پاکستان سیکولر کیوں نہیں ہوسکتا؟

مسلمانوں کی تاریخ میں سیکولرازم ایک اجنبی،لایعنی اور گمراہ کن نظریہ ہے

دنیا میں پاکستان کے سوا کوئی ملک ایسا نہیں جس کے نظریاتی تشخص کے بارے میں کوئی ابہام یا کوئی بحث موجود ہو۔ سوویت یونین پہلے دن سے سوشلسٹ ری پبلک تھا، وہ 70 سال تک سوشلسٹ ری پبلک رہا اور اس کے بارے میں کبھی یہ بحث شروع نہ ہوسکی کہ وہ سوشلسٹ ری پبلک ہے یا نہیں؟ امریکہ پہلے دن سے سیکولر ہے اور اس کے بارے میں کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ بانیانِ امریکہ اسے کیا بنانا چاہتے تھے، سیکولر ری پبلک یا عیسائی ری پبلک؟ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل عناصر چھے دہائیوں سے یہ بحث چلائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو اسلامی ہونا تھا یا سیکولر؟ قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانا چاہتے تھے یا سیکولر ری پبلک؟ ریاستوں کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل طبقات کا یہ پروپیگنڈہ ریاست کے نظریاتی تشخص کے خلاف سازش، بغاوت اور سبوتاژ کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگ رائی کا پہاڑ بنا لیتے ہیں، مگر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے ابہام کا ایک ذرّہ بھی موجود نہیں، چنانچہ سوال یہ ہے کہ پھر سیکولر اور لبرل طبقے کے پروپیگنڈے کی بنیاد کیا ہے؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل عناصر فوجی اور سول بیورو کریسی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور پاکستان کے ابلاغی منظرنامے پر ان کا غلبہ ہے۔ سیکولر عناصر اپنی اس قوت کے ذریعے دن کو رات، سچ کو جھوٹ، حسن کو قبح اور اسلام کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی بہت سی طاقتوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کے نظریاتی کردار کو تبدیل کیا جائے۔ چنانچہ وہ اس حوالے سے پاکستان کے سیکولر طبقات کو شہ دیتی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی تاریخی شہادت بھی موجود ہے یا نہیں؟

سیکولر طبقات اس سلسلے میں قائداعظم کی 11 اگست کی اُس تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قائداعظم نے جو کچھ فرمایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور پاکستان میں آباد تمام لوگوں کو کامل مذہبی آزادی حاصل ہے، جس طرح مسلمان اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں اسی طرح ہندو اپنے مندروں اور عیسائی اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، اس حوالے سے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ دل چسپ اور اہم بات یہ ہے کہ سیکولر طبقات اس تقریر کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر وہ قائداعظم کی اُن سیکڑوں تقریروں، انٹرویوز اور بیانات کو نظرانداز کردیتے ہیں جن میں قائداعظم نے صاف کہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا اور قرآن اس کا دستور ہوگا۔ چونکہ سیکولر طبقات کے ہاتھ میں ذرائع ابلاغ کی طاقت ہے اس لیے انہوں نے ایک کو ایک ہزار بنادیا اور سیکڑوں کو ایک کے مقام پر بھی فائز نہیں ہونے دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر اسلام کی حقیقی روح اور مسلمانوں کی تہذیبی اور تاریخی روایات کے عین مطابق ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ انسان کوئی بھی عقیدہ رکھنے میں آزاد ہے۔ وہ چاہے تو ایمان کو اختیار کرے اور چاہے تو کفر اور شرک کو گلے لگا لے۔ مسلمان اس سلسلے میں ’’تبلیغ‘‘ سے کام لے سکتے ہیں، مکالمے سے استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن کسی کو لاٹھی، ڈنڈے یا لالچ کی بنیاد پر مسلمان نہیں بنا سکتے، اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے یہ کام اپنے رسولوں کے حوالے نہیں کیا تو عام مسلمانوں کے حوالے کیا کرتا! یہ مسلمانوں کی خوبی نہیں بلکہ اسلام کی خوبی اور اس کا حسن و جمال ہے، اور قائداعظم نے اپنی تقریر میں اسلام کی اسی خوبی اور اسی حسن و جمال کا ذکر کیا ہے۔ مطلب یہ کہ قائداعظم کی اس تقریر کا نہ سیکولرازم سے کوئی تعلق ہے، نہ اس تقریر سے یہ دلیل برآمد کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔

