین کی سالانہ تعداد 331,000 تھی جو اُس وقت کی بلند ترین سطح تھی، اور یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد کی وجہ سے برطانوی معیشت اور بنیادی سہولیات دباؤ کا شکار ہیں، لہٰذا ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدگی حاصل کرلی گئی۔ لیکن اس کے چھے سال گزر جانے کے بعد اب جبکہ یورپی یونین بھی ساتھ نہیں، جون 2022ء میں سب سے زیادہ مہاجرین کی آمد ہوئی جن کی تعداد 504,000 ہے۔ سال 2023ء میں ایک ہفتہ قبل تک 997,000 مہاجرین برطانیہ آچکے ہیں۔ یعنی یورپی یونین سے اخراج کے بعد سے محض سات برسوں میں مہاجرین کی آمد تین گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ لیکن یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ برطانوی حکومت اتنا زیادہ ریکارڈ رکھنے کے باوجود مہاجرین کی آمد کو روکنے میں کیوں ناکام ہے؟ ان سوالات کے جوابات سیاست سے بلند ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی بنیادی طور پر اس نعرے کو محض ووٹ بینک میں اضافے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد خود یورپی باشندوں نے برطانیہ میں رہنے کے بجائے اپنے وطن واپس جانے کو ترجیح دی جس کے سبب پوری برطانوی معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا اور حالات اتنے سنگین ہوئے کہ ٹرانسپورٹ کے لیے ڈرائیوروں کی قلت کے باعث فوج کی باقاعدہ مدد لینی پڑی۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے شعبوں میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف طالب علموں کی ایک بڑی تعداد بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے بھی ویزے جاری کیے گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے نعرے تو لگا رہی ہے لیکن وہ خود بڑی تعداد میں نئے پروگرام کا اعلان کرکے لوگوں کو برطانیہ بلا رہی ہے۔ اس ضمن میں برطانوی شہریت کے لیے بھی قوانین میں نرمی کی جارہی ہے اور سرمایہ کاری کرنے والوں یا کاروباری شخصیات کو بھی آسان شرائط پر شہریت دی جارہی ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں بھی اپنی شناخت باقی رکھنے کے لیے ہانگ کانگ اور یوکرین کے تین لاکھ باشندوں کو صرف ایک سال میں برطانیہ لایا گیا ہے۔ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغان باشندوں کو برطانیہ لانے کے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے، ان کی تعداد بھی ان تین لاکھ کے علاؤہ ہے۔ ان تارکین وطن کو باضابطہ طور پر وظیفہ، خوراک اور رہائش بھی برطانوی حکومت فراہم کررہی ہے اور اس پر یومیہ 5.5 ملین پاؤنڈ کے اخراجات ہیں۔

برطانیہ میں اس وقت تین اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کا تعلق بھی مہاجرین کے خاندانوں سے ہی ہے۔ خود وزیر داخلہ سوئیلا براومین، وزیراعظم برطانیہ رشی سونک اور اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کے خاندان بھی بطور مہاجر برطانوی سرزمین پر آئے تھے۔ اب وزیر داخلہ سوئیلا براومین شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ ہاؤس آف لارڈز میں ان پر شدید تنقید کی گئی اور یہ بات بتائی گئی کہ ان کا خاندان بھی اس سرزمین پر مہاجر ہی بن کر آیا تھا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ان کا خاندان قانونی طور پر یہاں ہجرت کرکے آیا تھا اور وہ اب غیر قانونی طور پر سمندری راستے سے برطانیہ آنے والوں پر پابندی لگانا چاہتی ہیں۔ اس سال سمندری راستے سے برطانیہ آنے والوں کی تعداد 45000 ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، اور جس طرح حکومت سخت اقدامات کا عندیہ دیتی ہے اسی طرح ان کی آمد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہاؤس آف لارڈز کی بحث میں بھی اس بات کا بار بار ذکر کیا گیا کہ یہ افراد جرم کرنے کے بعد بھاگ کر برطانیہ نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمد کی بنیادی وجہ معاش ہے۔ سمندری راستے سے برطانیہ آنے کے عمل کو جرم قرار دینے پر برطانوی افواج کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈینٹ نے ایک واقعے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ایک افغان پائلٹ کہ جس کو وہیں افغانستان میں چھوڑ دیا گیا تھا، سمندری راستے سے برطانیہ میں جان بچانے کے لیے داخل ہوا۔ اگر ہم اس کو جرم قرار دیں گے تو لوگ جان بچانے کے لیے کہاں جائیں گے؟

