(مکاتیب کے خصوصی حوالے کے ساتھ)
(قسط 2)
شخصیت میں جامعیت:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت کا ایک امتیازی پہلو یہ تھا کہ ان کی شخصیت میں زبردست جامعیت پائی جاتی تھی۔ وہ ایک طرف عصری علوم میں مہارت رکھتے تھے، دوسری طرف دینی علوم میں گہری دسترس رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانے کی زبان میں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ گفتگو کی، اور ان کو دنیا بھر میں شوق سے سنا اور پڑھا گیا۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی اٹھان بھی بالکل اسی طرز پر ہوئی تھی۔ انٹرمیڈیٹ تک انہوں نے عصری تعلیم حاصل کی اور اس میں نمایاں مقام حاصل کیا، اور اس کے بعد ثانوی درسگاہ اور مدرسۃ الاصلاح سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی انہوں نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہاں سے دوبارہ یونیورسٹی کی طرف گئے اور وہاں بھی امتیازی پوزیشن کے ساتھ اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ کی طرح ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت میں بھی زبردست جامعیت پائی جاتی تھی، وہ عصری علوم میں بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور دینی علوم کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ اسلامی معاشیات، اسلامی فکر اور مقاصدِ شریعت پر ان کے کاموں میں دینی وعصری علوم کی یہ جامعیت بہت صاف نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی زندگی کا ایک قابلِ ذکر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرا، ایم اے کی تکمیل کے بعد 1961ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے، تقریباً پندرہ سال تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1975ء میں آپ کا پروموشن ہوا اور آپ ریڈر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے۔ 1977ء میں اسلامیات کے حوالے سے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو شعبہ اسلامیات میں پروفیسر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی یونیورسٹی کی دنیا میں کھو جانے والی شخصیت نہیں تھے، یونیورسٹی کے یہ مناصب ان کے لیے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بن سکتے تھے۔ انہوں نے اس دوران بھی اپنے طے کردہ اصل محاذ یعنی اسلامی معاشیات پر علمی وتحقیقی کام جاری رکھا اور اس کے لیے اپنی استعداد کی حد تک ہندوستان میں بھی اور ہندوستان کے باہر جہاں جہاں ممکن ہوسکا ایڈووکیسی کا کام کرتے رہے۔ قریب 1976ء میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی معاشیات کے موضوع کو متعارف کرانے اور اس کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ایک پروپوزل تیار کیا اور اسے وائس چانسلر پروفیسر اے ایم خسرو کے سامنے پیش کردیا۔ لیکن بوجوہ اُس وقت اس کو شاملِ نصاب نہ کیا جاسکا، البتہ ایک عرصے کے بعد 1994ء میں اسلامی معاشیات کو ایک آپشنل پیپر کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔
بیرونی دنیا کا سفر
1972ء میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو پہلی بار مغربی دنیا کا تفصیلی سفر کرنے کا موقع ملا۔ امریکی تنظیم کنسلٹیٹو کمیٹی آف انڈین مسلم (CCIM) اور مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (MSA) کی دعوت پر آپ امریکہ کے لیے روانہ ہوئے جہاں آپ نے چار ماہ قیام کیا، اور اسی دوران برطانیہ، فرانس، لیبیا اور سعودی عرب بھی گئے۔ یہ سفر اسلامی معاشیات کی انٹرنیشنل ایڈووکیسی کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ سعودی عرب میں آپ نے اس موقع پر فریضہ حج بھی ادا کیا۔