سیکولر عناصر قائداعظم کے اس بیان کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان ایک ’’تھیوکریٹک ریاست‘‘ نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ’’اسلامی ریاست‘‘ نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تھیوکریسی عیسائی دنیا کا عجوبہ اور عیسائی تاریخ سے برآمد ہونے والا تصور ہے، اور عیسائیت کی تاریخ میں پوپ مذہب کی تشریح و تعبیر کے سلسلے میں حتمی اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے، اور پوپ غیر نبی ہے۔ لیکن اسلامی تاریخ عیسائیت کی تاریخ سے مختلف ہے۔ عیسائی تہذیب کا مرکزی حوالہ حضرت عیسیٰؑ کی ذات ہے، لیکن اسلامی تہذیب کا مرکز قرآن مجید ہے۔ چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی عملی تفسیر ہیں، اس لیے اسلامی تہذیب میں قرآن مجید کے بعد آپؐ کے قول و عمل کی اہمیت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں واقعتاً کوئی پوپ نہیں ہے، اور اگر اس مقام پرکوئی فائز ہے تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے کہ اگر مسلمانوں کو قرآن و سنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملے تو پھر وہ ’’قیاس‘‘ سے کام لیں، اور قیاس کے اصول کو مسلم اور غیر مسلم سبھی مانتے ہیں، اس لیے کہ قیاس کا مطلب ہے کسی شعبۂ علم کے ’’ماہر‘‘ کی رائے۔ مثلاً کوئی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، کسی کو گھر کا نقشہ بنوانا ہوتا ہے تو انجینئر سے رجوع کرتا ہے، کسی کو کپڑے سلوانے ہوں تو درزی سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ کوئی بیمار ہوا ہو اور علاج کے لیے درزی کے پاس پہنچ گیا ہو، یا کسی کو گھر کا نقشہ بنوانا ہو تو اُس نے ڈاکٹر سے رجوع کیا ہو۔ مطلب یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں جب قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کی ضرورت ہوگی یا اجتہاد کی ضرورت ہوگی تو انہی لوگوں سے رجوع کیا جائے گا جو ایک سطح پر تقویٰ اور علم کا مجموعہ ہوں گے اور دوسری سطح پر قرآن و سنت کے جاننے والے ہوں گے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ معاشرے میں تقویٰ اور علم کی بالادستی کا تصور ہے، لیکن سیکولر لوگ تقویٰ اور علم کی مخالفت تو نہیں کرسکتے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں علما کی بالادستی نہیں ہوگی۔ اسی کو وہ تھیوکریسی کہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ قائداعظم نے تھیوکریسی کی اصطلاح عیسائیت کی تاریخ کے پس منظر میں استعمال کی ہوگی۔ اگر کوئی اُن سے پوچھتا کہ آپ قرآن و سنت کی تعبیر کا حق کس کو دیں گے، کارل مارکس اور نٹشے کے ماہر کو یا قرآن و سنت کے ماہر کو؟ تو قائداعظم کا واضح جواب ہوتا کہ قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کا حق صرف اُس کو ہے جو قرآن و سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا بھی ہے اور جو قرآن و سنت کو سب سے زیادہ بسر کرنے والا بھی ہے۔

سیکولر طبقات یہ تو کہتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، مگر وہ اس حقیقت کا انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی حقیقی تعبیر کیا ہے؟ دو قومی نظریے کے سوال پر جس اعتبار سے بھی غورکیا جائے صرف ایک حقیقت ہی سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ہندو اور مسلمان مذہب کی بنیاد پر دو مختلف قومیں ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا، تو اب اسے کس بنیاد پر سیکولر ملک بنایا جائے؟ جس وقت دو قومی نظریہ پیش ہوا تو بعض علما کہہ رہے تھے کہ قومیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ وطن یا اوطان کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ مگر قومیت کی اس تعریف کو جو ہراعتبار سے غلط ہے، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مسترد کردیا اور کہا کہ ہم نسل، جغرافیہ اور زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر دو قومی نظریہ توحید اور رسالت کی بنیاد پر وضع ہوا اور پاکستان توحید اور رسالت کی امانت ہے تو اسے سیکولر بناکر اس امانت میں کیونکر ’’خیانت‘‘ کی جائے؟ اور اس کے لیے کہاں سے جواز مہیا کیا جائے؟

اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، بلکہ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، اسلام کا اپنا جامع نظامِ عبادت ہے، یہ نظام اتنا مکمل ہے کہ اس میں رتی برابر کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ اسلام کی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ تک بتاتا ہے کہ کھانے سے پہلے کیا پڑھو اور کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے کیا کہو۔ وہ بتاتا ہے کہ چھینک آئے تو الحمدللہ کہنا ضروری ہے، اور جماہی آئے تو لاحول پڑھنا ناگزیر ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ بیماری میں دوا پیو مگر دوا لینے سے پہلے کہہ دو کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی شفا دینے والا ہے۔ یہاں تک کہ اسلام بتاتا ہے کہ بیت الخلا میں جانے کی دعا کیا ہے اور وہاں سے نکلنے کی دعا کیا ہے۔ اتنے جامع اور کامل دین میں ریاست اور سیاست کو بھلا کیسے سیکولر بنایا جاسکتا ہے؟ کیا سیکولر لوگوں کے نزدیک ریاست اور سیاست چھینک اور جماہی سے بھی کم اہمیت کی حامل ہیں؟ کیا جو دین معمولی سے معمولی عمل کو دین کے دائرے میں لانے کا حکم دیتا ہے وہ ریاست و سیاست اور معیشت کو سیکولرازم کے مطابق چلانے کی اجازت دے گا؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو کس بنیاد پر سیکولر کہا، یا بنایا جائے؟

قوموں کی تاریخ ان کے بارے میں سب سے بڑی، سب سے اہم اور سب سے نمایاں شہادت ہوتی ہے، اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں سیکولرازم ایک اجنبی، لایعنی اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اوّل و آخر اسلام کی تاریخ ہے۔ یعنی اس تاریخ کا ’’اصولِ حرکت‘‘ اسلام ہے، اس تاریخ کا ’’مثالیہ‘‘ یا Ideal اسلام ہے، اس تاریخ کی ’’معنویت‘‘ اسلام ہے، اس تاریخ کا ’’حسن و جمال‘‘ اسلام ہے۔ غرض یہ کہ اس تاریخ کا سب کچھ اسلام ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ محمد بن قاسمؒ برصغیر میں اسلام کی وجہ سے آئے، اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش کا سبب ’’اسلام‘‘ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اسلام کی بنیاد پر، اسلام کی وجہ سے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ برصغیر میں برپا ہونے والی عظیم الشان خلافت تحریک اسلام اور اس کے حوالے سے اسلام کی محبت میں برپا ہونے والی تحریک تھی۔ 1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں نے مذہبی جوش و جذبے اور جہاد کے تصور کے تحت لڑی۔ برصغیر میں پے در پے جہادی تحریکیں برپا ہوئیں، ان کا محرک ’’اسلام‘‘ تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے شاعری کی عظیم روایت پیدا کی ہے اور اس شاعری میں تصوف کا اتنا گہرا اثر ہے کہ اسے نظرانداز کرکے اس شاعری پر گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ سیکولرازم اپنی نہاد میں لادینیت کے سوا کچھ نہیں، اور برصغیر کے مسلمان ’’ناقص العمل‘‘ تو بہت رہے ہوں گے مگر ’’ناقص الایمان‘‘ کبھی نہیں رہے۔

مطلب یہ کہ سیکولرازم نہ مسلمانوں کی تاریخ میں ہے، نہ تہذیب میں ہے، نہ ان کے آرٹ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز کہیں نہیں ہے وہ اچانک سیاست میں کہاں سے در آئی؟ اور اگر محمد علی جناحؒ کو سیکولر کہا جائے تو کس بنیاد پر کہا جائے؟ کیا وہ اپنی تہذیب اور تاریخ سے کٹی ہوئی کوئی شخصیت تھے؟ کیا مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی شخص اپنی تہذیب اور تاریخ سے کٹ کر بڑا آدمی بنا ہے؟ اور کیا اس کے باوجود اسے مسلمانوںکے سوادِ اعظم نے قبول کیا؟ مغل تاجدار اکبر نے دینِ الٰہی ایجاد کیا، اور اگرچہ اُس کی حکومت پورے ہندوستان پر تھی اور اسے اکبر اعظم کہا جاتا تھا مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اُس کے مذہبی انحرافات کی وجہ سے اُسے کبھی اہمیت نہیں دی۔ اس کے مقابلے پر مسلمانوں نے اورنگ زیب عالم گیر کو رحمت اللہ علیہ کہا، ٹیپو سلطان کی عظمت کے ترانے گائے۔

