سیاست میں ذاتی اور شخصی تصادم کی وجہ سے تلخی اور ٹکرائو میں اضافہ ہورہا ہے
ملکی سیاست بہتر ہونے کے بجائے کمزور اور بدحال ہورہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر جو مسائل ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ تسلسل کے ساتھ ٹکرائو کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ سیاست، جمہوریت، آئین، قانون اور اسٹیبلشمنٹ سمیت قومی ریاستی ادارے کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ایک گھمسان کی جنگ ہے۔ ہر فریق دوسرے فریق کو جائز و ناجائز فتح کرنا چاہتا ہے اور اس کھیل میں کسی کے پاس کوئی اصول نہیں، سبھی ایک ایسے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں جس کا مقصد قومی سیاست کے مقابلے میں اپنے سیاسی مفادات کو تقویت دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی راستے کمزور ہورہے ہیں اور انتشار یا محاذآرائی میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور پھر جس انداز میں ان کی سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانتیں ہوئی ہیں اس نے ایک طرف حکمران اتحاد میں غصے کو نمایاں کیا ہے تو دوسری طرف یہ خبریں بھی گرم ہیں
کہ عمران خان کو ملنے والے سیاسی یا قانونی ریلیف میں کچھ تو ہے جس پر پردہ ڈالا جارہا ہے، کیونکہ جو انداز سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائی کورٹ نے اختیار کیا وہ غیر معمولی تھا، اور بڑا پروٹوکول بھی ظاہر کرتا ہے کہ کہیں کچھ اُن کی حمایت میں طے ہوا ہے۔
اسی بنیاد پر اِس وقت حکمران اتحاد کی جانب سے عدلیہ یا چیف جسٹس کے خلاف مہم میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے فورم کو عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ جس تیزی سے عدلیہ مخالف پالیسیاں، قانون سازی اور مختلف قراردادیں سامنے آرہی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت آسانی سے سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکمران اتحاد عمران خان کے بیانیے کے مقابلے میں اپنا نیا بیانیہ بنانے کی جنگ میں مصروف ہے۔ حکمران اتحاد کا نیا بیانیہ عدلیہ مخالف مہم، عمران خان اور عدلیہ گٹھ جوڑ سے جڑا ہوا ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ عمران خان کی نئی اسٹیبلشمنٹ کا کردار عدلیہ ادا کررہی ہے، چیف جسٹس سمیت کئی جج عمران خان کے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن یا پی ڈی ایم کا سپریم کورٹ کے سامنے چیف جسٹس مخالف سیاسی پاور شو عدلیہ پر دبائو ڈالنے کے کھیل کا حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن کا مؤقف تھا کہ وہ چیف جسٹس کے استعفے تک اسلام آباد میں ہی رہیں گے، مگر پہلے ہی دن پی ڈی ایم کی جانب سے اس دھرنے کو ختم کرنے کے اعلان نے ان کے حامیوں کو مایوس کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سمیت مسلم لیگ (ن) کے بعض راہنما جس انداز سے چیف جسٹس کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور جو لب ولہجہ اُن کے بارے میں اختیار کیا جارہا ہے وہ درست نہیں، مگر لگتا ہے یہ سب کچھ بھی حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس لانے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں اور ان کو ہر سطح پر متنازع بنانا بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج پر دو عملی حکومتی سطح پر دیکھنے کو ملی، یعنی حکمران اتحاد کے لیے کوئی اور پالیسی جبکہ عمران خان کے خلاف ایک اور پالیسی ہے۔
اسی طرح حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی چاہتی ہیں کہ عمران خان کی سیاسی جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر اسے کالعدم قرار دلوایا جائے۔ اسی بنیاد پر کچھ دنوں سے میڈیا، یا مسلم لیگ (ن) کے حامی میڈیا سے جڑے افراد کی جانب سے پی ٹی آئی مخالف بیانیہ چل رہا ہے اور اسے سبھی دہشت گرد قرار دے کر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج بنی ہے۔ اس احتجاج میں ہم نے جس انداز میں فوجی اداروں، دفاتر اور تنصیبات پر حملے اور توڑ پھوڑ دیکھی ہے اس سے یقینی طور پر پی ٹی آئی کا سیاسی مقدمہ کمزور ہوا ہے، اسی بنیاد پر پی ٹی آئی پر شدید تنقید ہورہی ہے اور اس کے حامیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ بھی نظر آرہا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے راہنمائوں کا مؤقف یہ ہے کہ پُرتشدد کارروائیاں اور فوجی دفاتر، کور کمانڈر آفس یا گھر پر حملہ ان کی جماعت کے خلاف سازش ہے۔ ان کے بقول اس عمل کا مقصد ہمیں دہشت گرد جماعت قرار دے کر انتخابی عمل سے باہر رکھنا اور پی ٹی آئی پر پابندی لگانا ہے۔ پی ٹی آئی نے ان ساری پُرتشدد کارروائیوں پر سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، اوران کے بقول یہ ہمارے خلاف ایک بڑی سازش ہے جسے ہر فورم پر چیلنج کیا جائے گا۔