1976ء میں آپ نے دوسری مرتبہ سعودی عرب کا سفر کیا، یہ سفر سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی معاشیات پر پہلی عالمی کانفرنس کے سلسلے میں ہوا، اس کانفرنس کے انعقاد میں جہاں بہت سے افراد کی کوششوں کا دخل تھا وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ سعودی عرب میں منعقدہ یہ کانفرنس اسلامی معاشیات کے فروغ کے سلسلے میں ایک سنگِ میل ثابت ہوئی، سعودی حکومت نے ایک طرح سے اس کانفرنس کی سرپرستی کی، دنیا بھر کے اسکالرز کو مدعو کیا گیا، اور پھر اس سلسلے میں ٹھوس کام انجام دینے کے لیے مختلف پہلوئوں سے منصوبہ بندی کی گئی۔
سعودی عرب منتقلی
سعودی عرب کا یہ سفر آپ کی زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا، اور آپ اس کے دو سال بعد وہیں منتقل ہوگئے، ہندوستان سے سعودی عرب منتقل ہوجانے کا آپ کا یہ فیصلہ نہ تو ملازمت کے حصول کے لیے تھا، نہ ہی کسی دوسری ذاتی غرض کے لیے… یہ فیصلہ خالص اپنے مشن کے لیے تھا اور معاشیات پر ان کے بڑے علمی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی۔ اس سفر کا پس منظر وہ خود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’کچھ عرصہ پہلے 1976ء میں کئی برس کی کوششوں کے بعد اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفر نس مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی، جس نے اُن بہت سے لوگوں کو قریب آنے کا موقع دیا جو انفرادی طور پر اس میدان میں کام کر رہے تھے، وہاں ایک تحقیقاتی مرکز قائم کرنے کی سفارش کی گئی، سیاسی حالات اور مالی ضروریات دونوں کے پیش نظر اس مرکز کا ہندوستان بلکہ پاکستان میں یا کسی اور جگہ قائم ہونا ممکن نہ تھا۔ جامعہ ملک عبدالعزیز میں مرکز کا قیام طے ہوا۔ ہمیں اس ملک میں رہ کر یہ کام کرنے کی نزاکتوں کا احساس تھا اور ہے۔ مگر کام جس مرحلے میں ہے اور اس وقت تھا اس کے پیش نظر یہاں سے کام کرنے کے مصالح کا پہلو غالب تھا اور اب بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کام کے لیے ان افراد میں سے چند کا یہاں ہونا ضروری تھا جو اس کا واضح تصور رکھتے تھے اور عرصۂ دراز سے اس کا تجربہ رکھتے تھے۔ چنانچہ شروع ہی سے مجھ سے اصرار کیا گیا۔ فوراً بعض وجوہ سے میرا آنا ممکن نہ ہوا، چنانچہ اوائل 1977ء میں مَیں نے برادرم فضل الرحمن فریدی کے آنے کی تجویز پیش کی جو بعض وجوہ سے سال بھر بعد عملی شکل اختیار کر سکی، پھر آخر 1978ء میں یہاں بغیر میری درخواست کے تقرر نامہ موصول ہوا، اور اصرار کیا گیا کہ میں آجاؤں، اور میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 319)
1978ء میں آپ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر وابستہ ہوگئے، اوریہاں تقریباً بائیس سال تک مقیم رہے۔ 2000ء تک آپ یہاں رہ کر تدریس اور تحقیق کا کام انجام دیتے رہے۔
2001ء میں آپ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سینٹر فار نیئر ایسٹرن اسٹڈیز سے وابستہ ہوگئے۔ 2002ء اور 2003ء میں آپ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک جدہ کے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے وزیٹنگ اسکالر کے طور پر وابستہ رہے۔
اگست، ستمبر2006ء میں آپ نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا میں متعدد توسیعی لیکچر دیے۔
2010ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے آپ کو ڈپارٹمنٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے پروفیسر ایمریٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے تعلیمی وتدریسی سفر کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم پر یہ اعتراض شدت سے کیا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر بیرون ملک کیوں منتقل ہوگئے، جبکہ ہندوستان کی اسلامی تحریک اور یہاں کے اکیڈمیا کو ان کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں ایک بہت ہی دلچسپ خط کتابت جناب جاوید اقبال صاحب (سابق منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی) اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے درمیان ہوئی، گفتگو کے کچھ اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔ جاوید اقبال صاحب مارچ 1983ء میں اپنے ایک خط میں نجات اللہ صدیقی صاحب کو ان کی تحریروں اور جماعت اسلامی ہند کے افراد کے درمیان ان کی حیثیت اور مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہرحال، ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ اپنے ملک میں مادہ پرست اور لادینی سیاست کی قیادت کو چوٹی سے پکڑ زمین پر پٹخ دینا چاہتے تھے، اب وہ وقت بھی آیا جبکہ ملک وملت کو آپ کی شدید ضرورت تھی، تب آپ نے ترکِ وطن کا فیصلہ کرلیا، چاہے عارضی ہی سہی۔‘‘(حوالہ سابق: 316)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خوبی تھی کہ وہ ہر بات کا بہت سنجیدگی اور بہت معقول انداز سے جواب دینے کی کوشش کرتے تھے، جاوید اقبال صاحب کے خط کا جواب بھی انہوں نے بہت ہی خوب صورت انداز میں دیا ہے، یہ پورا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، ذیل میں اس کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:
’’جاوید اقبال صاحب، بات یہ ہے کہ جس انقلاب کے ہم خواہاں ہیں اس کے لیے بہت سے میدانوں میں مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ شروع کے دور میں ایک ضروری کام انقلابی جوش پیدا کرنا تھا، لیکن آگے صرف جوش سے کام نہیں چلتا، اس جوش کو قابو میں لاکر مسلسل محنت کی شکل دینے کی ضرورت ہے، انقلاب کے لیے درکار بہت سے کاموں کی نشاندہی عصر حاضر میں تحریکِ اسلامی کی تجدید کرنے والوں، بالخصوص مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اچھی طرح کی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر ذیل کی دو کتابوں کو دوبارہ دیکھ لیں:
(1) نشانِ راہ (جو الگ سے بھی چھپا ہے اور تنقیحات میں بھی شامل ہے)
(2) تعلیمات بالخصوص مقالہ’’نیا نظام تعلیم‘‘۔
ان تحریروں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے ایک فکری انقلاب ناگزیر ہے۔ اس فکری انقلاب کے لیے دو کاموں کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ہر میدانِ علم کی نسبت سے قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی نکات متعین کر کے ان علوم کی اسلامی تشکیل ِنو عمل میں لائی جائے۔ دوم یہ کہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب نے ان علوم کی جو تشکیل کر رکھی ہے اس کو علمی تنقید کر کے بے بنیاد، غلط اور انسانیت کے لیے مضر ہونا ثابت کر دیا جائے۔‘‘(حوالہ سابق: 317-318)
آگے اس خط میں بہت ہی اختصار کے ساتھ نجات اللہ صدیقی مرحوم نے اپنی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، اس میں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیوں چلے گئے تھے، پھر وہاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر ثانوی درسگاہ کیوں چلے آئے تھے اور پھر ثانوی درسگاہ سے واپس یونیورسٹی کی دنیا میں کیوں چلے گئے، لکھتے ہیں:
’’میں نے اور میری طرح بعض اور دوستوں نے ان تحریروں سے یہ سبق سیکھا ہے کہ تحریک کی خدمت کے لیے ایک میدانِ علم چن لیں اور اس کے ذریعے مذکورہ بالا دونوں کام انجام دے کر اسلامی تحریک کی خدمت اور اسلامی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی زندگی لگادیں۔ میں نے یہ فیصلہ اپنی عمر کے اٹھارہویں انیسویں سال میں (1950-1949ء) بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی کر لیا تھا۔ ہمارے لیے یہ ممکن بھی تھا اور موزوں بھی، کیونکہ ہم طالب علم تھے (جو رفقائے جماعت اُس وقت عمر کے چالیسویں سال میں تھے، ظاہر ہے کہ ان کے لیے ایسا فیصلہ نہ ممکن تھا، نہ موزوں ہوتا)، میں نے انجینئرنگ کی لائن کی تعلیم چھوڑی، جس کے لیے انٹرمیڈیٹ سا ئنس کیا تھا اور مسلم یونیورسٹی میں عربی اور اکنامکس کے ساتھ بی اے میں داخلہ لیا۔ پھر یہ تعلیم ناقص نظر آئی تو جنوری 1950ء میں رام پور منتقل ہوگیا جہاں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی۔ اس سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ سرائے میر، پھر کچھ عرصہ علی گڑھ میں مزید مطالعہ وتحقیق کا سلسلہ رہا۔ اس مرحلے پر 1956ء میں یہ واضح ہو گیا کہ دورِ جدید میں علمی و تحقیقی کام، وہ بھی ایسا کام جو قدیم جدید کو جامع ہو، یونیورسٹی میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم خوداتنے وسائل نہیں اکٹھا کر سکتے۔‘‘(حوالہ سابق: 318)
یہ خط بہت طویل ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بڑا حصہ یہاں درج کیا جارہا ہے، یہ خط نجات اللہ صدیقی کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی ہے، میرے خیال سے یہ خط نجات اللہ صدیقی کی زندگی کو سمجھنے والوں کے لیے ایک اہم ترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، آگے لکھتے ہیں:
’’جولوگ مجھے قریب سے جانتے اور دیکھتے رہے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ ہر مرحلے میں میرے لیے اصل کام اسلامی معاشیات کو سمجھنے سمجھانے، مرتب کرنے اور اس عمل کے لیے چند اور لوگوں کو منظم کرنے کا رہا ہے۔ معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے ملازمت اور اس کے تقاضے اس لیے پورے کیے گئے کہ وہی اصل کام کے لیے بنیاد فراہم کرتے تھے، اور خدا کا شکر ہے کہ اکنامکس کا استاذ ہونے کی وجہ سے وہ اصل کام میں مددگار بھی ہوتے رہے۔‘‘(حوالہ سابق: 319)
سعودی عرب قیام کے دوران ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اسلامی معاشیات کے حوالے سے کئی طرح کی خدمات انجام دیں، اس سلسلے میں انہوں نے ایک طرف انٹرنیشنل ایڈووکیسی کا کام انجام دیا، دوسری طرف عرب دنیا کی یونیورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ متعارف کرانے کی پوری کوشش کی، بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو داخلِ نصاب کرانے میں انہیں غیرمعمولی کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اس سلسلے میں جس پروجیکٹ پر وہ کام کررہے تھے اس کے اہم ترین پروگرام کچھ اس طرح تھے:
علمِ معاشیات اور معاشی نظام کے حوالے سے تقریباً ڈیڑھ سو موضوعات پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا گیا اور اس کو دنیا بھر کے تین سو علماء اور ماہرینِ معاشیات کی خدمت میں ارسال کیا گیا کہ وہ ان موضوعات پر تحقیقی مقالہ یا کتاب لکھیں۔ اس پر ان لوگوں کو معقول معاوضہ دینے، اور ان کے کام کی بڑے پیمانے پر اشاعت کی یقین دہانی بھی موجود تھی۔ ان مقالات اور کتابوں پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھی نظرثانی کرتے اور انہیں اکیڈمک معیار کے مطابق ایڈٹ کرکے شائع کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے اکیڈمیا میں اسلامی معاشیات کا موضوع نہ صرف متعارف ہوا، بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔
اس اسکیم سے تقریباً سو سے زائد وہ اسکالر اور پروفیسر وابستہ ہوئے جن کا تعلق امریکہ اور دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوںسے تھا۔
اس کے علاوہ ہر سال دو سال بعد کانفرنس اور سیمینار منعقد کرتے، جن میں اسلامی معاشیات کے اہم موضوعات کو زیربحث لایا جاتا۔
ان کوششوں کے نتیجے میں درجنوں یونیورسٹیوں میں بی اے اور ایم اے میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ پڑھایا جانے لگا۔
ریسرچ اسکالرز کی ایک بڑی تعداد نے پی ایچ ڈی کے لیے اسلامی معاشیات سے متعلق کسی نہ کسی موضوع کا انتخاب کیا۔
اسلامی معاشیات سے متعلق اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے باقاعدہ پروگرام کیے گئے۔
