پیپلز پارٹی نے متوقع اور بڑی شکست سے بچنے کے لیے ایک منصوبے کے تحت ریاستی وسائل اور طاقت کے استعمال کے ساتھ غنڈہ عناصر کا بھی بھرپور استعمال کیا
کراچی میں ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور پیپلزپارٹی کی ملی بھگت سے ضمنی الیکشن مذاق بن گیا، اور شہر میں جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہوئی فضا اور کراچی کے لوگوں کے مینڈیٹ پر پوری ریاست نے منظم انداز میں حملہ کیا اور انتخابات سے پہلے والی رات سے آراو آفس اور ڈی آراو آفس تک تاحال کھیل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی نے ضمنی بلدیاتی انتخابات والے دن اسلحہ، پولیس اورحکومتی وسائل کا بھرپور استعمال کیا، پولیس پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے اشاروں پر جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہونے سے روکتی رہی، الیکشن کمیشن کا عملہ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتا رہا، پیپلز پارٹی نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نیوکراچی، رشیدآباد، کورنگی یوسی 2، شاہ فیصل کالونی کی یوسی گرین ٹائون، بہار کالونی اور مومن آباد سمیت دیگر یوسیز میں اسلحہ اور پولیس کی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔پورے شہر نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پیپلزپارٹی نے شہر کی 11 یوسیز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متوقع اور بڑی شکست سے بچنے کے لیے ایک منصوبے کے تحت ریاستی وسائل اور طاقت کے استعمال کے ساتھ غنڈہ عناصر کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ جس کے بعد اتوار کو پولنگ کے موقع پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے غنڈہ عناصر پولیس کی مکمل سرپرستی میں جماعت اسلامی سمیت پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں اور کارکنوں کو خوف زدہ کرتے رہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے غنڈہ عناصر کی ویڈیوز اور تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں۔ پولنگ کے آغاز پر جب جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ متعلقہ پولنگ بوتھوں اور اسٹیشنوں پر پہنچے تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے ان کو اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ جب امیدواروں کی جانب سے متعلقہ پریزائیڈنگ افسران سے رجوع کیا گیا تو اُن کی جانب سے کسی بھی کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے یوسی 13 نیو کراچی کے پولنگ ایجنٹ نے بتایا کہ اسے پیپلز پارٹی کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی مدد سے اندر داخل نہیںہونے دیا، اسی یوسی کے پولنگ اسٹیشن نمبر 3 پر جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس کو روکا گیا، اور اس یوسی پر اتفاق سے راقم اُس وقت خود موجود تھا جب پیپلز پارٹی کے ڈیڑھ چین سے زائد غنڈوں نے حملہ کیا۔ بات صرف اتنی نہیں تھی، بلکہ اس کام میں ایم کیوایم نے بھی پورا پورا ساتھ دیا۔حکومتی جماعت کی طرف سے پولیس کی طرح الیکشن کمیشن کی طرف سے تعینات عملے اور پریزائیڈنگ افسران کو بھی دھاندلی اور اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور الیکشن کمیشن عملی طور پر پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کے طور پر سامنے آیا۔ الیکشن کمیشن کے عملے کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیوکراچی یوسی 13 کے پولنگ اسٹیشن کے 4 بوتھوں میں کُل 155 ووٹ ڈالے گئے، تاہم جب ان ڈبوں کو کھولا گیا تو الیکشن کمیشن کے عملے کی جانب سے اس میں ہیرا پھیری کے ذریعے تیر کے نشان لگے ہوئے بیلٹ پیپرز کے بنڈل شامل کردیے گئے، جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کے احتجاج کے باوجود پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد 400 ظاہر کی گئی۔
یہاں تک کہ کورنگی یوسی 3 عظیم پورہ کے پولنگ اسٹیشن 16 میں گنتی کے دوران بیلٹ بکس سے بڑی تعداد میں گزشتہ الیکشن کے ووٹ بھی نئے بیلٹ پیپرز کے ساتھ لپیٹ کر بیلٹ باکس میں ڈالے گئے تھے اور سب پر تیر کے نشان پر مہر لگی ہوئی تھی۔
حکومت اور ریاست کے ملوث ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر علی احمد خان قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود آٹومیٹک رائفل ہاتھ میں لے کر لوڈ کرکے جوشیلے انداز میں ہوا میں برسٹ چلاتے رہے۔