دوسری طرف بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کی قیادت، کارکنوں اور حمایتیوں کی گرفتاریاں بھی قومی سیاسی ماحول میں تلخیاں پیدا کررہی ہیں۔ پورے پاکستان سے پانچ ہزار کے قریب کی جانے والی گرفتاریوں سے حکمران اتحاد کو کئی محاذوں پر سبکی کا سامنا بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتی ریلیف کے باوجود راہنمائوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور کسی عدالتی حکم کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جارہا۔ اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، ملیکہ بخاری، علی زیدی، فردوس شمیم نقوی، میاں محمودالرشید، اعجاز چودھری، یاسمین راشد، فیاض الحسن چوہان، لیاقت ڈوگر سمیت سب کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح عورتوں اور نوجوانوں کی گرفتاریاں اور بغیر کسی مقدمے کے ان کو تھانوں اور جیلوں میں رکھنے جیسے امور بھی قابلِ مذمت ہیں۔ وفاقی حکومت اور نگران حکومتیں ہر صورت میں پی ٹی آئی کو پُرتشدد واقعات میں ملوث کرکے اس کے خلاف سخت بیانیہ بنارہی ہیں جس سے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی محاذ پر شدت بڑھ رہی ہے جو سیاسی ماحول کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گی۔ اگرچہ ماضی میں بھی سیاسی حکومتوں کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں، لیکن اِس بار تو موجودہ حکومت نے انسانی حقوق کی پامالی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ عمران ریاض اور اوریا مقبول جان کی گرفتاریوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔گرفتاریوں کا یہ عمل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں عوامی سطح پر شدید منفی ردعمل پیدا کررہا ہے، اور لگتا ہے کہ حکمران طاقت کے زور پر سیاسی مخالفین کو واقعی کچلنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی دفاتر، اداروں یا ان کے گھروں پر حملہ واقعی قابلِ مذمت ہے۔ پی ٹی آئی کی اپنی قیادت بھی اس ساری صورتِ حال سے بہتر طور پر نمٹ نہیں سکی، لیکن اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ان واقعات میں کون لوگ ملوث ہیں، کس نے یہ کھیل تیار کیا اور کون لوگ ہیں جو واقعی ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ کون لوگ اس میں ملوث تھے۔ خود پی ٹی آئی کو بھی ان واقعات کی شدید مذمت کرنی چاہیے اور داخلی محاذ پر خود بھی تحقیقات کرنی چاہیے کہ کون لوگ ہیں جن کی وجہ سے پارٹی کو ہر محاذ پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر اس کی تحقیقات نہیں ہوتی تو یقینی طور پر اس کا نقصان بھی پی ٹی آئی کو ہوگا اور حکومت تشدد پر مبنی ان کارروائیوں کو پی ٹی آئی کی مخالفت میں استعمال کرے گی۔ اس لیے خود پی ٹی آئی کو اس طرز کی تحقیقات میں ہر قسم کا تعاون کرنا چاہیے۔ دوسری جانب فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا ردعمل بھی فطری ہے۔ ان کے بقول 9مئی ہماری تاریخ کا سیاہ دن ہے، جس انداز سے احتجاج کیا گیا وہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، اور ان واقعات کے ذمے داران سے کسی بھی سطح پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، وہ لوگ جو ان واقعات میں ملوث ہیں انہیں فوجی عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جائے گا۔