اسلام آباد میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کا قیام عمل میں آیا، ملیشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اس سلسلے کی اہم کوششیں ہوئیں۔
اس پروجیکٹ سے متعلق یہ تمام باتیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے خود قلم بند کی ہیں۔
جاوید اقبال صاحب کے نام اس خط کے آخر میں ہندوستان کی تحریک اسلامی سے وابستہ بہت سے افراد کے نامناسب رویّے پر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا درد چھلک پڑتا ہے، وہ اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے صاف طور پر لکھتے ہیں:
’’میں جو آپ سے’’نشانِ راہ‘‘اور’’نیا نظام تعلیم‘‘دوبارہ پڑھنے کو کہہ رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مذکورہ بالا کام اور اسلامی انقلاب کے درمیان رشتہ سمجھ لیں، جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے دوست یہ خیال کرسکتے ہیں کہ میں یہاں دولت کمانے آیا ہوں۔ جولوگ ایسا خیال کریں ان سے میرا کوئی شکوہ نہیں۔ والی اللہ المشتکی
میرا اللہ جانتا ہے کہ میں جس کام کے لیے ثانوی درس گاہ گیا تھا اسی کام کے لیے اس مرحلے میں سعودی عرب آیا ہوں۔ میں اپنی محدود قوتیں اور اوقات عمر کے فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے جس طرح وہاں صرف کرتا تھا اسی طرح یہاں اسی کام کے لیے صرف کررہا ہوں‘‘۔ (حوالہ سابق: 320-321)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے علمی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اجتماعی زندگی بھی گزاری اور خاص طور پر ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر صدیقی ملّتِ اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی کے سلسلے میں نہ صرف فکرمند رہا کرتے تھے بلکہ ملت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر بہت ہی واضح اور جرأت مندانہ مؤقف بھی رکھتے تھے۔
ڈاکٹر صدیقی ملّتِ اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی سے متعلق ایک واضح پروگرام اور نقشۂ کار رکھتے تھے، اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر بہت ہی شدومد کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صدیقی کا مزاج شروع سے علمی اور فکری محاذ پر کام کرنے کی طرف مائل رہا، اور علمی وفکری محاذ پر وہ بہت ہی ڈائنامک انداز میں کام کرتے رہے، البتہ عملی قیادت اور نظم وانتظام کا کام ان کے مزاج سے بہت زیادہ ہم آہنگ نہیں تھا، چنانچہ وہ تحریک اسلامی میں بھی اور دوسرے ملّی پلیٹ فارمز پر بھی زمینی قیادت کا حصہ کبھی نہیں بن سکے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی اپروچ عام تحریکی مفکرین اور مصنفین سے خاصی مختلف ہوا کرتی تھی۔ عملی زندگی میں بھی وہ بہت کشادہ اور وسیع الظرف واقع ہوئے تھے اور فکری وعلمی محاذ پر بھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے والد محترم بہت علم دوست بھی تھے اور بہت کشادہ ظرف بھی۔ ان کے یہاں ابوالکلام آزاد کے’’البلاغ‘‘اور’’الہلال‘‘بھی آتے تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی کا ’’التبلیغ‘‘بھی آتا تھا، اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ’’ترجمان القرآن‘‘بھی۔ اُس زمانے میں سیرت کمیٹی لاہور کا ترجمان’’ایمان‘‘ کافی مقبول تھا، یہ مجلہ آپ کے یہاں بڑی تعداد میں آتا تھا اور شہر بھر میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر صدیقی نے بہت کم عمری سے مختلف مکاتب فکر سے استفادے کا جو مزاج پایا تھا وہ آخری عمر تک باقی رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں اور خاص طور پر خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے نہ صرف استفادہ کرتے تھے بلکہ ان سے ایک گہرا تعلق بھی رکھتے تھے۔
جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل آپ کچھ دن مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم ’’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘سے بھی وابستہ رہے اور کچھ دن علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی طرف بھی میلان رہا۔
والد محترم کی ذاتی لائبریری میں ماہنامہ ترجمان القرآن سے مستقل استفادے کے نتیجے میں مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے آپ پہلے سے واقف تھے اور ان سے مستقل استفادہ بھی جاری تھا، البتہ 1946ء کے آس پاس آپ کچھ مقامی افراد کی کوششوں سے جماعت اسلامی کے مقامی یونٹ گورکھپور سے جڑ گئے اور پھر جماعت اسلامی کی فکر اور تحریک کے لیے مکمل طور پر یکسو ہوگئے۔ چند سال بعد 1950ء میں رکن ہوئے، اور پھر تادم زیست جماعت اسلامی سے وابستہ رہے، البتہ عمر کے آخری مرحلے میں امریکی شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی ہند میں ان کی رکنیت برقرار نہ رہ سکی، جس کا انہیں آخر تک شدید صدمہ تھا۔
مولانا مودودیؒ کے ساتھ خط کتابت:
مولانا مودودی علیہ الرحمہ سے آپ کی خط کتابت کا آغاز 1944ء کے اواخر یا 1945ء کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا، اور مولانا مودودیؒ کی وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کے نام مولانا مودودیؒ کا پہلا خط 28 جنوری 1945ء، اور آخری خط 6 مئی 1979ء کا ہے۔ ان خطوط سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور ڈاکٹر صدیقی علیہ الرحمہ کی قربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی کہ مولانا مودودیؒ ڈاکٹر صدیقی کی بات کو کس قدر سنجیدگی سے سنتے تھے۔ ان خطوط میں فکرِ اسلامی اور تحریک ِاسلامی سے متعلق بہت سی اہم اور منفرد باتوں کی وضاحت ہے۔ مثلاً 4 جولائی 1962ء کو ایک خط کے جواب میں مولانا مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کے نقطہ نظر کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں اور جس حد تک اپنی اخروی ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے لبرلزم برت سکتا ہوں برتتا بھی ہوں۔ لیکن پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ حالات کو جس رخ پر جاتے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر کوئی ایسی بات کرتے ہوئے میری روح کانپ جاتی ہے جو بے لگام اجتہادات کا دروازہ کھولنے کی ذمہ داری میں مجھے شریک کردے۔ میرا خیال یہ ہے کہ میری اس احتیاط کی روِش سے جو نقصان ہوسکتا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان یہ احتیاط ملحوظ نہ رکھنے سے ہوجائے گا۔ گاڑی بہت گہرے نشیب کی طرف جارہی ہے۔ بر یک ڈھیلا کرتے ہی سیدھی کھڈ میں جاگرے گی۔‘‘(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 29)
مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کئی کتابوں کو اشاعت سے قبل دیکھنے کے بعد ان پر تفصیلی نوٹس دیے اور بعض کے سلسلے میں اصولی رہنمائی فرمائی۔ خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’غیرسودی بینکاری‘‘، ’’شرکت ومضاربت کے شرعی اصول‘‘اور’’معاصر اسلامی فکر‘‘مولانا مودودیؒ نے اشاعت سے قبل دیکھی تھیں، اور ان کے تعلق سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔ ’’شرکت ومضاربت کے شرعی اصول‘‘نامی کتاب کے تعلق سے مولانا مودودیؒ نے جو اصولی رائے دی تھی، وہ کچھ اس طرح تھی:
’’اس مسئلے میں قانون کا ڈھانچہ تو حنفی ہی رہنا چاہیے، البتہ جہاں حنفی مسلک سے کام نہ چلتا ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مسلک کو اختیار کرلیا جائے، اور اسے اختیار کرنے کے حق میں مضبوط دلائل دے دیے جائیں۔ اگر چاروں مذاہب سے بھی کام نہ چلے تو پھر بدرجہ آخر دوسرے ائمہ مجتہدین کے جو اقوال کتابوں میں ملتے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کر لیا جائے‘‘۔ (حوالہ سابق، صفحہ 45)
(جاری ہے)