اس وقت 246 میں سے 239 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج جو سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کراچی میں پیپلز پارٹی نے 98، جماعت اسلامی نے87 اور تحریک انصاف نے41 نشستیں جیتی ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے 7، جے یو آئی نے 4،تحریک لبیک اور آزادامیدوار نے ایک ایک سیٹ حاصل کی ہے،اور تاحال الیکشن کمیشن نے پچھلے انتخابات کی 7 نشستوں کے نتائج روک رکھے ہیں جن میں سے 6پر جماعت اسلامی اور ایک پر پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے۔
اس ساری صورتِ حال پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ”کراچی بلدیاتی ضمنی انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی نے بدترین دھاندلی کرکے ثابت کیا کہ سندھ کی حکمران جماعت دھاندلی پارٹی ہے جس کا جمہوریت اور جمہوری اقدار سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اتوار کو ووٹنگ کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے تمام اخلاقی و قانونی حدود کی پامالی کی گئی، پولنگ اسٹیشنوں پر کراچی سے باہر کے غنڈوں کو لایا گیا اور بیلٹ باکسوں کو جادو کے ڈبوں میں تبدیل کردیا گیا، پولنگ عمل مکمل ہونے کے بعد نتائج میں ردو بدل کیا گیا، فارم میں نتائج کچھ اور تھے، بعد میں اعلانات ان کے برعکس کیے گئے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں پر تشدد کیا گیا، انہیں بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اور پولنگ عمل کے دوران اور بعد میں دہشت گردانہ حربے استعمال کیے گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شرپسند عناصر کے خلاف تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ غنڈہ گردی میں ملوث افراد کو گرفتار نہ کرنا قابلِ مذمت ہے۔ ماضی میں بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”پیپلز پارٹی ہمیشہ دھاندلی، لابنگ اور خرید و فروخت کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی ہے، لوگوں کی رائے کو قبول کرنا اس کی سرشت میں نہیں، ماضی میں انھی رویوں کی وجہ سے جمہوریت ڈی ٹریک ہوئی اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔“ انہوں نے کہا کہ ”کراچی نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو مسترد کیا۔ الیکشن کے دوران سرکاری وسائل، انتظامیہ کا بے جا استعمال، خرید و فروخت اور دیگر ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے پیپلز پارٹی نے ثابت کیا کہ یہ جماعت پورے ملک میں تو کُجا ایک شہر میں بھی جمہور کی آواز سننے کو تیار نہیں۔ شہر کے حقیقی مینڈیٹ کو تبدیل کرنے کی کوشش باعث ِ شرم ہے، جماعت اسلامی اسے مسترد کرتی ہے اور پورے فعل کی پُرزور مذمت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ایسے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیا جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ کراچی کی رائے کے تحفظ کو ہرحال میں یقینی بنایا جائے گا۔“ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ”جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد ملک میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔ ہم عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لارہے ہیں۔ کراچی کے عوام کی ماضی میں بھی خدمت کی، آئندہ بھی کریں گے اور شہر کی روشنیوں کو بحال کریں گے۔ جماعت اسلامی کراچی سمیت پورے ملک کے عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔
اس سارے عمل میں امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن پوری طرح متحرک رہے، ان کا کہنا ہے کہ ”الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بنا ہوا ہے، اداروں کی طرف سے پیپلز پارٹی کو واک اوور ملا ہوا ہے، پیپلز پارٹی جمہوریت کے نام پر فاشزم کا بدترین مظاہرہ کررہی ہے، پولیس اور الیکشن عملے نے کھلم کھلا جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے، صوبائی الیکشن کمشنر ہمیں مشورہ دے رہے تھے کہ فارم 12 لینے کی کیا ضرورت ہے! پیپلز پارٹی نے فارم 11اور 12 پر قبضے کے لیے دھاندلی کا نیا طریقہ اختیار کیا اور ان فارم کی وصولی کے لیے پہلے سے دستخط لے لیے گئے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے تمام تر غیر جمہوری