سیاسی تصادم کا مرکزی نکتہ !

ملک میں75 برسوں سے ایک کھیل جاری ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو

ملک میں خانہ جنگی جیسی کیفیت ہے۔ ایک طرف عمران خان صحیح یا غلط، ہر طریقے سے اقتدار پر قبضے کے لیے بے تاب ہیں، تو دوسری طرف پی ڈی ایم ان کا راستہ روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کررہی ہے۔ یہ رسّاکشی ملک کو اندرونی خطرات سے دوچار کررہی ہے۔ عدلیہ کی جانب سے عمران خان کو ملنے والے ریلیف کے خلاف حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام نے عدالتِ عظمیٰ کے سامنے احتجاج کیا اور دھرنا دیا، جس کا مقام تبدیل کرنے کے سلسلے میں مولانا سے حکومتی وزرا کے مذاکرات بھی ہوئے، تاہم مولانا راضی نہیں ہوئے، اور ایک دن کا دھرنا دیا جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کے راہ نما بھی شریک ہوئے۔ ریڈ زون دھرنے کے وقت مکمل طور پر جے یو آئی کے کارکنوں کی گرفت میں رہا جنہوں سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیج لگایا۔ دھرنے میں صرف یہی پیغام تھا کہ عمران خان کے لیے عدالتی سہولت کاری بند کی جائے۔

اسلام آباد میں پی ڈی ایم کا دھرنا بھی ایک بڑی خبر تھی، تاہم بلوائیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان اس سے بھی بڑی خبر ہے۔ اس وقت تک ملک میں کم و بیش چار ہزار افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں، لیکن سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اور بچائو ممکن نہیں رہا۔ تحریک انصاف اب اندر سے ٹوٹنا شروع ہوگی۔ یہ عمران خان کے خلاف سرپرستوں کا پہلا ردعمل ہے، باقی باتیں حالات کے مطابق دیکھی جائیں گی۔ جناح ہائوس سمیت شہداء کی یاد گاروں کو تباہ کرنے کی مذمت عمران خان نے عدلیہ کی ہدایت پر نہیں بلکہ امریکی لابی کے کہنے پر ایک امریکی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کی۔ یہ نہایت غیر معمولی نکتہ ہے۔ پی ڈی ایم کا دھرنا عمران خان کے لیے غیر معمولی رعایتوں کا سیاسی ردعمل تھا، اور ملک میں بلوائیوں کی کارروائی عمران خان کی گرفتاری کا ردعمل تھا۔ اب ملکی سیاست انہی دو واقعات کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی ہدایت کی لیکن گھیرائو جلائو کے واقعات کے بعد اب یہ مذاکرات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ پی ڈی ایم سیخ پا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری مئی کی 9 تاریخ کو عمل میں آئی اور تین دن کے اندر اندر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اُن کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر اُن کا معاملہ ہائی کورٹ کے سپرد کیا تھا۔ یہاں سے انہیں نیب کے مقدمے سے بھی رہائی ملی اور متعدد دوسرے مقدمات میں بھی عبوری غیر معمولی ضمانت دے دی گئی۔ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد جس طرح عدالتوں سے ریلیف ملا، اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ اسی طرح اب پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کو نشانے پر رکھ لیاہے۔ ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اِس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ حکومتی اتحاد یا جماعت نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا ہو۔ دھرنے میں پی ڈی ایم کی نمایاں پارلیمانی جماعتیں شریک ہوئیں۔ عمران خان نے اب ایک نیا الزام دھردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ پُرتشدد مظاہروں اور گھیرائو جلائو میں خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار ملوث ہیں۔ پاکستانی سیاست گزشتہ چند سالوں سے جس تقسیم اور محاذ آرائی کا شکار ہے، عمران خان کی گرفتاری اور اُس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے اِس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ معاملات کو سنبھالنے کی جتنی ذمہ داری حکومت کی ہے، اُس سے کہیں بڑھ کر عمران خان کی ہے۔ دونوں جانب سے قانون شکن عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ حکمران کوئی بھی ہو، ہزاروں بار ان کے منہ سے یہ الفاظ سنے گئے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ان دعووں کے باوجود میں ملک میں دہشت گردی، تخریب کاری اور امن و امان میں خلل ڈالنے کے ہزاروں واقعات ہوئے، ان میں کسی ایک کے خلاف بھی کسی حکومت کا آہنی ہاتھ حرکت میں آتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ ملک میں75 سالوں سے ایک کھیل جاری ہے کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘، ۔ بیساکھیوں کے ذریعے اقتدار میں آنے اور اقتدار بچانے کا شرم ناک کھیل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حقیقی روح کے منافی ہے۔ ملک میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت نہیں جس کی قبا ان داغوں سے پاک ہو۔ کسی سیاسی جماعت نے قانون اور آئین کو ریڈلائن نہیں سمجھا، سب کی قیادتیں ہی ان کی ریڈ لائنز ہیں۔ جب تک یہ رویّے تبدیل نہیں ہوں گے، اس ملک میں 9 مئی بھی آتا رہے گا۔ آج کے تلخ حقائق یہ ہیں کہ کسی کو فکر نہیں کہ سیاسی کشمکش نے ملک کو ایک مدت سے جس انتشار میں مبتلا کررکھا ہے اور اس کا دائرہ جس طرح کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع ہوگیا ہے اس کی وجہ سے حالات کی ابتری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئین کی بالادستی کو یقینی بناکر معاملات کو درست کرنے میں عدلیہ کا ادارہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے، لیکن آج اس کے اندر بھی اختلاف و تقسیم اور جانب داری واضح ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس گرفتاری کو قانونی قرار دیے جانے کے فیصلے اور اس پر ملک بھر میں پُرتشدد احتجاج کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے اس گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کی فوری رہائی اور جمعہ کو اس معاملے کی ازسرنو سماعت کے حکم کی شکل میں ہوا۔

