ملک کی وکلاء تنظیموں نے موجودہ سیاسی بحران میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان موجود تنائو ختم ہو۔ اس ذیل میں آل پاکستان بار کونسلز نے ملک کے بڑے شہروں میں اجتماعات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت میں 29 اپریل کو کانفرنس ہوئی جس میں سپریم کورٹ، پانچوں بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار کے سابق صدور سمیت ملک بھر سے وکلاء تنظیموں کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد کاکڑ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں عمران خان اور پی ڈی ایم کے درمیان بھی چپقلش ختم ہو۔ تاہم وکلاء کے اندر ان اجتماعات سے متعلق بھی تقسیم موجود ہے۔ اس کانفرنس میں وکلاء رہنمائوں کی تقاریر اور اعلامیے سے حکومت کی حمایت کا تاثر ابھرتا ہے۔ بلوچستان سمیت پاکستان بھر کی وکلاء تنظیموں کے بعض عہدے داروں نے کانفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد کاکڑ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد افضل حریفال اور دیگر کا یہ مؤقف ہے کہ یہ کانفرنس عدلیہ کے خلاف ایک سازش ہے۔
بہرکیف کوئٹہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور یاسین آزاد، امان اللہ کنرانی، احسن بھون، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سید قلب حسن، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امان اللہ کاکڑ، چیئرمین بین الصوبائی کمیٹی عادل عزیز، بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی راحب خان بلیدی، بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی قاسم علی گاجیزئی، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین بشارت اللہ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی طاہر چودھری، خیبر پختون خوا بار کونسل کے وائس چیئرمین زر باچا، سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین اظہر عباسی، اسلام آباد بار کونسل کے چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی عادل عزیز، خیبر پختون خوا بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید مبشر اور دیگر نے شرکت کی۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے جانے والے ججوں نے ہمیشہ قانون کو آگے رکھا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے۔ پاکستان میں جب پہلا مارشل لا لگا تو آئین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عدلیہ نے مارشل لا کا دفاع کیا، آج ایک بار پھر یہ سلسلہ جاری ہے، جو بھی آئین کے ساتھ کھیلا اس کا نام و نشان نہیں رہا، جو آئین کے ساتھ کھڑا ہوا وہ آج بھی زندہ ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکلاء کو تقسیم کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں، یہاں بات اصولوں کی ہے، ہم اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سازش کے تحت وکلاء کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ یوم جشن منانا چاہیے کہ آج ہمارے ادارے مضبوط ہورہے ہیں، آئین شکنی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے، جس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کو 3 سال کی ایکسٹینشن دی گئی اسی طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اپنی ایکسٹینشن کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے کہاکہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے لیکن وہ سب سے کمزور اور لولی لنگڑی بن گئی ہے۔ ہماری تباہی میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا حصہ ہے اور کسی حد تک سیاست دان بھی ذمے دار ہیں۔ اگر مجیب الرحمٰن کو اُس وقت اقتدار دے دیا جاتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا بلکہ ترقی کررہا ہوتا۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں، ضرورت ہے کہ یہ افراد اداروں کی بہتری کے لیے کام کریں۔ الیکشن شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن یہاں ایک ادارہ دوسرے ادارے کا کام کررہا ہے جو ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کے مترادف ہے، پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑی گئیں تو پھر زور صرف پنجاب پر کیوں ہے؟ سپریم کورٹ کے جج صاحبان بری طرح تقسیم ہیں، عدلیہ، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ اپنے معاملات بہتر بنائیں۔ پاکستان بار کونسل جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہاکہ کتنی بدقسمتی ہے کہ 1973ء کے آئین کو 50 سال مکمل ہوگئے اور پاکستان کو بنے 75 سال ہوئے ہیں، جس دستور کے 50 سال مکمل ہوئے کیا ہم نے کبھی اس دستور پر عمل کیا ہے؟ ان دستاویزات سے تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوام کی حقیقی حکمرانی تو دور کی بات ہے، بلوچستان میں تو انسانی حقوق ہی میسر نہیں۔ مائیں اور بہنیں آج بھی اپنے لاپتا بیٹوں اور بھائیوں کا انتظار کررہی ہیں۔ پارلیمنٹ آزاد نہیں بلکہ لولی لنگڑی ہے، جب یہ لولی لنگڑی پارلیمان کوئی قانون دے دیتی ہے تو پھر سپریم کورٹ اس پر اسٹے دیتی ہے کیونکہ اس قانون سے ایک شخص کو زک پہنچتی ہے۔ ناراضی کا اظہار ایسے کرتے ہیں کہ قانون سے پہلے اسٹے جاری کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم کی مثال دنیا کے کسی حصے میں نہیں ملتی لیکن پاکستان میں ملتی ہے۔ آئین کے تحت حلف لینے والوں نے ہمیشہ اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے، اور سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو پہنچایا گیا۔ سید قلب حسن نے کہاکہ یہ کانفرنس کسی کے خلاف نہیں، عدلیہ کو عدلیہ سے آزاد کرانا ہے۔ احسن بھون نے کہاکہ نظام کی بہتری کے لیے کوئی قانون بنتا ہے تو خوش آمدید کہیں گے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کام کرنا ہوگا، ہماری جدوجہد کسی ایک حکومت کے آنے یا جانے کے لیے نہیں بلکہ آئین پر عمل کے لیے ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی کی قانون سازی سے چیف جسٹس کے وقار میں اضافہ ہوگا، عدالت کی غیر جانب داری پر اٹھنے والے سوالات کے خاتمے کے لیے قانون کی عمل داری ضروری ہے۔ آج جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ عدلیہ ایک ٹول کے طور پر غیر جمہوری طاقتوں کے لیے کام کررہی ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے وکلا قربانیاں دیتے ہیں۔ بلوچستان بار کونسل کے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین راحب بلیدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ بلوچستان کو ہمیشہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ ملک میں آئینی بحران، مارشل لا ہو یا پارلیمنٹ کی بالادستی، بلوچستان کے وکلا نے پہل کی ہے اور اس راہ میں بلوچستان کے وکلا نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں، اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سیاسی و آئینی بحران چل رہا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان اور ہم خیال ججوں کا جو کردار ہے وہ افسوس ناک ہے۔ خیبر پختون خوا بار کونسل کے سابق ممبر احمد فاروق خٹک نے کہاکہ آئینی و قانونی امور سپریم کورٹ کے تین تھانے داروں کے پاس رہ گئے ہیں، یہ تین نہ تو خود کو جج، قاضی، اور نہ ہی منصف مانتے ہیں بلکہ خود کو تھانے دار مانتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی ایلویشن سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کی دوبارہ تقرری پر پابندی عائد کردی جائے، اگر پابندی نہ لگی تو خزانے پر بوجھ کے ساتھ جونیئر ملازمین میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ججوں کی کنسلٹنسی پر پابندی عائد کی جائے، اور باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اسلام آباد بار کونسل کے عادل عزیز نے کہاکہ سپریم کورٹ حق و سچ کا ساتھ دے کر انصاف پر مبنی فیصلے کرے، وکلا قیادت جو بھی قدم اٹھائے گی ہم ان کے ساتھ ہیں۔ سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین اظہر عباسی نے کہا کہ ہم کسی کے خلاف نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا وقار بحال ہو، سوموٹو سے متعلق اختیارات کا تعین ہو، من پسند افراد کو بینچ میں شامل کرنے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں وکلا برادری نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر اسٹے واپس لیا جائے اور ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرائے جائیں۔ ایسا نہ ہوا تو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔ پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے۔ سپریم کورٹ سیاسی وآئینی مقدمات سے دور رہنے کی کوشش کرے، ضروری ہو تو غیر متنازع بینچ بناکر ایسے معاملات کی سماعت کی جائے۔ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرالتوا ریفرنسز پر فی الفور کارروائی کرتے ہوئے فیصلے کیے جائیں، ججوں کی تعیناتی میرٹ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور ان کے خلاف شکایات کے لیے مناسب فورم ہونا چاہیے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وکلا برادری آئین پاکستان کی مکمل حمایت کرتی ہے، آئین میں تمام اداروں کے اختیارات کا تعین ہے، آئینِ پاکستان عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیتا ہے، وکلا برادری چیف جسٹس کے بینچوں کی تشکیل، بینچ فکسنگ، سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے اور اعلیٰ عدلیہ میں ون مین شو کی مخالفت کرتی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ملکی مفاد میں اپنے اختلافات ختم کریں۔ وکلا نے جوڈیشل کونسل کے قوانین میں ترامیم کرکے موجودہ جوڈیشل کونسل قوانین میں چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات کو کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