ایک مسئلہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پہلے سے موجود اُن کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو ہے۔ اِس وقت بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تلخیوں اور ٹکرائو کا ماحول نظر آرہا ہے۔ عمران خان اپنی گرفتاری سے لے کر تمام تر مشکلات کا ذمے دار ایجنسیوں یا اسٹیبلشمنٹ کو ہی سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی رہائی کے بعد جس شدید غصے میں آئی ایس پی آر کو جوابات دیے اور جو سخت الفاظ فوج کے بارے میں استعمال کیے اس سے بھی تلخیاں بڑھ گئی ہیں۔ عمران خان اس وقت اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بہت مضبوط ہیں، اور اُن کے سیاسی مخالفین اُن کے مقابلے میں کمزور نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کا ٹارگٹ حکومتی اتحاد نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہے، اور وہ اس پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کے سیاسی فیصلے چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو فاصلے پہلے سے موجود ہیں ان کو مزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو اور دوریاں ہی عمران خان کے مقابلے میں ان کی اہمیت کو اسٹیبلشمنٹ میں قائم رکھ سکیں گی۔
کورکمانڈر کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ہو یا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس… ان دونوں اجلاسوں میں خاصی تلخیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ فوجی قیادت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کو شہدا کی تصاویر اور یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی مقام اور عسکری تنصیبات کو جلانا اور توڑ پھوڑ قبول نہیں، اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔ لیکن اس پورے کھیل میں سوال یہ ہے کہ ان پُرتشدد کارروائیوں کے وقت پنجاب کی نگران حکومت کہاں تھی؟ اور اس کی جو نااہلی پورے عمل میں وہاں دیکھنی پڑی ہے اس کی جوابدہی کیسے ہوگی اور کون اس کا احتساب کرے گا؟ سبھی سوال اٹھارہے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا اور کہاں گئی وہاں کی پولیس، انتظامیہ اور فوجی اہلکار؟ کیونکہ کسی نے بھی کسی کو نہیں روکا جو یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھا پہلو نہیںہے۔
عمران خان کی، رہائی کے بعد، میڈیا ٹاک سے اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ عمران خان اور پسِ پردہ قوتوں کے درمیان کچھ طے ہوا ہے، اور جو ریلیف عمران خان کو ملا وہ کسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ البتہ آئی ایس پی آر نے کورکمانڈر کانفرنس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اُس کا ایک نکتہ اہم ہے، اور وہ یہ کہ سیاسی قوتیں بات چیت اور مفاہمت سے کوئی راستہ نکالیں تاکہ عوام میں بداعتمادی کا جو ماحول بڑھ رہا ہے اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اسی تناظر میں چیف جسٹس نے بھی دورانِ مقدمہ سیاست دانوں سے یہی گزارش کی کہ وہ آگے بڑھ کر کوئی درمیانی یا مفاہمت کا راستہ نکالیں۔ عدالتی کارروائی منگل کو دوبار ہ ہوگی اور دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی سیاست دان کچھ سبق حاصل کرسکیں گے اور مفاہمت کا کوئی راستہ نکل سکے گا؟ چین کے وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان میں بھی چین نے براہِ راست یہی پیغام دیا تھا کہ پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے اپنے داخلی مسائل کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمیں داخلی اور خارجی ان تمام پیغامات کی کوئی ضرورت نہیں جو مفاہمت کا راستہ دے سکتے ہیں۔ ہم ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت حالات کو خراب کررہے ہیں اوراس میں ہماری ذاتیات سب سے بڑی رکاوٹ بن کر رہ گئی ہے۔بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ انتخابات کا ہی ہے، مگر لگتا ہے کہ فیصلہ ساز انتخابات نہیں چاہتے، اوراس وقت جو بحران نظر آرہا ہے اس کے تانے بانے بھی عدم انتخابات کی پالیسی سے جڑے نظر آتے ہیں۔عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو بھی کسی طور پر ملکی مفاد میں نہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاست میں بہت زیادہ سختی پیدا نہ کریں اورکوئی ایسا راستہ نکالیں جو سیاسی ماحول میں موجود تلخیوں کو بھی کم کرسکے اورہمیں انتخابات کی طرف بھی لے جاسکے۔