پی ڈی ایم کا ارادہ تھا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرکے 8 اکتوبرکو الیکشن کرائے، لیکن ملک کے حالات ایسے بن گئے ہیں کہ رواں سال الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے، ہوسکتا ہے کہ ملک میں قومی حکومت بنے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے الیکشن مزید ایک سال کے لیے آگے بڑھائے جائیں۔

جناح ہائوس سے جی ایچ کیو حملے تک کے تمام میں احتجاجی مظاہرین کے داخل ہوجانے والے واقعے کی تحقیقات بہت کچھ سامنے لائیں گی۔ حالیہ واقعات ایک پوری داستان ہیں، پوری پی ڈی ایم کے پاس عمران خان کا مقابلہ کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جان بوجھ کر خود کو اس تمام کارروائی سے دور رکھا گی۔ تحریک انصاف کو اقتدار دلایا گیا تو اس نے سوچ لیا تھا کہ جنہوں نے اسے اقتدار دلایا ملکی مسائل کا حل بھی انہی کی ذمہ داری ہے، اب پی ڈی ایم نے بھی یہی رویہ اختیار کیا کہ ہمیں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد اقتدار دیا ہے تو تحریک انصاف کے ساتھ بھی اسٹیبلشمنٹ خود ہی نمٹے، حکومت کی اسی کمزوری کی وجہ سے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں نیب نوٹس پر گرفتاری کے بعد تحریک انصاف نے’’اندر کی حمایت کے سبب‘‘ سخت رد عمل دیا۔ عمران خان کو عدلیہ سے جو ریلیف ملا ہے، حکومت اس پر سیخ پا ہے اور اسی لیے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ، لیکن جس قانون کے تحت عمران خان کو ریلیف ملا ہے، اس نیب قانون میں ترمیم بھی اسی حکومت نے کی ہے، جس کا فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ جب قانون خود بنایا ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کیسا؟ اور دھرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس حکومت نے جو ترمیم کی ہے کہ اب پہلے کی طرح نیب کسی کے خلاف بے دریغ کارروائی نہیں کر سکتا، عمران خان اسی ترمیم سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور سخت رد عمل بھی دے رہے ہیں۔عمران خان کا خیال ہے کہ فوجی افسران کے حوالے سے بیانیہ دراصل ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ عمران خان جو بھی کہتے ہیں، ان کے حامی اس پر یقین کرتے ہیں۔ عمران خان کی شروع دن سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیتے ہیں، جس کے بعد یا تو دوسرا فریق زچ ہو کر صلح صفائی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ عمران خان کے پیروکاروں کا سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر تسلط ہے، عمران جو بھی کہیں اُن کے سوشل میڈیا فالوور اس کی زبردست تشہیر کرتے ہیں، اور خاص طور پر وہ عمران خان کے مخالفین کے خلاف ایک ایسا محاذ کھول لیتے ہیں جس سے اس فرد یا ادارے کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت عمران خان کی جماعت کے چالیس سے زائد ارکانِ پارلیمنٹ قومی اسمبلی میں ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو عمران خان کے لیے ایک لفظ بھی اسمبلی میں بول سکے حالانکہ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن عمران خان ان سے کوئی مدد نہیں لینا چاہتے۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کے لیے بھی عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار ملک میں مزید عدم استحکام روکنے کے لیے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اپنانی چاہیے۔

جہاں تک نیب کارروائی کا تعلق ہے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے اگرچہ مداخلت کی ہے اور اس مداخلت کے نتیجے میں فی الحال تو ریلیف ملتا ہوا نظر آیا ہے، اس ریلیف کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ انہیں ابھی مہلت مل رہی ہے کہ اپنی اصلاح کرلیں، ان کے پاس دو ہفتوں کا وقت ہے اصلاح نہ کی تویہی نیب ہوگا اور یہی عدالتیں، ان کے خلاف کیس کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے نیب نوٹس منسوخ کیا نہ معطل کیا اس کی قانونی حیثیت برقرار ہے ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ عمران خان نیب تفتیش میں شامل ہوں، اگر وہ اس فیصلے کے بعد نیب کارروائی میں رکاوٹ بنے تو ضمانت منسوخ ہوجائے گی، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے عمران خان کے گلے پڑ جائیں گے۔