برطانوی حکومت خود بھی مہاجرین کی آمد کے حوالے سے تضادات کا شکار ہے۔ ایک جانب وزیر داخلہ مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہتی ہیں تو دوسری جانب دیگر وزراء کا خیال ہے کہ اگر مہاجرین واپس چلے گئے تو ان کی مقامی وزارت پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ دنوں طالب علموں کے خاندانوں کی آمد پر وزیر داخلہ پابندی لگانا چاہتی تھیں لیکن وزیر تعلیم آڑے آئے، اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح پوری دنیا سے آنے والے طالب علموں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ لہٰذا اس پالیسی پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ تاہم برطانیہ کا معاشی بحران سنگین ہے اور اب حکومت کی غلط پالیسیوں سے اس میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ پوری دنیا سے لوٹی گئی دولت تو شاید ان ممالک میں واپس نہ جاسکے لیکن ان ممالک کے باشندے اس سرزمین پر آکر اس کا خراج ضرور وصول کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسکاٹ لینڈ کے شاہی قلعے ایڈنبرا کیسل میں جانا ہوا جہاں شیرِ میسور ٹیپو سلطان شہید کے ہتھیار جنگی میوزیم میں رکھے گئے ہیں اور اس کے ساتھ لوٹا گیا مال بھی موجود ہے۔ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد ہی دراصل برصغیر پر برطانوی راج کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔ سوا دو سو سال کے بعد بھی وہ ہتھیار اور ٹیپو سلطان کی ذاتی اشیاء تو اس مملکت کے باشندوں کو واپس نہ مل سکیں لیکن آج خود اسکاٹ لینڈ کا حاکم اسی سرزمین سے ہجرت کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جو فاتح تھے وہ آج خود مفتوح ہیں، اور اس تاریخی قلعے سے کچھ فاصلے پر ٹیپو سلطان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والا حمزہ یوسف بطور فرسٹ منسٹر بیوٹ ہاؤس میں مقیم ہے۔

یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جو سب کو یاد رکھنا چاہیے۔ آج برطانیہ کے اندر سے مہاجرین کے حق میں اور لوٹی ہوئی دولت ان ممالک کو واپس کرنے کی آوازیں اسی تاریخی عمل کا تسلسل ہیں۔ برطانوی عوام کو بھی اس پر نہ صرف شرمندگی ہے بلکہ وہ اس کے خراج میں اب نسلی تعصب کو پیچھے چھوڑ کر اپنی قیادت کے لیے بھی مہاجرین کو قبول کررہے ہیں۔ برطانیہ اور اس کی سیاست میں دو سو سال میں ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے، اور اب اس کا احساس خود برطانوی عوام کو بھی ہے جس کو وہ مثبت طور پر نہ صرف قبول کررہے ہیں بلکہ ان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید بھی کہہ رہے ہیں۔ آئندہ آنے والا انتخاب بھی معیشت کی بحالی اور مہاجرین کے حوالے سے ہی لڑا جائے گا اور یہ دونوں اب باہم مربوط بھی ہیں، اس میں جس کا بیانیہ مضبوط ہوا وہ کامیاب ہوگا، لیکن شاید اب برطانوی عوام کنزرویٹو پارٹی کو دوبارہ موقع نہ دیں۔ اس کا فیصلہ اگلے سال عوام کو ہی کرنا ہے۔