برصغیر کے مسلمان اپنی تاریخ کے سفر میں کتنے مذہبی رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ شائستہ اکرم اللہ نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں لکھا ہے کہ جب میری شادی ہوئی تو مجھ سے پوچھا تک نہیں گیا کہ میں اس شادی پر رضامند ہوں یا نہیں، یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ شادی کے سلسلے میں میری بھی ایک ’’رائے‘‘ ہے۔ ان کی ایک انگریز دوست نے جب اس سلسلے میں ان سے بات کی تو وہ حیران ہوئیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں “Most Modern” خاندان کی لڑکی کا یہ حال تھا تو عام لڑکی کی ’’قدامت پسندی‘‘ کا کیا عالم ہوگا! سوال یہ ہے کہ کیا ایسے معاشرے میں سیکولرازم کی بنیاد پر کوئی تحریک برپا کی جاسکتی تھی؟ اور اس تحریک کو عوامی پذیرائی حاصل ہوسکتی تھی؟ اگر نہیں، تو پھر پاکستان کے سیکولر اور لبرل طبقے قائداعظم کو سیکولرازم کا علَم بردار کیوں اور کس بنیاد پر کہتے ہیں؟ اور انہیں پاکستان کو سیکولر بنانے کے خیال کی جرأت کہاں سے فراہم ہوتی ہے؟

پاکستان کی اسلامی بنیاد اور پاکستان کے لوگوں کی مذہب سے وابستگی کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان کی سیاست ہے۔ بھٹو قائداعظم کے بعد ملک کے سب سے مقبول عوامی رہنما تھے۔ وہ سیکولر تھے، لبرل تھے لیکن انہوں نے پاکستان پر حکومت کے لیے جو نعرہ یا فلسفہ ایجاد کیا اس کا نام انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ رکھا۔ یہ ایک مضحکہ خیز اصطلاح تھی۔ اسلام سوشلزم کی ضد تھا اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا، لیکن بھٹو صاحب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کو سوشلزم کے فلسفے کے تحت چلایا جائے گا تو چند ہی ہفتوں میں ان کے خلاف عوامی بغاوت ہوجائے گی۔ چنانچہ انہوں نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی ’’فکری دھند‘‘ میں لپٹی ہوئی اصطلاح وضع کی، حالانکہ بھٹو کی عوامی مقبولیت بے پناہ تھی۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کو 1973ء کا ’’اسلامی آئین‘‘ دیا حالانکہ انہیں ملک کو ’’سیکولر‘‘ یا ’’سوشلسٹ‘‘ آئین دینا چاہیے تھا، لیکن وہ ایسا کرتے تو پاکستان کے عوام کا مذہبی شعور چار دن میں اُن کا تختہ الٹ دیتا۔ بھٹو صاحب کو اسلام سے محبت نہیں تھی مگر انہوں نے پاکستان کے لوگوں کو اتوار کے بجائے جمعہ کی تعطیل کا تحفہ دیا۔ وہ خود شراب پیتے تھے مگر پاکستان کے عوام کی مذہبیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے شراب پر پابندی لگائی، انہوںنے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اگر بھٹو جیسے سیکولر اور لبرل رہنما کا یہ حال تھا تو پھر سیکولرازم کے لیے پاکستان میں کیونکر گنجائش نکالی جائے!

آج سے پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اردو کی سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین حیدر کراچی آئی ہوئی تھیں۔ ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ اُن سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ گفتگو جاری تھی کہ معروف سیکولر صحافی اور دانش ور ایم ایچ عسکری جو اب مرحوم ہوچکے ہیں، وہاں آپہنچے۔ گفتگو میں پاکستان اور پاکستان کی نئی نسل کی مذہب پسندی کا ذکر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ عینی آپا دیکھ لیں قائداعظم نے تو پاکستان کو سیکولر بنانا چاہا تھا مگر ہماری نئی نسل داڑھیاں رکھ رہی ہے، ملک میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کا مستقبل مخدوش ہے۔ قرۃ العین حیدر خود مذہبی نہیں تھیں اور ہمارا خیال تھا وہ شاید ایم ایچ عسکری کی ہاں میں ہاں ملائیں گی، مگر انہوں نے کہا ’’عسکری صاحب! اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اسلام ہی کے نام پر بنا تھا، چنانچہ یہ کہنا کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا، جھوٹ ہے۔ یا پھر یہ کہنے والا جناح صاحب پر الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے جھوٹ بولا، یعنی انہوں نے نعرہ تو اسلام کا لگایا مگر اصل میں وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ آپ جانتے ہیں قائداعظم میں منافقت نہیں تھی۔‘‘ یہ بات قرۃ العین حیدر کے سوا کسی اور نے کہی ہوتی تو ایم ایچ عسکری بال کی کھال نکالتے، مگر قرۃ العین حیدر کی بات سن کر وہ ایسے چپ ہوئے کہ جب تک ہم بیٹھے رہے وہ خاموش ہی رہے۔ سیکولر لوگوں کا یہی معاملہ ہے، وہ کمزور اور کم علم لوگوں کے سامنے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور مضبوط لوگوںکے سامنے خاموش ہوجاتے ہیں۔