کوئٹہ کی آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہوگئی
بلوچستان اپنی قلیل آبادی کے باعث ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے دوران کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے اضلاع کی آبادی2017ء کی مردم شماری کے نتائج کے برخلاف کم دکھانے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ اس جانب بلوچستان اسمبلی کے13 اپریل کے اجلاس میں توجہ دلائی گئی۔
کوئٹہ صوبے کا دارالحکومت ہے جس کی آبادی2017ء کی مردم شماری میں 22 لاکھ 69ہزار ریکارڈ ہوئی، جس کے تحت کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 6 سے بڑھ کر 9 ہوئی اور قومی اسمبلی کی نشستیں 2 سے بڑھا کر 3 کردی گئیں۔ چنانچہ اعتراضات اٹھائے گئے کہ 2023ء کی مردم شماری میں آبادی 23 لاکھ سے گھٹ کر17لاکھ کیسے ہوگئی؟ یعنی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہوگئی۔ ظاہر ہے یہ حیرانی والا معاملہ ہے اور لامحالہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں کم ہونے کا امکان ہے، مالیاتی مسائل بھی سامنے آئیں گے۔
معروضی طور پر دیکھا جائے تو کوئٹہ کی آبادی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، یہاں تک کہ نواح کے زرعی علاقے بھی رہائشی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ کے 1200 بلاکس میں470 بلاکس کی مردم شماری فیڈ نہیں ہوسکی ہے۔ اسمبلی فورم سمیت صوبے کی تمام سیاسی اور سماجی جماعتیں و حلقے یکسو ہوکر کہہ رہے ہیں کہ یہ دانستہ واردات ہے۔ صوبے کی سیاسی جماعتوں کے آل پارٹیز کے عنوان کے تحت مختلف اجلاس منعقد ہوئے، پریس کانفرنسیں ہوئیں اور وفاقی حکومت سمیت ادارۂ شماریات کو صورتِ حال سے آگاہ کردیا گیا۔ اس ذیل میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کوئٹہ میں مقیم دوسرے اضلاع کے خاندانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اندراج کرایا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ سال بھر کوئٹہ میں ہی رہتے ہیں اورمحض عید کے ایام میں اپنے آبائی علاقوں کو جاتے ہیں، یہاں کے وسائل استعمال کرتے ہیں، اور اندراج اپنے آبائی علاقوں میں کراتے ہیں۔ یہ شہر کے باقی لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
بہرکیف مردم شماری کا عملہ تربیت سے عاری تھا۔ ان کے درمیان کوآرڈی نیشن کا فقدان دیکھا گیا۔ عملے کو سہولیات کی فراہمی کی مشکل درپیش تھی۔ بعض نگران ڈیوٹی نہیں کرتے تھے، گویا مردم شماری کا اہم فریضہ سنجیدہ نہیں لیا گیا اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان خدشات و تحفظات اور اعتراضات کے پیش نظر خانہ و مردم شماری کی تاریخ میں 15مئی تک توسیع کردی گئی۔ یہ دن بھی یقیناً کم ہیں، ازالے کے لیے طویل عرصہ درکار ہے۔ بڑی جماعتیں جیسے پشتون خوا میپ، نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہیں، ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام پی ڈی ایم سمیت وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ بی این پی، جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی تو ’باپ‘ پارٹی سے بھی بغل گیر ہیں اور والہانہ راہ و رسم رکھتی ہیں۔ باپ پارٹی نے بھی وفاقی حکومت کی حمایت کررکھی ہے۔ چناں چہ اس صورت میں کم از کم مردم شماری کا معاملہ منطقی طور پر حل ہوجانا چاہیے۔ باقی تو الا ماشاء اللہ سیلاب سے پیش آنے والے نقصانات کا رتی بھر ازالہ نہیں ہوسکا ہے۔ بربادی کا سماں ویسے کا ویسا ہی ہے۔ وفاقی محکمے اگر اپنا فرض ادا نہیں کررہے تو صوبے کی حکومت کو اپنے وسائل سے سرِدست بولان کا پنجرہ پل جو محض چند سو میٹر طوالت رکھتا ہے اور لسبیلہ و حب میں پلوں کی تعمیر کردینی چاہیے تھی۔ ماہِ اپریل کی بارشوں میں کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ پر متعدد بار رابطہ منقطع ہوا ہے۔ کوئٹہ میں 5 فروری کو پی ایس ایل کے نمائشی میچ پر صوبے کی حکومت خطیر رقم خرچ کرچکی ہے۔ کہا جاتا ہے اس میچ پر دس سے گیارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اچھا ہوتا کہ پہلے پنجرہ پل تعمیر کرلیا جاتا۔ این65کی یہ شاہراہ بلوچستان کو سندھ سے ملاتی ہے۔ معمولی بارش ہو تو عارضی راستہ بہہ جاتا ہے، نتیجتاً کئی کئی دن رابطہ منقطع ہوجاتا ہے، مسافر اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، مال بردار گاڑیاں دونوں طرف پھنس جاتی ہیں۔ حال یہ ہے کہ پی ایس ڈی پی سے شکم پری اور عیاشیاں ہورہی ہیں، مگر واویلا مالی بحران کا کیا جاتا ہے۔
ادارۂ شماریات پاکستان کے چیف ڈائریکٹر نعیم الظفر نے کوئٹہ آکر کہا ہے کہ مردم شماری میں 15مئی تک توسیع کی جاچکی ہے اور مردم شماری کے بلاکس میں کوریج کے مسئلے کی نشاندہی ہوئی ہے، جس کے بعد اسے حل کیا جارہا ہے۔ ادارۂ شماریات کے مطابق کوئٹہ میں آبادی کی کمی کی وجہ یہاں مقیم خاندانوں کا اپنے آبائی اضلاع میں اندراج ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک کے دوران رفیوزل کی شرح بھی زیادہ تھی۔اب توسیعی مرحلے میں ان مسائل کو حل کیا جارہا ہے تو شہر کی آبادی میں کئی لاکھ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے بقول مقررہ مدت تک مزید اضافے کا امکان ہے۔ پہلے سیاسی جماعتیں زیادہ فعال نہیں تھیں، اب وہ لوگوں کو قائل کررہی ہیں۔ ادارۂ شماریات کے مطابق لوگ اپنی دانست میں سمجھے تھے کہ یہ ڈیٹا نادرا اور الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا تو کہیں ان کا ووٹ بھی آبائی اضلاع سے کوئٹہ منتقل نہ ہوجائے۔