ہتھکنڈوں، حکومتی مشینری، سرکاری اختیارات و وسائل، دھونس، دھمکی، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں و کیمپوں پر حملوں اور بدترین دھاندلی کے باوجود کراچی کے عوام نے 15جنوری کی طرح 7مئی کو بھی پیپلز پارٹی کو مسترد کردیا ہے، لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی الیکشن پر قبضہ کرکے کراچی کو فتح کرنا چاہتی ہے، ہم 8نشستوں پر واضح برتری سے آگے تھے لیکن ہماری جیتی ہوئی سیٹوں اور عوام کے مینڈیٹ پر مزید ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، جماعت اسلامی اس کی بھرپور مزاحمت کرے گی اور اپنی سیٹوں اور حق و انصاف کے حصول کے لیے ہر طرح کے آئینی و قانونی طریقے اختیار کرے گی۔ اس کے لیے ہم انٹرا کورٹ سے بھی رجوع کریں گے۔“ حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی بتایا کہ نیو کراچی کی یوسی 4 بھی کل ہم جیت چکے تھے لیکن وہاں ہمارے لوگوں کو رزلٹ نہیں دیا جا رہا تھا، رات گئے میں خود وہاں گیا اور ہمیں یقین دہانی کرائی گئی لیکن بعد میں نتیجہ بدل دیا گیا، وہاں پیپلز پارٹی کے مسلح لوگوں نے فائرنگ کی اور پولیس انہیں روکنے کے بجائے ان کی سرپرستی کرتی رہی۔ گرین ٹائون شاہ فیصل کالونی، یوسی 13نیو کراچی، اللہ والا ٹائون کورنگی، اورنگی ٹائون یوسی 1 اور 2 میں پیپلز پارٹی کے مسلح جتھے 7مئی کو سارا دن پولنگ اسٹیشن کے اطراف گشت کرتے رہے، ہمارے کیمپوں پر حملے کیے گئے، ہمارے کئی کارکن زخمی ہوئے، 7زخمی جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں، پولنگ اسٹیشن کے اندر انتخابی عملہ جو پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا آلہ کار بنا ہوا تھا اس نے انتخابی قوانین کی سنگین بے ضابطگیاں کیں اور ہمارے پولنگ ایجنٹس کے قانونی اعتراضات کو نہ صرف سننے سے انکار کیا بلکہ پولنگ ایجنٹس کو پیپلز پارٹی کے مسلح لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، دھاندلی اور حکومتی جبر و تشدد کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں، پولیس اور رینجرز نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی، ہمارے ہی لوگوں پر پولیس نے جھوٹے مقدمات بنائے اور گرفتار کیا گیا۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”پیپلز پارٹی نے طے کیا ہوا ہے کہ اورنگی ٹائون اور کورنگی ٹائون کی چیئرمین شپ کو ہر صورت میں حاصل کرنا ہے، اللہ والا ٹائون یوسی 2 میں کاسٹنگ ووٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ووٹ پیپلز پارٹی کے نکلے اور اسی طرح یوسی 13نیو کراچی میں بھی کاسٹنگ ووٹوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ووٹ پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیے گئے۔“ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”پولنگ ڈے کی سنگین بے ضابطگیوں کے حوالے سے ہم نے الیکشن کمیشن کو 23 خطوط ارسال کیے اور صوبائی الیکشن کمشنر انور چوہان سے میں نے خود رابطہ کیا، لیکن بجائے کوئی نوٹس لینے کے، ان کا کہنا تھا کہ فارم 12کے لیے آپ کیوں زور دے رہے ہیں؟ چھوڑیں اس کی کیا ضرورت ہے!“ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا رویہ اور طرزِعمل ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ” 15سال ہوگئے پیپلز پارٹی سندھ حکومت میں ہے، اس نے کراچی کے وسائل پر قبضہ کیا لیکن کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا۔ کراچی کے عوام جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک کراچی دشمن پارٹی ہے، کراچی کے عوام اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیشہ مسترد کرتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی اپنے وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام اور شکنجے کے زور پر اور کراچی کی آبادی پر بھی ڈاکے ڈال کر، کراچی کو حقیقی نمائندگی سے محروم کرکے جعلی اکثریت حاصل کرتی ہے اور کراچی کا حق مارتی ہے، پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں بھی حکومتی مشینری، سرکاری اختیارات و وسائل اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے جعلی اکثریت حاصل کی ہے، کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیا ہے لیکن اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ جماعت اسلامی اہلِ کراچی کے آئینی و قانونی حقوق اور مسائل کے حل کی جدوجہد جاری رکھے گی۔“