خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ: کیا شان دار اور ایمان کو تقویت دینے والی شخصیت تھے

محترم خواجہ محبوب الٰہی صاحب91برس کی عمر فانی گزار کر، یکم مئی 2023ء کو ربِ جلیل و کریم کے حضور پیش ہو گئے – اللہ کریم انھیں اپنے مقربین میں مقام عطافرمائے۔ خواجہ صاحب کا تعلق پنجاب کے ضلع پنڈ دادن خاں ( جہلم ) سے تھا، جہاں جولائی 1932ء میں پیدا ہوئے – بچپن کا ایک حصہ اپنے والدین کی آغوش میں پٹنہ، گریڈی ( بہار) اور کلکتہ میں گزارا۔ تخلیقِ پاکستان کے زمانے میں والدین کے ہمراہ آبائی وطن میں آ گئے۔
آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی زمانے کے رفقا میں سے تھے اور غالباً 1950ء ہی میں مشرقی پاکستان چلے گئے، جہاں ان کے نانا محمد امین صاحب نے’’ امین جوٹ مل‘‘ قائم کی۔ محبوب صاحب نے ڈھاکا کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں میںایک ایک فرد کو تلاش کرکے اسلامی جمعیت طلبہ قائم کی، اور 1951ء میں مشرقی پاکستان اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجتماع میں شرکت کی۔ پھر بہت کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقا کے سپرد کیں، جن میں سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکا جمعیت کا ناظم قربان علی صاحب کو بنایا۔یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی اورکارکن سازی میں برکت تھی کہ اس زمانے میں آپ ڈھاکا میں سید محمد علی، عبدالجبار، شاہ عبدالحنان( بعد میں اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر )،اور فیاض الدین (امپیکٹ انٹرنیشنل، اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر)جیسے مثالی کارکنوں کو نظمِ جمعیت میں لانے اور مستقبل میں تحریک ِاسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ اس ضمن میں جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کوششوں کے لیے اکیلے ہی جملہ مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے صفِ اول میں کھڑے رہے۔ پھر1955-56ءمیں ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE)میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی۔ پھر لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (CA)کا امتحان پاس کیا۔
اس دوران برطانیہ میں خواجہ محبوب صاحب پہلے فرد تھے جنھوں نے جماعت اسلامی کے ایک نمائندہ فرد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہاں مصر کے رفقا کی کاوشوں سے قائم ہونے والی مسجد میں درسِ قرآن کا حلقہ قائم کیا، جو یوکے اسلامک مشن سے بھی پہلے تحریکِ اسلامی کی کونپل ثابت ہوا۔ یہی مسجد اِس وقت لندن کی ایک بڑی مسجد ہے، جس کا انتظام ہمارے بنگالی رفقا بڑے مثالی طریق پر چلا رہے ہیں۔ {جس کا ریسرچ اینڈ آرکائیوز سینٹر ممتاز محقق جمیل شریف صاحب کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔}
اسی دوران انھوں نے ڈھاکا سے جمعیت کے ہونہار لیڈر قربان علی صاحب کو بلایا اور بیرسٹری کا امتحان دلانے میں فراخ دلانہ تعاون کیا، جس کا تذکرہ خواجہ صاحب سے کبھی نہیں سنا تھا، مگر بیرسٹر قربان علی مرحوم بڑے جذبے سے شکر گزاری کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ قیامِ لندن کے دوران ہفت روزہ’’ایشیا‘‘ لاہور میں باقاعدگی سےمکتوب لندن لکھتے رہے، جو معلومات اور راست تجزیے کا مرقع ہوتا۔
خواجہ صاحب تعلیم مکمل کرکے دوبارہ مشرقی پاکستان ہی منتقل ہو گئے اور امین جوٹ مل کے شعبہ حسابات سے منسلک ہوئے۔1965ء میں خواجہ محبوب الٰہی صاحب نے محترم خرم مراد اور محترم خورشید احمد صاحب کو تجویز پیش کی کہ اگر مولانا عبدالرحیم صاحب امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت دلائی جائے تو وہ پورا وقت تفہیم القرآن کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مختص کریں، اس ضمن میں تمام مالی اخراجات وہ خود ادا کریں گے۔اور اس مد کے لیے وہ پانچ سو روپے ماہانہ اعانت دیں گے ( یاد رہے، تب سونا ایک سو بیس، پچیس روپے تولہ ہوا کرتا تھا)-اور پھر1966-67ءمیں اس تجویز پر عمل شروع ہوا،اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے یہ شاندار کارنامہ بہت تیزی سے اور کمال درجے میں مکمل فرمایا۔
1971ء میں عوامی لیگ کی بغاوت کے دوران شرپسندوں نے جوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے۔یہاں بھی ابتدا میں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں میں بطور معاشی مشیر ذمہ داریاں ادا کیں۔ پھر نیلم گلاس اور لینر جیلاٹین( کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو چلایا۔
پاکستان بننے کے چند ہی سال بعد جن پانچ چھے نوجوانوں کو مولانا مودودیؒ نے شفقت سے نوازا خواجہ صاحب اُن میں شامل تھے، جب کہ دیگر نوجوانوں میں اسرار احمد،ظفر اسحاق انصاری، خرم مراد، خورشید احمد،حسین خان نمایاں تھے۔ خواجہ صاحب کو سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے مولانا مودودیؒ کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، اور اپنی والدہ کو حج کرانے میں خدمت گزاری کی۔
خواجہ صاحب نے جماعت کے رسائل و جرائد کی مالی اعانت کے لیے بڑے تسلسل سے ذمہ داری نبھائی۔ ان کی اہلیہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے ظاہر ہے خواجہ صاحب کے مالی تعاون سے خواتین کے ماہ نامہ’’بتول‘‘ اور پھر ’’عفت‘‘ کو بڑی باقاعدگی اور بلند معیار سے شائع کیا ہے۔ سسر ال کی جانب سے محترم خرم جاہ مراد صاحب سے رشتے داری تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے اس نیک بندے کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین